کامکس (انگریزی: comics) داستان گوئی کا ایک ایسا وسیلہ ہے جس میں صفحات پر سلسلہ وار یا مُتاخر تصاویر کے ذریعے خیالات کا اظہار کیا جاتا ہے۔ اکثر اوقات اِن تصاویر کے ساتھ ساتھ تحریری بیانیوں اور دیگر بصری آلات کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔ کامکس اپنی بنیادی شکل میں دیگر تصاویر کا پہلو با پہلو مجموعہ ہوتے ہیں۔ اِن میں استعمال ہونے والے تحریری آلات میں سپیچ ببل، تعارفی الفاظ اور بیانیے شامل ہوتے ہیں۔ کامکس میں اکثر کارٹون اور تصویری خاکوں کا استعمال لیا جاتا ہے لیکن فُومیٹی کامکس کی ایک ایسی قسم ہے جس میں فوٹو گرافس کو تصویروں کی مانند استعمال کیا جاتا ہے۔

کامکس
کامکس

کامکس کی تاریخ تھوڑی پیچیدہ ہے؛ اِن کو مُختلف مُمالک اور ثقافتوں میں مُختلف طور سے پزیرائی ملی۔ کُچھ ماہرین کا تو یہ بھی ماننا ہے کہ لاسکو کی غارنگاری بھی کامکس کی ہی ایک قدیم قسم ہے۔[1] لاسکو کے غاروں میں نقاشی اِن کو بنانے والے قدیم انسانوں کے شکاری کارناموں کا ایک بیانیہ ہے چُنانچہ یہ ایک طرح سے کامک کی مانند ہی ہے کیونکہ کامکس بھی کسی واقعے کے تصویری بیانیے ہی ہوتے ہیں۔ 20ویں صدی میں کامکس کو دیگر مغربی مُمالک جیسے امریکا اور یورپ (خصوصاً فرانس اور بلجیم) اور مشرقی مُمالک جیسے جاپان وغیرہ میں پزیرائی ملی۔

اگر کامکس کی جدید شکل کی تاریخ پر توجہ مرکوز کریں تو یورپی کامکس کی بنیاد رُوڈولف ٹاپفر نے اپنے 1830ء کی دہائی کے کارٹون اسٹرِپ سے رکھی۔ البتہ، کامکس کے اِس وسیلے کو 1930ء کی دہائی میں جا کر ہی خوب پزیرائی ملی جب دی ایڈونچرز آف ٹِنٹِن شایع ہوا۔ جبکہ اگر امریکی کامکس کی بات کی جائے تو وہ عوامی ذرائع ابلاغ کا حصّہ کہیں 20ویں صدی کے ابتدائی مراحل میں آ کر بنیں؛ 1930ء کی دہائی میں رسالہ نُما کامک بکس شایع ہونے لگیں اور سوپر مین کے کردار پر مبنی پہلا سوپر ہیرو کامک 1938ء میں شایع ہوا۔[2] یہ تو کُچھ نہیں؛ جاپانی کامکس (جنہیں مانگا بھی کہا جاتا ہے)، اپنی تاریخ کا آغاز 12ویں صدی میں پیش کرتے ہیں۔ البتہ امریکی کامکس کی طرح، مانگا بھی 20ویں صدی میں ہی جا کر مقبول ٹھہرے۔

انگریزی زبان میں کامکس دراصل مزاحیہ تصویری خاکوں کو کہا جاتا ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اب اِس لفظ کا استعمال سنجیدہ تصویری بیانیوں کے لیے بھی کیا جانے لگا ہے۔ ابتدائی طور پر لوگ کامکس کو ایک سنجیدہ فن نہیں سمجھتے تھے لیکن 20ویں صدی میں کامکس مقبولیت اختیار کرتے چلے گئے اور لوگوں نے انھیں خوب سراہا۔

