حکیم ابو القاسم علی طوسی معروف بہ فردوسی دسویں صدی عیسوی (چوتھی صدی ھجری) کے نامور اور معروف فارسی شاعر جو 940ء (329 ھ) میں ایران کے علاقے خراسان کے ایک شہر طوس کے نزدیک ایک گاؤں میں پیدا ہوئے اور 1020ء (410ھ) کو اسی سال کی عمر میں وہیں فوت ہوئے۔ بعض روایات میں آپ کا سالِ وفات 1025ء (416ھ) اور عمر پچاسی سال بھی ملتی ہے۔[5] آپ کا شاہکار شاہنامہ ہے جس کی وجہ سے آپ نے دنیائے شاعری میں لازوال مقام حاصل کیا۔

فردوسی
(فارسی میں: فِردُوسی ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائشی نام (فارسی میں: حَکیم اَبوالقاسِم فِردُوسی طوسی ویکی ڈیٹا پر (P1477) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیدائش سنہ 940ء[1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طوس  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 1020ء (79–80 سال)[1][2]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طوس  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن طوس  ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت دولت سامانیہ
سلطنت غزنویہ  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شاعر[3]،  مصنف[2]  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان فارسی[4]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاں شاہنامہ فردوسی  ویکی ڈیٹا پر (P800) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

حالات زندگی ترمیم

فردوسی کی کنیت ابو القاسم ہے اور اس کے تخلص اور کنیت پر کسی محقق کو اختلاف نہیں ،لیکن اس کے نام اور اس کے والد کے نام پر تذکرہ نویسوں میں اختلاف ہے۔البنداری نے شاہنامہ کے عربی ترجمے میں اس کا نام حسن بن منصورلکھا ہے لیکن تاریخ گزیدہ میں حسن بن علی ،تذکرہ دولت شاہ اور آتش کدہ میں حسن بن اسھاق بن شرف شاہ لکھا ہے ۔
پروفیسر براؤن بھی اسی بات پر متفق ہیں کہ اس کا نام حسن بن اسحاق بن شرف شاہ ہے۔لیکن فردوسی کے نام اور اس کی ولدیت پپر البنداری کا ترجمہ سب سے قیدمی شاہد ہے۔جدید نقاد حافظ محمود شیرانی اور شفق بھی اس سے متفق ہیں اس لیے اس کا نام حسن بن منصور ہی سمھجنا چاہیے۔[6]نظامی عروسی سمر قندی نے چہار مقالہ میں فردوسی کے حالات زندگی پر کچھ روشنی ڈالی ہے۔وہ لکھتا ہے کہ فردوسی علاقہ طوس میں طابران کے قریب ایک گاؤں ’’باژ‘‘ کا رہنے والاتھا۔جہاں اس کے آبا و اجداد کھیٹی باڑی کیا کرتے تھے۔لیکن تیموری شہزادہ بایسنغر مرزا نے جو شاہنمانہ کا مقدمہ لکھا ہے۔اس میں فردوسی کے گاؤں کا نام ’’شاداب‘‘ رقم کیا ہے۔بہر حال یہ مسلم ہے کہ فردوسی کے علاقے کا رہنے والاتھا۔یہ وہی مردم خیز خطہ ہے جس نے ’’امام غزالی،محقق طوسی اور نظام الملک‘‘ ایسے نامور عالم پیدا کیے۔[7]

