امیر سید میر محمد عالم خان (پیدائش: 3 جنوری 1880ء - وفات: 28 اپریل 1944ء) وسطی ایشیا کی سلطنت بخارا کے آخری حکمران تھے۔ گو شہر بخارا 1873ء سے روسی سلطنت کے زیر سایہ رہا لیکن امیر کے اختیارات سلطنت بخارا کے اندرونی معاملات میں نہایت وسیع تھے۔ امیر سید محمد عالم خان نے بخارا پر 3 جنوری 1911ء سے 20 اگست 1920ء تک حکمرانی کی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ آپ چنگیز خان کے آخری وارث تھے جو وسط ایشیا میں پہلے عظیم خان کے طور پر مشہور تھے۔
13 سال کی عمر میں عالم خان کے والد امیر عبدالاحد خان نے انھیں سینٹ پیٹرزبرگ بھجوا دیا تاکہ وہ وہاں ریاست اور جدید فوجی تربیت حاصل کر سکیں۔ 1896ء میں روسی حکومت کی جانب سے غیر معمولی ولی عہد کا عہدہ کی تصدیق کے بعد محمد عالم خان بخارا لوٹ آئے۔
بخارا میں دو سال تک اپنے والد کے ساتھ ریاست کا انتظام سنبھالا اور انھیں علاقہ نسف کا اگلے بارہ سال کے عرصے تک کے لیے گورنر مقرر کر دیا گیا۔ بعد ازاں انھیں شمالی صوبے کارمانا منتقل کر دیا دیا جہاں انھوں نے دو سال تک اپنے فرائض سر انجام دیے یہاں تک کہ 1910ء میں ان کے والد کی وفات ہو گئی۔
والد کی وفات کے بعد انھوں نے ریاست بخارا کا انتظام سنبھالا اور ان کی حکمرانی کا آغاز کئی طرح کے وعدوں سے ہوا۔ شروعات میں ہی انھوں نے سلطنت کے دربار کو تحفے وصول کرنے سے باز رکھا اور اس بارے نہایت سخت احکامات جاری کیے۔ اس کے علاوہ ریاست کے حکام پر رشوت وصول کرنے اور اپنے تئیں عوام پر ٹیکس لگانے کی پابندی عائد کر دی۔ لیکن، بعد میں امیر کی اپنی توجہ بھی رشوت ستانی، ٹیکسوں اور ریاستی تنخواہوں کی جانب برقرار نہ رہی۔ روایت پسندوں اور اصلاحات پسندوں کے مابین کھڑے ہونے والے تنازعات کا خاتمہ روایت پسندوں کی برتری پر ہو اور کئی کلیدی اصلاحات پسندوں کو ماسکو اور کازان کی جانب ہجرت کرنی پڑی۔ کہا جاتا ہے کہ اوائل دور میں عالم خان بھی جدیدیت کی جانب مائل تھے اور اصلاحات پسندوں کے حامی تھے، مگر بعد کے حالات نے ان پر واضع کر دیا کہ اس صورت حال میں اصلاحات کی صورت میں ریاست انھیں یا ان کے کسی بھی ولی عہد کو حکمران کے طور پر قبول نہیں کرے گی۔ اپنے آباؤاجداد کی مانند عالم خان بھی ایک روایتی حکمران تھے۔ انھوں نے اصلاحات کا استعمال صرف ان مقاصد کے حصول تک محدود رکھا جن سے ریاست میں توازن برقرار رہ سکتا تھا اور جدیدیت کو ریاست کے فوائد کی حد تک محدود رکھا۔[حوالہ درکار]
تاریخ کے ایک مشہور تاجک مصنف عینی صدرالدین نے امیر کے زیر اثر ریاستی زندگی بارے کئی تحاریر لکھیں ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ مذکورہ مصنف کو تاجک زبان بولنے اور تصانیف میں اس کے استعمال پر تشدد کا نشانہ بھی بنایاگیا اور بعد ازاں اسی مصنف نے تفصیل سے بخارار سلطنت کے امرا کے دور بارے حقائق بھی قلمبند کیے۔
