ابو الفتح محمد شیبانی خان سولہویں صدی میں وسط ایشیا میں قائم ازبکوں کی سلطنت سلسلہ شیبانیان کا سب سے بڑا بادشاہ تھا جو ابو الخیر خان کے دوسرے بیٹے شاہ بداغ خان کا بیٹا تھا۔ ازبک قبائل ابو الخیر خان کے انتقال کے بعد دریائے سیحوں کی زیریں وادی میں منتقل ہو گئے تھے اور یہاں سے وہ کبھی مشرقی ترکستان کے منگول حکمرانوں اور تیموریوں کے حلیف کی حیثيت سے اور کبھی ان کے خلاف لشکر میں حصہ لیتے رہتے۔

محمد شیبانی خان

1468ء میں منگول حکمران محمود خان ابن یونس خان نے محمد شیبانی کو اس کی خدمت کے سلسلے دریائے سیحوں کے کنارے شہر ترکستان کی حکومت دے دی۔ شیبانی خان 1494ء ماوراء النہر میں داخل ہوا اور پانچ چھ سال کے عرصے میں پورے ماوراء النہر پر قبضہ کر لیا۔ بخارا اور سمرقند کے درمیان سر پل کی جنگ میں بابر کو شکست دے کر 1500ء میں سمرقند پر بھی قبضہ کر لیا اور ترکستان میں تیموریوں کی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ 1505ء میں اس نے خوارزم فتح کرنے کے بعد دریائے جیحوں کو پار کیا اور مرو کے قریب حسین بائیقرا کے بیٹے بدیع الزماں اور دوسرے تیموری شہزادوں کے متحدہ لشکر کو شکست دی اور 24 مئی 1507ء کو ہرات میں داخل ہوکر تیموری اقتدار کا خاتمہ کر دیا۔

1508ء میں شیبانی نے صوبہ جرجان پر بھی قبضہ کر لیا۔ اب وہ ایک وسیع و عریض سلطنت کا مالک تھا جو جھیل ارال سے بلخ اور ہرات تک اور فرغانہ سے جرجان تک پھیلی ہوئی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ایران میں شاہ اسماعیل صفوی ایک طاقتور حکومت قائم کر چکا تھا اور سنیوں کو زبردستی شیعہ بنا رہا تھا۔ اس کے اس تعصب اور کٹر پن نے عثمانی ترکوں اور ازبکوں میں آگ لگادی دی تھی کیونکہ وہ کٹر سنی تھے۔ ازبکوں کا رد عمل خاص طور پر ویسا ہی متعصبانہ تھا جیسا صفوی حکمران کا تھا اور وہ کسی صورت صفویوں سے تصفیہ کے لیے تیار نہ تھے۔ چنانچہ جب ازبکوں نے ایران کی طرف پیش قدمی کی تو شاہ اسماعیل سے ٹکراؤ ہو گیا۔ مرغاب کے پاس 1510ء کو ازبکوں اور صفویوں میں ایک خونریز جنگ ہوئی۔ ازبک بے جگری سے لڑے لیکن ان کو شکست ہو گئی اور شیبانی خان مارا گیا۔ شاہ اسماعیل کی نفرت کا یہ عالم تھا کہ اس نے شیبانی کی کھوپڑی اتار لی اور اس پر سونا چڑھا لیا اور اس کو پیالے کی جگہ استعمال کرتا تھا۔[1]

یہ بات حقیقت ہے کہ ازبک جاہل اور نیم وحشی تھے اور ان کی زندگیوں پر اسلام کے اثرات بہت سطحی تھے بلکہ ان کی رسوم ترکوں اور منگولوں کی قبل از اسلام کی رسومات اور اسلام کا مجموعہ تھیں۔ اس لیے ایرانی مورخین سے ان کی برائیوں کو بہت زیادہ بڑھا چڑھ کر پیش کیا جس میں مبالغہ اور تعصب شامل ہے انھوں نے شیبانی خان کی بہت کریہہ تصویر کھینچی ہے جو حقیقت سے دور ہے۔ ہنگری کا مشہور مستشرق ویمبری اپنی کتاب میں شبانی کے متعلق لکھتا ہے کہ "شیبانی ہر گز وحشی نہ تھا جیسا کہ اس کے ایرانی دشمن بیان کرتے ہیں۔ اس کو راگ رنگ اور شاعری سے دلچسپی تھی۔ لڑائیوں تک میں اس کے ساتھ اس کا چھوٹا کتب خانہ رہتا تھا۔ وہ شاعر بھی تھا اور اس کا کلام مشرقی ترکی ادب کا اچھا نمونہ ہے۔ وہ علما کی عزت کرتا تھا۔ سلطان حسین بائیقرا کے مرنے کے بعد جو علما اور فضلاء بے خانماں ہو گئے تھے، انھیں شیبانی نے روزگار فراہم کیا۔ بخارا، سمرقند اور تاشقند میں اس نے مدرسے بنائے۔ جب وہ تاریخ کے منظر پر پہلی بار ظاہر ہوا تو لفظ ازبک جاہل اور وحشی کے ہم معنی تھا لیکن یہ تعریف شیبانی پر صادق نہیں آتی۔ وہ ویسا ہی شائستہ اور مہذب تھا جیسے تیموری گھرانے کے دوسرے شہزادے"۔[2]

حوالہ جات ترمیم

  1. ملت اسلامیہ کی مختصر تاریخ از ثروت صولت
  2. تاریخ بخارا از ویمبری (اردو ترجمہ) صفحہ نمبر 341