سنہ ولادت ترمیم

فردوسی کے نام کی طرح اس کی سنہ ولادت کے حوالے سے بھی مورخین کے درمیان اختلاف ہے۔اس سلسلے میں ایران کے مشہور محقق اور ادیب ڈاکٹر رضا زادہ شفق اینی کتاب ’’تاریخ ادبیات ایران‘‘ میں لکھتا ہے کہ ’’فرودوسی کی پیدائش کی کوئی تاریخ نہ تو روایتوں کے ذریعہ اور نہ شاہنامے کے اشعار کے ذریعہ متعین کی جا سکتی ہے کیونکہ اگرچہ شاہنامہ میں کئی جگہ اس نے اپنے سن کا ذکرکیا ہے اور 58سے لے کر 76بلکہ 80 سال تک بتایا ہے،لیکن چونکہ اس نے شاہنمانہ کی ابتدا کی تاریخ نہیں بتائی ہے اس لیے اس کی پیدائش کی تاریخ کے بارے میں کوئی قطعی رائے قائم نہیں کی جاسکتہ۔بس قیاساات سے کام لیا جاسکتاہے۔مثلاً فردوسی نے اپنے مختلف سنوں کا جو ذکر کیا ہے ان میں آخری سن 80 سال ہے۔یہی سن شاہنامے کے اختتام کا زمانہ ہوگا۔لیکن شاہنامہ کے بعض قلمی نسخوں جیسے لیڈن(ہالینڈ) اور اشترازبرگ(جرمنی) کے نسخوں میں آخری سن 76سال لکھا ہے۔شاہنامہ کے خاتمے کے ایک شعر سے ہمیں شاہنامہ کے اختتام کی تاریخ معلوم ہوجاتی ہے ،کہتا ہے ۔
زہجرت شدہ پنج ہشتاد بار
کہ من گفتم این نامۂ نامدار
یعنی اس نے 400 ھ میں شاہنامہ مکمل کر لیا اور 400 ھ میں اس کی عمر 76سال تھہ،ایسی صورت میں اس کی تاریخ ولادت 324ھ ہو گی لیکن شاہنامہ کے آخر میں ای اور شعر بھی ملتا ہے ،کہتا ہے:
کنون عمر نزدیک ہشتاد شد
امیدم بہ یکبارہ بربادشد
لیکن اور اشعار کی روسے فردوسی کی پیدائش کی تاریخ 330ھ کے لگ بھگ بھی ہو سکتی ہے کیونکہ ان اشعار کی رو سے فردوسی ،سلطان محمود کے جلوس کے وقت یعنی 389ھ میں 58سال کا تھا اس اس لحاظ سے اس کی پیدائش کی تاریخ 330ھ ہوتی ہے ۔[8]

شاہنامہ ترمیم

شاہنامہ جس کا لفظی مطلب شاہ کے بارے یا کارنامے بنتا ہے، فارسی ادب میں ممتاز مقام رکھنے والی شاعرانہ تصنیف ہے جو فارسی شاعر فردوسی نے تقریباً 1000ء میں لکھی۔ اس شعری مجموعہ میں “عظیم فارس“ کے تہذیبی و ثقافتی تاریخ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ مجموعہ تقریباً 60000 سے زائد اشعار پر مشتمل ہے۔ اس ادبی شاہکار، شاہنامہ میں ایرانی داستانیں اور ایرانی سلطنت کی تاریخ بیان کی گئی ہے۔ یہ واقعات شاعرانہ انداز میں بیان کیے گئے ہیں اور اس میں عظیم فارس سے لے کر اسلامی سلطنت کے قیام تک کے واقعات، تہذیب، تمدن اور ثقافت کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ایرانی تہذیب اور ثقافت میں شاہنامہ کو اب بھی مرکزی حیثیت حاصل ہے، جس کو اہل دانش فارسی ادب میں انتہائی لاجواب ادبی خدمات میں شمار کرتے ہیں۔

شاہنامے کی تاریخی اہمیت ترمیم

مرمزا مقبول بیگ بدخشانی اپنی کتاب ’’ادب نامہ ایران‘‘ میں شاہنامے کی تاریخی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ شاہنامے میں بعض فوق العادہ واقعات کا ذکر آتا ہے مثلاً طہورت کا دیووں پر غلبہ پانا اور ان سے تیس زبانیں سیکھنا ،جمشید کا دیوؤں سے محمل تعمیر کرانا،ضحاک کے کندھوں سے سانپوں کا ابھرنا، زوال کا سیمرغ کی آغوش میں تربیت پانا وغیرہ۔ان غیر حقیقی واقعات کی وجہ سے بسا اوقات شاہنامے پر حرف غیری کی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ قدیم زمانے میں ایران کی کوئی مستند تاریخ موجود نہ تھی۔’’اوستا‘‘،’’خدائی نامک‘‘،یادگار زریران ‘‘اور ’’کارنامک اردشیر پایکان‘‘ ایسی کتابیں ضرور دستیاب ہوتی تھیں ،ان کتابوں میں قدیمی بادشاہوں کے حالات وواقعات درج تھے اور متعدد فوق العادہ اور غیر حقیقی باتیں ان سے منسوب کی جاتی تھیں۔ فردوسی کو شاہنامے کی تیاری میں یہی تاریخی مواد میسر آیا، جسے اس نے جوں کا توں نظم کیا دیا۔[9]