عالم خان امرا بخارا میں واحد حکمران تھے جنھوں نے اپنے نام کے ساتھ خلیفہ کا استعمال کیا اور انھیں چنگیز خان کے آخری وارث کے طور پر قومی حکمران کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔
1918ء میں مارچ کے مہینے میں بخارا کے نوجوانوں کی تحریک کے رضاکاروں نے بلشویک رہنماؤں کو لکھ بھیجا کہ بخارا کا علاقہ انقلاب کے لیے تیار ہے اور لوگ آزادی کے لیے تحریک چلانے کو تیار ہیں۔ سرخ فوج بخارا شہر کے مرکزی داخلی راستوں تک آن پہنچی اور بخارا کے نوجوانوں اور عوام کے تحریری نقطۂ نظر کے ساتھ امیر بخارا کو شکست تسلیم کرنے اور ریاست کا انتظام چھوڑ دینے کا پیغام بجھوایا۔ روسیوں کے مطابق امیر نے اس بلویشک وفد، جو یہ پیغام لے کر دربار میں حاضر ہوا تھا اس کو سربراہ سمیت قتل کروا دیا، اس وفد کے ساتھ ساتھ بخارا اور مضافات میں موجود بلویشک کے حامی روسیوں کو چن چن کر قتل کروا دیا۔ ان حالات کے بعد بخارا کی اکثریت عوام بلویشک فوج کی شہر پر حملے کی حامی نہ رہی اور نتیجتاَ بلویشک فوج کو سویت کے مضبوط گڑھ تاشقند کی جانب پسپائی اختیار کرنی پڑی۔
گو سرخ فوج نے پسپائی اختیار کر لی، لیکن امیر بخارا کی یہ فتح عارضی ثابت ہوئی۔ جب روس میں خانہ جنگی کا خاتمہ ہوا تو ماسکو نے وسطی ایشیا میں مہمات پر دوبارہ اپنی افواج کو روانہ کر دیا۔ 2 ستمبر 1920ء کو بلویشک جرنیل میخائیل فرونز کی سربراہی میں سرخ فوج نے شہر بخارا پر حملہ کر دیا۔ چار دن کی مسلسل جھڑپوں کے بعد امیر بخارا کا مرکزی محل اور سلطنت بخارا کی نشانی تباہ کر دی گئی۔ مینار کالایان پر سرخ جھنڈا لہرا دیا گیا اور امیر عالم خان مجبوراً اپنے حامیوں کے ساتھ دو شنبے کی جانب پسپا ہو کر فرار ہونے پر مجبور ہوئے۔ دوشنبے جو آج کل تاجکستان میں واقع ہے، وہاں کچھ عرصہ قیام کے بعد امیر عالم خان کابل افغانستان کی جانب سفر کر گئے اور وہیں 1944ء میں وفات پائی۔

سید میر محمد عالم خان (1880ء تا 1945ء)

خاندان ترمیم

امیر عالم خان کی دختر شکریہ رعد علیمی والد کی وفات کے بعد ریڈیو افغانستان میں فرائض سر انجام دیتی رہیں۔ شکریہ رہد نے اپنے خاندان سمیت افغانستان پر دسمبر 1979ء میں روسی حملوں کے وقت ہجرت کر گئیں۔ اپنے شوہر کے ہمراہ جو ایک صحافی تھے اور اپنے دو بچوں کے ہمراہ پہلے پاکستان اور پھر جرمنی اور آواخر میں امریکہ کی جانب رخصت ہوئیں۔ 1982ء میں انھوں نے وائس آف امریکہ میں نوکری اختیار کی اور وی او اے کی دری زبان میں خبریں پڑھنے اور ادارت و تدوین کا کام سر انجام دیتی رہیں ہیں۔[1].

بیرونی روابط ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. http://www1.voanews.com/english/news/a-13-a-2002-03-31-25-1-67420932.html[مردہ ربط] ایک نامہ نگار، جو شہزادی ہیں - 2002ء