ابو محفوظ معروف کرخیآپ امام علی رضا کے خاص خلفاء میں سے تھے۔

معروف کرخی
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 750ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کرخ،  بغداد  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 11 اگست 815ء (64–65 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بغداد  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت دولت عباسیہ  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نام وکنیت ترمیم

شیخ معروف کرخی کی وِلادت مقامِ کرخ میں ہوئی۔ آپ کا نام اسد الدین ہے لیکن معروف کرخی کے نام سے مشہور ہیں۔ آپ کی کنیت ابومحفوظ ہے۔ آپ کے والدِ ماجد کا نام فیروز ہے ۔

قبولِ اسلام ترمیم

ابتدا میں معروف کرخی غیر مسلم تھے مگر بچپن ہی سے آپ کے قلب وجگر میں اسلام کی تڑپ اور جوش و عقیدت موجود تھی۔ آپ مسلمان بچوں کے ساتھ نماز پڑھتے اور ماں باپ کو اسلام کی ترغیب دیتے رہتے۔ آپ کے والدین نے ایک مسیحی معلم کے پاس آپ کو تعلیم حاصل کرنے کے لیے بیٹھا دیا۔ اس معلم نے پہلے آپ سے سوال کیا کہ بچے! یہ بتاؤ کہ تمھارے گھر میں کتنے افراد ہیں؟ آپ نے کہا :"میں، میرے والد اور میری والدہ کل تین افراد ہیں ۔" وہ کہنے لگا: "تو تم کہو" ثَالِثُ ثَلَا ثَۃٍ " یعنی عیسیٰ تین خداؤں میں تیسرا ہے ۔" آپ فرماتے ہیں : "میری غیرت نے یہ گوارا نہ کیا کہ ایک کے سوا دوسرے کو رب مانوں، اس لیے میں نے فوراً انکار کر دیا۔ اس پر معلم نے مجھ کو مارنا شروع کیا۔ وہ جس شدت سے مارتا میں اسی جرأت سے انکار کرتا۔ آخر عاجز ہو کر اس نے میرے والدین سے کہا کہ اس کو قید کر دو۔ تین روز تک قید میں رہا اور ہر روز ایک روٹی ملتی تھی مگر میں نے اس کو چھوا تک نہیں۔ جب مجھے وہاں سے نکالا گیا تو میں بھاگ گیا۔ چونکہ میں والدین کا ایک ہی بیٹا تھا اس لیے میری جدائی سے انھیں سخت قلق ہوا۔ وہ کہنے لگے : "ہمارا بیٹا جہاں بھی گیاہے ہمارے پاس لوٹ توآئے، وہ جس مذہب کو چاہے اختیار کرے ہم بھی اسی کے ساتھ اپنا دین تبدیل کر دیں گے۔" جب میں امام علی رضا کے دست مبارک پر داخلِ اسلام ہو کر ایمان کی انمول دولت کو اپنے سینے سے لگائے گھر واپس ہوا، میرے اسلام قبول کرنے کی وجہ سے میرے والدین بھی مسلمان ہو گئے۔[1]

تعلیم و تربیت ترمیم

آپ نے مکمل تعلیم و تربیت امام علی رضا کے زیرِ سایہ پائی اور فقہ حنفی کے عظیم پیشوا امام اعظم ابوحنیفہ سے بھی علمِ دین حاصل کیا اور علمِ طریقت کے لیے حبیب راعی کے سامنے زانوئے تلمذطے کیے۔ آپ عارفِ اسرارِ معرفت، قطبِ وقت اور بدرِ طریقت تھے۔

وصال ترمیم

آپ کا وصال شریف 2محرم الحرام 200ھ کو ہوا۔ آپ کا مزار شریف بغدادِ معلی میں زیارت گاہِ خلائق ہے ۔خطیب بغدادی فرماتے ہیں : "آپ کی قبرمبارک حاجتیں اور ضرورتیں پوری ہونے کے لیے مجرّب (یعنی آزمودہ)ہے۔"

چہرے کا نشان ترمیم

ایک شخص کا بیان ہے کہ میں ابو محفوظ معروف کرخی کی خدمت میں حاضر تھا۔ آپ نے میرے لیے دعا فرمائی اور میں واپس گھر آ گیا۔ دوسرے دن پھر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپ کے چہرہ پر نشان بنا ہوا ہے جیسے کوئی چوٹ لگی ہو۔ کسی نے آپ سے پوچھا : "اے ابو محفوظ! ہم کل آپ کے پاس سارا دن رہے، آپ کے چہرہ پر کوئی نشان نہ تھا، یہ کیا نشان ہے اور کیسے ہوا؟" آپ نے فرمایا : "اپنے مطلب کی بات کرو اسے چھوڑ یہ تمھارے مطلب کا سوال نہیں ہے ۔" اس شخص نے عرض کیا، آپ کو اپنے معبود کی قسم ! آپ اس بارے میں کچھ بتائیں! اس پر آپ نے ارشاد فرمایا : " میں نے گذشتہ رات یہاں نماز ادا کی اور خواہش ہوئی کہ بیت اللہ کا طواف کر لوں پس میں مکہ شریف چلا گیا، طواف کیا پھر زمزم کی طرف چل پڑا، تاکہ اس کا پانی بھی پی لوں تومیں دروازہ پر پھسل گیا، گرنے کی وجہ سے میرے چہرہ پر جو تم دیکھ رہے ہو چوٹ آ گئی۔[2]

سلسلہ شیوخ ترمیم

پہلا سلسله

حضرت شیخ اسد الدین معروف کرخیؒ


دوسرا سلسلہ

حضرت شیخ اسد الدین معروف کرخیؒ

  • حضرت سیدناامام علی رضاؒ
  • حضرت سیدناامام موسیٰ کاظمؒ
  • حضرت سیدناامام جعفر صادقؒ
  • حضرت شیخ قاسم بن محمدؒ
  • حضرت سیدناسلمان فارسیؓ
  • حضرت سیدناابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ
  • خاتم النبین حضرت محمد ﷺ

تیسرا سلسلہ

حضرت شیخ اسد الدین معروف کرخیؒ

  • حضرت سیدناامام علی رضاؒ
  • حضرت سیدناامام موسیٰ کاظمؒ
  • حضرت سیدناامام جعفر صادقؒ
  • حضرت سیدناامام محمد باقرؒ
  • حضرت سیدناامام زین العابدینؒ
  • حضرت سیدناامام حسینؓ
  • حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
  • خاتم النبین حضرت محمد ﷺ

چوتھا سلسلہ

حضرت شیخ اسد الدین معروف کرخیؒ

  • حضرت سیدناامام علی رضاؒ
  • حضرت سیدناامام موسیٰ کاظمؒ
  • حضرت سیدناامام جعفر صادقؒ
  • حضرت شیخ عاصم بن عبد الصمدؒ
  • حضرت شیخ عبد ا لرحمٰن صاحب حقؒ
  • حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
  • خاتم النبین حضرت محمد ﷺ

حوالہ جات ترمیم

  1. تاريخ الإسلام وَوَفيات المشاهير وَالأعلام،مؤلف: شمس الدين أبو عبد الله محمدالذهبی،ناشر: دار الغرب الإسلامي
  2. جامع کرامات اولیاء ،ج 2،ص491