مختیار علی سموں کلر میں کام کرتا ہے

تعلیم ترمیم

میٹرک انھوں نے ڈی سی ہائی اسکول لاڑکانہ سے 1976 میں پاس کیا۔ 1978 میں انٹر سائنس کا امتحان گورنمنٹ ڈگری کالج لاڑکانہ سے پاس کیا۔

اچانک والدکا انتقال ہونے کے باعث انھوں نے بہن بھائیوں کے تعلیمی اخراجات پورا کرنے کے لیے ایک پرائیویٹ ڈاکٹرکے پاس کمپاؤنڈر کے طور پر کام کرنے لگے جس کی وجہ سے ان کی تعلیم کچھ عرصے کے لیے متاثر ہوئی۔ انھوں نے انٹرکا امتحان کامرس کالج لاڑکانہ سے 1981 میں پاس کیا جو شام کے اوقات میں چلتا تھا ، وہ صبح نوکری کرتے تھے اور شام کوکالج جاتے تھے۔ پڑھائی کو جاری رکھنے کے لیے انھوں نے سندھ یونیورسٹی جامشورو میں پاکستان اسٹڈیز میں داخلہ لیا اور اخراجات پورے کرنے کے لیے مختلف کام کرتے رہے۔

اس دوران انھوں نے انگریزی زبان کا مطالعہ جاری رکھا اور جہاں بھی کوئی کانفرنس یا پروگرام منعقد ہوتا تھا وہاں جاتے، انھیں انگریزی تلفظ کو سمجھنے میں مدد ملتی۔ یونیورسٹی میں ان کے دوستوں میں لال چند اور یعقوب مغل شامل تھے، انھیں مشہور تاریخ دان مبارک علی سے قربت کا موقع میسر آیا ۔[1]

تدریس ترمیم

ایک دن زرعی یونیورسٹی ٹنڈو جام کا اشتہار چھپا، انھوں نے لیکچرر کے لیے اپلائی کر دیا۔ جہاں پر وہ 1987 فروری میں لیکچرر بن گئے۔کچھ ہی عرصے کے بعد ہائر ایجوکیشن اسلام آباد انسٹی ٹیوٹ کی طرف سے ایک تربیتی پروگرام آگیا جس میں پاکستان کی تمام یونیورسٹیوں سے 25 لوگوں کو بلایا گیا تھا، جس میں زرعی یونیورسٹی کی طرف سے ان کا نام بھیجا گیا۔

اسلام آباد سے ڈھائی مہینے کی تربیت پوری کرکے وہ جب واپس آئے تو انھیں سی ایس ایس کا امتحان دینے کا خیال آیا، وہ امتحان میں پاس تو ہو گئے مگر میرٹ پر نہ آسکے اور دوبارہ اس امتحان میں بیٹھ نہیں سکتے تھے،کیونکہ یہ ان کا پہلا اور آخری attempt تھا۔ انھوں نے دل میں یہ ارادہ کیا کہ وہ اپنے بھائیوں اور غریب ونادار بچوں کو سی ایس ایس امتحان کے لیے تیاری کروائیں گے۔ 1993 میں زیڈ اے بھٹو زرعی کالج لاڑکانہ ایٹ ڈوکری قائم ہوا تو انھوں نے اپنا تبادلہ وہاں کروایا جس میں یہ شرط رکھی گئی کہ وہ اسٹوڈنٹس کو اپنے مضمون کے علاوہ انگریزی بھی پڑھائیں گے جس کو انھوں نے بڑی خوشی کے ساتھ قبول کر لیا۔

نالج سینٹر ترمیم

اپنے خواب کو تعبیر دینے کے لیے نالج سینٹر قائم کیا، وہاں سے آنکھوں سے محروم غریب بچوں نے، باگڑی اور ہریجن بچوں نے مفت میں تعلیم حاصل کرکے انگریزی میں مہارت حاصل کی اور اب وہ سرکاری اورغیر سرکاری دفتروں میں ملازمت کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ دوستوں، رشتے داروں اور کم آمدنی والوں کے لیے 50 فیصد رعایت پر بھی پڑھ رہے ہیں تاکہ صرف عمارت کا کرایہ، استادوں کی تنخواہ اور دوسرے بجلی وغیرہ کے اخراجات پورے ہوں۔ بڑی اہم بات یہ ہے کہ یہ سلسلہ 25 سال سے چل رہا ہے ۔

اس سینٹر سے ان کے بھائی عمران سموں نے بھی سی ایس ایس کی تیاری کی اور سندھ سے پہلی پوزیشن حاصل کرکے اس وقت سکھر میں ایس ایس پی کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ کئی لڑکیوں اور لڑکوں نے یہاں سے سی ایس ایس کی تیاری کرکے کامیابی حاصل کی ہے جن میں ڈاکٹرز اور انجینئرز ملازمت کے لیے تیاری کرتے رہے ہیں۔ حال میں ایک غریب لڑکی نے سی ایس ایس کا امتحان پاس کر لیا ہے جو اس سینٹر سے پڑھی ہے۔[2]

تصانیف ترمیم

انھوں نے تقریباً 8 کتابیں لکھیں اور Compile کی ہیں۔ پہلی کتاب ’’ دھرتی روشن تھیندی‘‘ جو بچوں کا ادب ہے اور اس کتاب کوکلچرڈ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے پہلا انعام دیا گیا تھا جب کہ ان کی دوسری کتاب دنیا گول ہے۔ تیسری کتاب جو بچوں کے لیے لکھی ہے وہ ’’گلن جھرا بارڑا‘‘ جسے سندھی لینگویج اتھارٹی کی طرف سے پہلا انعام مل چکا ہے۔ ان کی ایک ’’کتاب دنیا جوں درسگاہوں‘‘ ہے جسے انھوں نے سندھی میں لکھا ہے، پہلا والیوم چھپ چکا ہے جب کہ باقی دو والیوم آنے والے ہیں جب کہ چوتھی کتاب ہے۔ Women Their Rights and Violation Against Them ، پانچویں کتاب ہے تاریخ و تہذیب اردو میں ہے جسے انھوں نے Compile کیا ہے۔ چھٹی کتاب غزلوں پر مشتمل ہے جس کا نام ہے ’’ وفاؤن منتظر‘‘ ہے۔ اس کے علاوہ باقی دوکتابیں بھی انگریزی گرامرکے متعلق لکھی ہیں۔[3]

اعزازات ترمیم

مختار کئی اداروں کے ساتھ کام کر چکے ہیں جن میں سندھی ادبی سنگت بھی شامل ہے، لاڑکانہ ہسٹریکل کے صدر اور جنرل سیکریٹری کی حیثیت میں کام کر چکے ہیں

حوالہ جات ترمیم