شاہنامہ کے ماخذ ترمیم

شاہنامہ کے تاریخی مواد کے سلسلے میں مرزامقبول بدخشانی ،ڈکٹر رضا شادہ شفق کی تاریخ ادیبات ایران کے حوالے سے لکھتا ہے کہ:شاہنامہ کا مدیمی ماکذ ’’اوستا‘‘ اور اوستا سے متعلقہ کتابیں مثلاً ’’بندہشن‘‘اور ’’دین کرت‘‘ وغیرہ ہیں یزدان اور اہر من کا ذکر،زرتشت سے متعلقہ روایات ،تخلیق کائنات کی داستان ،کیومرث اور کیانی بادشاہوں کی خیایات ،جمشید فریدون کے قصے سب اوستا سے ماخود ہیں ۔‘‘ان کے علاوہ عربی زبان کی کتابیں بھی شاہنامہ کا ماخذہیں۔جو پہلوی سے فارسی میں ترجمہ ہو چکی تھیں۔مثلا سیر الملوک عبد اللہ بن مقفع،سیر الملوک محمد بن جہم البرمکی ،سیر الملوک ہشام بن القاسم ،سیر الملوک بہرام شاہ بن مردان شاہ،سیر الملوک بہرام اصفہانی۔ابو ریحان البیروبی نے آثار الباقیہ لکھتے ہوئے متذکرہ کتابوں سے استفادہ کیا تھا جس کا اعتراف اس نے دیباچے میں کیا ہے۔ظاہر ہے کہ یہ تاریخی کتابیں فردوسی کی نظر سے بھی گذری ہوں گی۔ان کے علاوہ سامانی دور کے حکمرانوں نے دادودہش سے علما کو اس بات پ آمادہ کیا تھا کہ ملکہ زبان فارسی میں اپنی تصانیف پیش کریں ،چنانچہ فردوسی سے پہلے فارسی نظم و نثر میں کئی کتابیں تالیف ہو چکی تھی ۔
پروفیسر براؤں شاہنامہ کے ماکذوں سے ’’کارنامک اردو شیر بابکان‘‘ ا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔’’جب اس کتاب کا شاہنامہ سے مقابلہ کیا جاتاہے تو معلوم ہوتا ہے کہ فردوسی نے اس کا پورا تتبع کیا ہے۔یہ دیکھ کر اس کی اہمیت ہماری نظر میں اور بڑھ جاتی ہے کہ جن کتابوں کو پیچ نظر رکھ کر اس نے شاہنامہ لکھا ہے ان کے ساتھ شاہنامے کی ترتیب وار مطابقت پائی جاتی ہے ۔‘‘[10]

نگار خانہ ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. ^ ا ب http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb11902551m — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  2. ^ ا ب مکمل کام یہاں دستیاب ہے: https://www.bartleby.com/lit-hub/library — عنوان : Library of the World's Best Literature
  3. https://cs.isabart.org/person/107604 — اخذ شدہ بتاریخ: 1 اپریل 2021
  4. http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb11902551m — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  5. "انسائیکلوپیڈیا ایرانیکا،"۔ 15 اکتوبر 2010 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 جولا‎ئی 2010 
  6. ادب نامہ ایران ،از مرزا مقبول بیگ بدخشانی،لاہور:نگارشات پبلی کیشنز،ص156
  7. ایضا
  8. تاریخ ادبیات ایران ،از ڈکٹر رضا زادہ شفق،مترجم سید مبارز الدین رفعت،دھلی:ندوۃ المصنفین ص102
  9. ادب نامہ ایران،ص164
  10. ادب نامہ ایران،ص162

بیرونی روابط ترمیم