غزوہ تبوک

عرب کی مسلمانوں کی فتوحات کے دوران محمد کی قیادت میں فوجی مہم
غزوہ تبوک
عمومی معلومات
مقام 28°23′00″N 36°35′00″E / 28.383333333333°N 36.583333333333°E / 28.383333333333; 36.583333333333   ویکی ڈیٹا پر (P625) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
متحارب گروہ
مسلمانانِ مدینہ غساسنہ
بازنطینی روم
قائد
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
قوت
30,000 40,000؟
نقصانات
Map

وجہ تسمیہ

تبوک مدینہ اور شام کے درمیان ایک مقام کا نام ہے جو مدینہ سے چودہ منزل دور ہے۔ بعض مؤرخین کا قول ہے کہ تبوک ایک قلعہ کا نام ہے اور بعض کا قول ہے کہ تبوک ایک چشمہ کا نام ہے۔ ممکن ہے یہ سب باتیں موجود ہوں۔

جیش عسرت

یہ غزوہ سخت قحط کے دنوں میں ہوا۔ طویل سفر، ہواگرم، سواری کم، کھانے پینے کی تکلیف، لشکر کی تعداد بہت زیادہ، اس لیے اس غزوہ میں مسلمانوں کو بڑی تنگی اور تنگ دستی کا سامنا کرنا پڑا۔ یہی وجہ ہے کہ اس غزوہ کوجیش العسرۃ (تنگ دستی کا لشکر) بھی کہتے ہیں

غزوہ فاضحہ

چونکہ منافقوں کواس غزوہ میں بڑی شرمندگی اورشرمساری اٹھانی پڑی تھی۔ اس وجہ سے اس کا ایک نام غزوہ فاضحہ(رسوا کرنے والا غزوہ) بھی ہے ۔

روانگی

اس پر تمام مؤرخین کا اتفاق ہے کہ اس غزوہ کے لیے حضور ﷺ رجب 9 ھ مطابق 630ء جمعرات کے دن روانہ ہوئے۔ رسول پاک تیس ہزار جان نثار غلاموں کے ساتھ مدینے سے روانہ ہوئے۔[1]

غزوۂ تبوک کا سبب

عرب کا غسانی خاندان جو قیصر روم کے زیر اثر ملک شام پر حکومت کرتا تھا چونکہ وہ مسیحی تھا اس لیے قیصر روم نے اس کو اپنا آلہ کار بنا کر مدینہ پر فوج کشی کا عزم کر لیا۔ چنانچہ ملک شام کے جو سوداگر روغن زیتون بیچنے مدینہ آیا کرتے تھے۔ انھوں نے خبر دی کہ قیصر روم کی حکومت نے ملک ِشام میں بہت بڑی فوج جمع کردی ہے۔ اور اس فوج میں رومیوں کے علاوہ قبائل لخم و جذام اور غسان کے تمام عرب بھی شامل ہیں۔ ان خبروں کا تمام عرب میں ہر طرف چرچا تھا اور رومیوں کی اسلام دشمنی کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں تھی اس لیے ان خبروں کو غلط سمجھ کر نظر انداز کردینے کی بھی کوئی و جہ نہیں تھی۔ اس لیے حضور اکرم ﷺ نے بھی فوج کی تیاری کا حکم دے دیا۔

تبوک کو روانگی

حضور ﷺ تیس ہزار کا لشکر ساتھ لے کر تبوک کے لیے روانہ ہوئے اور مدینہ کا نظم و نسق چلانے کے لیے علی المرتضی کو اپنا خلیفہ مقرر فرمایا

تبوک کا چشمہ

حضور ﷺ تبوک کے قریب میں پہنچے تو ارشاد فرمایا کہ ان شاء اﷲ تعالیٰ کل تم لوگ تبوک کے چشمہ پر پہنچو گے اور سورج بلند ہونے کے بعد پہنچو گے لیکن کوئی شخص وہاں پہنچے تو پانی کو ہاتھ نہ لگائے رسول اﷲ ﷺ جب وہاں پہنچے تو جوتے کے تسمے کے برابر اس میں ایک پانی کی دھار بہہ رہی تھی۔ آپ ﷺ نے اس میں سے تھوڑا سا پانی منگا کر ہاتھ منہ دھویا اور اس پانی میں کلی فرمائی۔ پھر حکم دیا کہ اس پانی کو چشمہ میں انڈیل دو۔ لوگوں نے جب اس پانی کو چشمہ میں ڈالا تو چشمہ سے زوردار پانی کی موٹی دھار بہنے لگی اور تیس ہزار کا لشکر اور تمام جانور اس چشمہ کے پانی سے سیراب ہو گئے۔[2]

رومی لشکر ڈر گیا

حضورِ اقدس ﷺ نے تبوک میں پہنچ کر لشکر کو پڑاؤ کا حکم دیا۔ مگر دور دور تک رومی لشکروں کا کوئی پتا نہیں چلا۔ واقعہ یہ ہوا کہ جب رومیوں کے جاسوسوں نے قیصر کو خبردی کہ رسول اﷲ ﷺ تیس ہزار کا لشکر لے کر تبوک میں آ رہے ہیں تو رومیوں کے دلوں پر اس قدر ہیبت چھا گئی کہ وہ جنگ سے ہمت ہار گئے اور اپنے گھروں سے باہر نہ نکل سکے۔ رسول اﷲ ﷺنے بیس دن تبوک میں قیام فرمایا اور اطراف و جوانب میں افواج الٰہی کا جلال دکھا کر اور کفار کے دلوں پر اسلام کا رعب بٹھا کر مدینہ واپس تشریف لائے اور تبوک میں کوئی جنگ نہیں ہوئی۔[3]

حوالہ جات

  1. زرقانی ج 3ص 63
  2. زرقانی ج3 ص76
  3. طبقات ابن سعد حصہ اول صفحہ 276 تا278محمد بن سعد نفیس اکیڈمی کراچی