تاریخ ترمیم

 
ستونِ تراژن پر کندہ مُتاخر تصاویر کی نمائش۔

قدیم تصویری بیانیے ترمیم

روم میں موجود ستونِ تراژن تصویری بیانیوں کی وہ پہلی شکل ہے جو موجودہ دور کے کامکس کے لیے پیش رو ثابت ہوئی۔[3] اِس ستون پر کُندہ مُتاخر تصویریں ایک قدیم واقعے کا مُختصر قصّہ بیان کرتی ہیں۔ اِس طرح کی مُتاخر تصاویر زمانہِ قدیم میں کئی شکلوں میں ملتی ہیں، مثلاً مصری حیروغلیفی، یونانی سنگ تراشی اور قرون وسطیٰ کی گُلکاری و نگاری مثلاً مرقع بایوئی، وغیرہ میں۔

کتابِ مقدس کی کئی ایسی قدیم اشاعت بھی ہیں جن کا انحصار تصویری بیانیوں پر تھا اور اِن کی مدد سے یورپ کے ان پڑھ لوگوں میں مسیحیت کی منادی کی جاتی تھی۔ یہ قدیم تصویری بیانیے اکثر لوگوں کی پہنچ سے دور تھے اور اِن کی مقبولیت میں اضافہ بعد از مصوری اور نقاشی کے اعلیٰ فنون کے ذریعے ہوا۔ 17ویں صدی تا 18ویں صدی میں تصویری بیانیوں کا یہ رجحان مذہبی مواد سے ہٹ کر طنز و مزاح کی طرف راغب ہوتا چلا گیا۔ اور اِسی دورانئے میں ہی سپیچ ببل کے استعمال کا بھی آغاز ملتا ہے۔

پرنٹنگ پریس اور کارٹون ترمیم

پرنٹنگ پریس کی ایجاد کے بعد لِکھی جانے والی تحریروں میں درج حروف کی چھپائی آسان ہو گئی، البتہ تصویروں کی چھپائی میں کُچھ خاصا فرق نہ آیا۔ چنانچہ مصور حضرات تصویروں کے ایک مُتاخر مجموعے کو ایک سلسلے میں چھاپتے تھے اور اِن کے نیچے تحریروں کے ذریعہ اِن تصاویر کی کہانی بیان کرتے تھے۔

کامکس میں تصاویر ترمیم

تصویریں عام طور پر مربع یا مستطیل نُما چوکھٹّوں میں سمائی جاتی ہیں اور کردار اور واقعات دکھاتی ہیں۔ چوکھٹّے صفحے کے آر پار پسارے ہوتے ہیں اور عام کتاب کے انداز میں پڑھے جاتے ہیں، اوپر سے شروع ہو کر دائیں سے بائیں کو یا انگریزی وغیرہ میں دوسری سمت۔ اُن کی ترتیب عموماً زمانی ہوتی ہے تاکہ اِس انداز میں جب مشاہدہ کیے جائیں تو ایک قصہ ظاہر ہو۔ اکثر کامکس میں تصویریں کارٹون کے طرز کی ہوتی ہیں۔

کامکس میں تحریر اور بیانئے ترمیم

تحریر لوگوں کی باتیں، قصہ گوئی اور آوازوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ باتیں عموماً ایک 'سپیچ ببل' میں لکھی جاتی ہیں، جو انڈا نُما روپ کا ہوتا ہے، ایک نوک کے ساتھ جو کونے سے نکلتا ہے اور بات کرنے والے کی طرف ابھرتا ہے۔ آوازیں صوتی الفاظ سے ظاہر کی جاتی ہیں، جیسے کہ 'ٹھک'، 'ٹھا' وغیرہ۔ بیانیہ جملے تصویر کے اوپر یا نیچے کو لکھے ہوتے ہیں، جیسے کہ 'دریں اثنا۔۔۔'، 'بعد میں' وغیرہ۔

کامکس کی اقسام ترمیم

کامکس کی کئی مختلف اقسام ہوتی ہیں۔ کامکس کی چند اقسام مندرجہ ذیل ملاحظہ کیجئے:

کامک سٹرِپ ترمیم

کامکس کی سب سے سادہ قسم کامک سٹرِپ ہوتی ہے۔ کامک سٹرِپ عموماً صرف تین چار چوکھٹوں پر مشتمل ہوتي ہیں۔ یہ اخباروں میں چھپتی ہیں جہاں یہ خاص طور پر سیاست، حالیہ واقعات یا مقبول ثقافت سے متعلق طنز و مزاح اڑاتے ہیں۔

