مولانامحمدامیربندیالوی دیوبندی مکتب فکرسے تعلق رکھنے والے عالم دین تھے۔

محمد امیر بندیالوی
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1914ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ضلع خوشاب   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات 1 ستمبر 1971ء (56–57 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات دورۂ قلب   ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرز وفات طبعی موت   ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاذ کفایت اللہ دہلوی ،  حسین علی نقشبندی میانوالوی   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ عالم   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

پیدائش اورخاندانی پس منظر ترمیم

1914ءمیں ضلع خوشاب کے مشہورگاؤں بندیال میں مولوی فضل کریم کے ہاں پیداہوئے۔ آپ کاتعلق ایک علمی گھرانے سے تھا۔آپ کے جدامجدمولوی سلطان محمودنامی گرامی وقت کے عظیم عالم دین اورپنجابی،عربی اورفارسی کے باکمال شاعرتھے۔ آپ کے والد محترم بھی مولاناحسین علی الوانی کے خلیفہ مجازاورعلمی وراثت کے امین تھے۔ آپ کے برادران مولوی عبد الکریم اورمولوی سیدامیرکی دینی خدمات بھی ناقابل فراموش ہیں۔ [1]

تعلیم ترمیم

آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم سے حاصل کی اوردرسی کتب کے لیے انہی ضلع منڈی بہاو الدین کارخ کیااور وقت کی عظیم شخصیات مولوی غلام رسول اور مولاناولی الله گلیانوی سے استفادہ کیا۔دورہ حدیث کے لیے دہلی میں مفتی کفایت الله دہلوی،خدابخش بھیروی اورضیاءالحق دہلوی کے سامنے زانوئے تلمذتہہ کیادورہ تفسیرکے لیے مولاناحسین علی الوانی کے ہاں تشریف لائے۔ [2]

عملی زندگی ترمیم

عملی زندگی کاآغازاپنے آبائی قصبے بندیال میں تدریس وتقریر سے کیا۔1950ءمیں وہاں سے ہجرت کرکے سرگودھاکے نواحی گاؤں ڈیرہ جاڑامیں ڈیرہڈالااورتقریباسات سال تک دین الہی کی خدمت سے سرفرازہوئے۔ 1957ءمیں سرگودھاکی جامع مسجدحنفیہ میں بحثیت خطیب تشریف لائے اورایک عظیم الشان مدرسہ عربیہ الموسوم بہ جامعہ عربیہ ضیاءالعلوم کی بنیادرکھی جوتاامروزترقی کے راستے پرگامزن ہے۔ مولاناموصوف ذہانت وفطانت اورعلم ومعرفت میں بڑے فائق تھے۔توحیدوسنت کی اشاعت اور شرک وبدعت کی تردیدمیں کافی انہماک تھا۔ہرسال رمضان المبارک کے مہینے میں اپنے شیخ ومرشدکی طرزپردورہ تفسیر پڑھاتے۔اس کے علاوہ روزانہ درس قرآن آپ کامعمول تھاجس میں سرگودھاکے لوگ بڑی تعدادمیں شرکت کرتے۔ اپنے مدرسہ میں آپ مشکوة،جلالین اورفارسی کی کتب بھی پڑھاتے تھے۔ مولانااعلی پائے کے مناظربھی تھے۔ اہل بدعت اوراہل تشیع سے کافی مناظرے کیے جن میں مولوی عمر اچھروی،مولوی کرم شاہ بھیروی اورمولوی اسماعیل شیعی کے نام قابل ذکرہیں۔ [3]

تصنیفی مشاغل ترمیم

آپ کو قلم و قرطاس کے ساتھ بھی علاقہ رہا اگرچہ آپ نے کم لکھا لیکن بہترین لکھا۔ ان کی کتب میں دعوت توحید کا رنگ غالب ہے۔ آپ اردو میں لکھا کرتے تھے۔

  • التوحید:مختصر سا رسالہ ہے۔ شرک کی حقیقت،شرک کی اقسام،قرآن و حدیث میں شرک کی مذمت وغیرہ موضوعات پر ہے۔ اس کے کئی ایک ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔
  • دعوة الحق:یہ آپ کی دعوت توحید اور رد شرک پر لاجواب تصنیف ہے۔ ڈیرہ جاڑہ میں قیام کے دوران یہ کتاب لکھی گئی تھی۔ کتاب میں مسئلہ توحید کے تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے خصوصا نذر لغیراللہ پر انوکھے طرز کی تحقیق کی گئی ہے۔ اس کتاب کے کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔
  • الاقوال المرضیہ فی احوال البرزخیہ:اس لاجواب تصنیف میں مرنے کے بعد عالم برزخ کے احوال قرآن و سنت کی روشنی میں بیان کیے گئے ہیں۔ کتاب حسن استدلال اور حسن ترتیب کا عظیم مرقع ہے۔ آخر میں قائلین سماع الموتی کے اعتراضات کے مسکت جوابات دیے گئے ہیں۔ اس کتاب کے ساتھ مولانا محمد حسین نیلوی کا رسالہ القول المرعی فی القبر الشرعی بھی شامل اشاعت ہے۔ کتاب کئی بار زیور طبع سے آراستہ ہو چکی ہے۔[4]
  • الدرالمنثورة فی ربط الآیات بآیات والسورة بالسورة:نظم قرآن پر فکر الوانی کی ترجمان کتاب ہے۔ کئی بار شائع ہو چکی ہے۔[5]

ان کے علاوہ محمد حسین نیلوی کی کتاب شفاءالصدور طبع اول کا اختصار و ترجمہ اور ندائے حق کا مقدمہ بھی ان کے قلمی نقوش میں شامل ہیں۔

وفات حسرت آیات ترمیم

مولانا محمد امیر یکم ستمبر 1971ء کو حرکت قلب بند ہوجانے پر وفات پاگئے تھے۔محمد حسین نیلوی نے نماز جنازہ پڑھائی اور بندیال کے قبرستان میں دفن ہوئے۔

اولاد نرینہ ترمیم

آپ کے صاحبزادگان ضیاءالحق(ناظم المکتبة الحسینیہ)،فضل حق(سابق اسسٹنٹ پروفیسر اسلامیات جامعہ سرگودھا)،شمس الحق،عطاء اللہ(مذہبی سکالر) اور عصمت اللہ(مذہبی سکالر) ان کے مشن کو جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ ان کے ایک اور بیٹے ولی اللہ صاحب 1998ء میں ایک ٹریفک حادثے میں انتقال کر گئے تھے۔[6]

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. مولاناحسین علی؛شخصیت،کردار،تعلیمات ص 325،میاں محمدالیاس،اشاعت اکیڈمی قصہ خوانی بازارپشاور،بدون تاریخ
  2. ایضا ص 325
  3. ایضاص325و326
  4. الاقوال المرضیہ فی احوال البرزخیہ ص 13،تعارف:عطاء اللہ بندیالوی،مصنف:محمد امیر بندیالوی،المکتبة الحسینیہ 18 بلاک سرگودھا،طبع پنجم مئی 2013ء
  5. مقدمہ بلغة الحیران،تحقیق و تسہیل:سراج الاسلام حنیف،تالیف:حسین علی الوانی،اشاعت اکیڈمی قصہ خوانی بازار پشاور،2008ء
  6. مولانا حسین علی الوانی؛شخصیت،کردار،تعلیمات ص 327