عہدمغلیہ میں لنگر خانوں کا عام چلن رہا مگر ان پر زیادہ تر مواد کتب میں محفوظ نہ رہ سکا اور زمانے کی دست برد سے نہ بچ سکا۔ محمد شاہ عادل ، بیرم خان اور مرزا عبدارحیم خان خاناں کے لنگر خانوں کا تذکرہ کسی قدر موجود ہے۔

محمد شاہ عادل کا لنگر خانہ ترمیم

محمد عادل شاہ والی بیجاپور کے عہد میں مسجدوں کے لنگر سے مسلمانوں کو پکا وہ کھانا ملتا تھا اس کے ساتھ ساتھ وہاں ان لوگوں کو خوش غذا بھی دی جاتی تھی ہر شخص کو حسب ذیل جنس ملتی تھیں جن میں گندم ، چاول،  دال، نقد برائے لکڑیوں مصالح شامل تھے۔ مسجدوں میں مسلمانوں کے لیے پانی کی سبیل ہوا کرتی تھی اور مسجد کے قریب ہی ایک سبیل ہندوؤں کے لیے بھی لگائی جاتی تھی جس میں ایک برہمن کو پانی پینے کے لیے نوکر رکھا جاتا تھا۔ [1]

بیجاپور کا قصہ تاریخ دکن سلسلہ آصفیہ میں محمد عادل شاہ کے حوالے سے ایک قصہ درج ہے، جس کے مطابق محمد عادل شاہ بیجاپور میں اپنے محل سے شہر کا نظارہ کر رہا تھا۔ شام کا وقت تھا اور پورے شہر پر برابر نظر پڑتی تھی۔ شہر کی تمام آبادی میں پھیلے ہوئے مکانوں سے دھواں اٹھتا دکھائی دیتا تھا سوائے محلہ بہمن پلی جہاں ہندو آباد تھے۔ دھوئیں پریشان نہ پاک ہے بادشاہ نے دربار دریافت کیا کس محلے میں کھانا پکانے کے آثار دکھائی نہیں دے رہے۔ سوزش کو بتائیں گے کہ اس ملک میں برآمد رہتے ہیں جو صرف دوپہر کو کھانا پکاتے ہیں خواجہ نے خیال کیا کہ شاید اس کی وجہ ان کی غربت اور مفلسی ہے اس نے اسی وقت کندیاں کے باہر والوں کے لیے سرکار سے وظائف مقرر کیے جائیں جس سے براہمنوں کے وظائف مقرر ہو گئے اس موقع پر اہل دربار نے بادشاہ کو یہ نہیں بتایا کہ یہ لوگ ناداری کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے دستور کی پانچ تاریخ کی وجہ سے صرف ایک وقت کا کھانا کھاتے ہیں تاکہ کہیں وہ خیر کے منکرین میں نہ شمار ہو جائیں [2]۔

شاہان مغلیہ کے لنگر خانے ترمیم

شاہان مغلیہ کے بڑے بڑے شہروں میں لنگر خانے جاری تھے۔ زبانوں کو بنا بنایا کھانا مل جایا کرتا تھا اور ہندوؤں کو جنسی مل جاتی تھی اکبر نے شہروں منزلوں میں جابجا خیرپور اور گھر پورا کے نام سے مکانات بنوا دیے تھے خیر پور میں مسلمانوں کو اور دھرم پورہ میں ہندوؤں کے ٹھہرنے کھانے پینے اور دیگر سامان آسائش کی چیزیں سرکار کی طرف سے ملا کرتی تھیں۔ جب آگرہ کے دھرم پورہ میں جوگی بھی کثرت سے آنے لگے تو ان کے واسطے ایک اور مکان بنوا کر جوگی پورہ اس کا نام رکھ دیا گیا۔ جس مقام پر مکان بنایا گیا تھا وہاں اب بھی ایک موضع اسی نام سے آباد ہے۔ شان وقت کے علاوہ زبان عمرہ بھی ہندو مسلمان دونوں کو نیکیوں میں گرنے کی نگاہ سے الگ کام نہ سمجھتے تھے بیرم خان خاناں اور مرزا عبد الرحیم خان خاناں کی دریا دلی اور سخاوت پورے ہندوستان میں مشہور تھی۔

حوالہ جات ترمیم

  1. تاریخ دکن سلسلہ آصفیہ، مطبوعہ مقید عام آگرہ
  2. عہد مغلیہ کے ہندو امرائے سلطنت، ص 57