بحرانی کمیئت (Critical mass) کسی انشقاقیہ (fissile) کی وہ مقدار ہوتی ہے کہ جو ایک مرکزی زنجیری تعامل کو برقرار رکھنے کے لیے درکار ہوتی ہے۔ کسی بھی قابل انشقاق مادے کی بحرانی کیمت، اس کی مرکزی خصوصیات (مثلا؛ مرکزی انشقاق عرضی تراشہ وغیرہ)، اس کی طبیعی خصوصیات (مثلا؛ کثافت) اور اس کی شکل اور افزودگی (enrichment) پر منحصر ہوتی ہے۔ کسی انشقاقیہ (fissile) کو اگر ایک تعدیلہ عاکس (neutron reflector) سے غلاف کر دیا جائے تو اس کی درکار بحرانی کمیئت کو کم کیا جا سکتا ہے۔ اس موضوع پر مــزید تفصیل کے لیے اس کا صفحہ مخصوص ہے تعدیلہ تابکاری ۔

بحرانی کمیئت کا مظہر پیدا کرنے کے لیے ایک پلوٹونیئم کا کرہ، جس کو عاکس تعدیلہ (نیوٹرون ریفلیکٹر) سے غلاف کیا گیا ہے۔

کریٹیکل ماس critical mass)‎) سے مراد کسی قابل انشقاقfissile) ‎) مادے کی وہ مقدار ہے جس میں تسلسل سے جوہری مرکزے (nucleus) ٹوٹنے کا عمل (‎ )chain reaction چلتا رہے یہاں تک کہ وہ مادہ تحلیلdisintigrate) ‎) ہو جائے۔ ایسا صرف ایٹم بم کے اندر ہوتا ہے یا حادثاتی طور پر جوہری بجلی گھر کے اندر ہو سکتا ہے۔
ایٹم بم کو وقت سے پہلے پھٹنے سے روکنے کے لیے اس میں موجود یورینیم یا پلوٹونیم کو کبھی بھی ایک ٹکڑے کی شکل میں نہیں رکھا جاتا بلکہ دو یا زیادہ حصوں میں تقسیم کر کے رکھا جاتا ہے اس طرح ہر ٹکڑا subcritical ‎ ہونے کی وجہ سے پائیدار ہوتا ہے۔ ایٹم بم پھاڑنے کے لیے explosive lens میکینزم سے ان ٹکڑوں کو آپس میں انتہائ تیزی سے ملا کر ویلڈ weld کر دیا جاتا ہے جس سے مرکزے ٹوٹنے کا عمل چل پڑتا ہے اور بالآخر دھماکا ہو جاتا ہے۔

99.96 فیصد خالص پلوٹونیئم کا چھلہ جس کا وزن 5.3 کلو گرام ہے اور یہ ایک ایٹم بم بنانے کے لیے کافی ہے۔ اگر اسے گول گیند کی شکل میں بنایا جائے تو کریٹیکل ہونے کی وجہ سے یہ خود بخود پھٹ جائے گا۔
چھوٹے کرہ میں سے نیوٹرون باہر نکل کر ضائع ہو جاتے ہیں۔ بڑے کرہ میں نیوٹرون باہر نکل کر ضائع ہونے سے پہلے ہی زنجیری تعامل مکمل کر لیتے ہیں۔ چھوٹے کرہ کے گرد نیوٹرون رفلیکٹر ہونے سے بھی نیوٹرون باہر نکل کر ضائع نہیں ہوتے اور زنجیری تعامل ممکن ہوتا ہے۔