طویل تر کامکس زیادہ تر بچوں کے بہلاؤ سے وابستہ کیے جاتے ہیں۔ وہ اکثر کسی خاص قابل محبت کردار کو مضحکہ خیز حالات میں دکھاتے ہیں۔ یہ بچوں کے رسالوں میں شائع کیے جاتے ہیں اور کئی صفحے لمبے ہوتے ہیں۔ ایک ایسا مشہور انگلستانی رسالہ 'دی بینو' ہے جس کا ایک مقبول کردار ایک شرارتی بچہ 'ڈینس دی مینس' (Dennis the Menace) ہے۔

گرافک ناول ترمیم

ایک قسم کا کامکس جو نوجوان اور بالغ شائقین اپنا ہدف رکھتا ہے گرافک ناول کہلاتا ہے۔ یہ عموماً مکمل ناول جتنے لمبے ہوتے ہیں اور زیادہ بالغانہ اور سنجیدہ قصے شامل کرتے ہیں۔ ان میں تصویریں بھی زیادہ نفیس اور تفصیلی ہوتی ہیں۔

سوپر ہیرو کامکس ترمیم

سوپر ہیرو کامکس کامک بکس کی ایک ایسی قسم ہے جو امریکا میں 1930ء تا 1940ء کی دہایوں میں متعارف کرائے گئے۔ چنانچہ، 1960ء کی دہائی سے یہ کامکس کی مقبول ترین اور غالب قسم بن کر اُبھری۔ یہ تو نام سے ہی ظاہر ہے کہ یہ کامکس سوپر ہیرو اور اِن کی تصوراتی کائنات پر مشتمل ہوتے ہیں۔ سوپر ہیرو ایک ایسے کردار کو کہا جاتا ہے جس کو ماورائے انسانی طاقتیں حاصل ہوں، مثلاً اُڑنے کی سکت، آگ یا برف پر قابو یا دیو پیکر پٹّہے، وغیرہ۔ سوپر ہیرو کی مشہور مثالوں میں سوپر مین، سپائیڈر مین اور ایکس مین جیسے کردار شامل ہیں۔

سوپر ہیرو کامکس کا آغاز 1938ء میں تب ہوا جب سوپر مین کے کردار کو ایکشن کامکس کے پہلے شمارے میں متعارف کرایا گیا۔ اِس کامکی کردار کو، دوسری جنگِ عظیم کے آغاز اور اِسکے نتیجے میں آنے والے کسادِ عظیم کے دورانئے میں، خوب پزیرائی ملی۔[2]

جاپانی کامکس ترمیم

جاپان کے کامکس کو 'مانگا' کہا جاتا ہے اور ان کے یگانہ اور امتیازی طرز کے سبب، وہ عالم بھر میں اسی نام سے معروف ہیں۔ مغرب کے بر عکس، جاپان میں کچھ عرصے سے تمام عمر کے لوگوں کے لیے کامکس شائع کیے گئے ہیں۔ ان کے مختلف زمرے ہیں، مثلاً 'شونین' (shōnen) - لڑکے، 'شوجو' (shōjo) - لڑکیاں اور 'سینین' (seinen) - مرد۔ جاپان میں فحش کامکس بھی ایک حد تک مقبول ہیں، جن کو 'ہینتائی' (hentai) بولا جاتا ہے۔

حوالہ جات ترمیم

  1. نامعلوم (1992ء)، "آرٹ میں مُتاخر تصاویر: لاسکو غارنگاری سے سپائیڈر مین تک"۔ کامک آرٹ۔ اخذ کردہ بتاریخ 5 نومبر 2015ء۔
  2. ^ ا ب ارون ظہیرالدین (13 اکتوبر 2015ء)، "سوپر ہیرو: ایک جائزہ"۔ کامکس وامکس۔ اخذ کردہ بتاریخ 9 نومبر 2015ء۔
  3. نامعلوم (مارچ 2015ء)، "ستون تراژن، ایک قدیم کامک سٹرپ کا مطالعہ"۔ نیشنل جیوگرافک سوسائیٹی۔ اخذ کردہ بتاریخ 5 نومبر 2015ء۔