جب یورینیم کا ایک ایٹم ٹوٹتا ہے تو دو یا تین نیوٹرون خارج کرتا ہے مگر ان نیوٹرونوں کی رفتار اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ یہ فوراً کسی دوسرے یورینیم کے ایٹم کو نہیں توڑ سکتے۔ اس کے لیے ذرا سست رفتار‎ ‎نیوٹرون (تھرمل نیوٹرون) زیادہ کار آمد ہوتے ہیں۔ تیز رفتار نیوٹرون جب یورینیم میں سفر کرتے ہیں تو ان کی رفتار کم ہوتی چلی جاتی ہے اور چند سنٹی میٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد وہ اس قابل ہو جاتے ہیں کہ کسی دوسرے یورینیم کے ایٹم کو توڑ سکیں۔ اگر یورینیم کا ٹکڑا بہت چھوٹا ہو گا تو یہ نیوٹرون کسی دوسرے ایٹم کو توڑنے سے پہلے ہی ٹکڑے کی سطح سے باہر نکل کر ضائع ہو جائں گے اور chain reaction جاری نہیں رہ سکے گا۔ لیکن اگر یورینیم کا ٹکڑا بڑا ہو گا تو بیشتر نیوٹرون سطح تک پہنچنے سے پہلے ہی مناسب سست رفتار تک آ جائیں گے اور دوسرے ایٹموں کو توڑنے میں استعمال ہو جائیں گے اس طرح مزید نیوٹرون خارج ہوں گے اور یہ عمل تیز تر ہوتا چلا جائے گا۔ جوہری بجلی گھر میں اس عمل کو تیز تر نہیں ہونے دیا جاتا اور زائد نیوٹرون کیڈمیئم کی سلاخوں میں جذب کر لیے جاتے ہیں تا کہ دھماکا نہ ہونے پائے۔ اس کے بر عکس ایٹم بم میں ایسا کوئی کنٹرول نہیں ہوتا جس کی وجہ سے نیوٹرون کی تعداد تیزی سے بڑھتی ہے اور دھماکا ہو جاتا ہے۔
جہاں بھی یورینیم اور اس طرح کا مواد ذخیرہ کیا جاتا ہے وہاں اس بات کا سختی سے خیال رکھا جاتا ہے کہ یورینیم کی مخصوص مقدار رکھنے کے بعد سیسہ (lead) کی موٹی چادر (sheet) ضرور رکھی جائے پھر اس پر مزید یورینیم رکھا جائے۔ اس اصول کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے کئی حادثے ہو چکے ہیں جنہیں criticality accident کہتے ہیں۔
ایٹم بم بنانے والے ممالک اس بات کو ظاہر نہیں کرتے کہ یورینیم اور پلوٹونیم کا کریٹیکل ماس کتنا ہوتا ہے مگر سائنس دانوں کا خیال ہے کہ یورینیم 235 کی گول بال جس کا وزن 52 کلوگرام ہو کریٹیکل ہوتی ہے۔ اگر یورینیم کی بال کے گرد نیوٹرون رفلیکٹر (‎ (neutron reflector مثلا tungsten carbide ‎ موجود ہو تو محض 15 کلوگرام کریٹیکل ہو جاتا ہے۔ یہ نیوٹرون رفلیکٹر کسی آئینہ کی طرح کام نہیں کرتے بلکہ نیوٹرون جذب کر کے دوبارہ خارج کرتے ہیں۔ پلوٹونیم238 کا کریٹیکل ماس 10 کلوگرام ہوتا ہے۔
جس طرح نیوٹرون رفلیکٹر کے استعمال سے کریٹیکل ماس کم ہو جاتا ہے اسی طرح کثافت بڑھانے سے بھی کریٹیکل ماس کم ہو جاتا ہے۔ مگر ایک ٹھوس دھاتی گولے کو دبا کر چھوٹا کرنے کے لیے بے انتہا زیادہ دباؤ (پریشر) کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ دباؤ ایٹم بم کے اندر تو پیدا کیا جا سکتا ہے مگر جوہری بجلی گھر میں ممکن نہیں۔ ایٹم بم میں اتنا زیادہ دباؤ بارود کی طرح کے دھماکا خیز مواد سے کیا جاتا ہے جس کے پھٹنے سے یورینیم یا پلوٹونیم پر ہر سمت سے زبردست دباؤ پڑتا ہے اور محض چند مائکرو سیکنڈ کے لیے اس کی جسامت (حجم) چھوٹی ہو جاتی ہے اس طرح اس کی کثافت بڑھ جاتی ہے جس کی وجہ سے sub-critical ماس supra-critical ماس میں تبدیل ہو جاتا ہے اور ایٹمی دھماکا ہو جاتا ہے۔

مزید دیکھیے ترمیم