اسپین کے مسلمانوں کے قبضے سے آزاد کرانے کی مسیحی مہم استرداد کے سلسلے کی ایک اہم جنگ جو خلافت موحدین اور مسیحیوں کے اتحاد کے مابین تیرہویں صدی میں لڑی گئی۔ اس میں مسیحیوں سے فیصلہ کن فتح حاصل کی اور اسے اسپین میں مسلم اقتدار کے خاتمے کے سلسلے میں اہم موڑ قرار دیا جاتا ہے۔

معرکۂ العقاب
بسلسلۂ: استرداد
سلسلہ استرداد  ویکی ڈیٹا پر (P361) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عمومی معلومات
ملک ہسپانیہ  ویکی ڈیٹا پر (P17) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مقام 38°20′35″N 3°32′57″W / 38.343°N 3.5490277777778°W / 38.343; -3.5490277777778  ویکی ڈیٹا پر (P625) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
متحارب گروہ
موحدین مسیحی اتحاد
قائد
محمد الناصر الفانسو ہشتم
سانچو ہفتم
پیٹر ثانی
افانسو ثانی
قوت
تین لاکھ ایک لاکھ 20 ہزار
نقصانات
ایک لاکھ نامعلوم
Map

پس منظر ترمیم

یورپ نے سرزمینِ فلسطین پر مسلمانوں کے ہاتھوں شکست کا بدلہ اندلس و مراکش سے لینا چاہا کیونکہ وہ اس سے زیادہ قریب تھا۔ اس مقصد کے لیے یورپ کے تمام مسیحی برشلونہ اور لیون کے مسیحی سلاطین کے پاس جمع ہونے لگے۔ پاپائے روم نے موحدین کی حکومت کے خلاف جہاد کا اعلان کیا اور اس کی زبردست تیاریاں ہونے لگیں۔

موحدین کے خلیفہ ابو عبد اللہ المعروف محمد الناصر الدین نے مسیحیوں کی اس تیاری اور مسلمانوں کے خلاف یورپ کے اعلان جہاد کے بارے میں سنا تو اس نے بھی مراکش و اندلس سے افواج کو جمع کرکے تقریباً چھ لاکھ فوج جمع کرلی لیکن ناصر الدین کی بدقسمتی سے اس بڑے لشکر میں دشمنوں سے جہاد کا جوش و جذبہ نہ تھا جس کی وجوہات میں ناصر کی التفاتی اور سرداروں کا بد دل ہونا، فوج میں پہلے جیسی طاقت و ہمت نہ رہنا، انھیں کئی ماہ سے تنخواہیں نہ ملنا اور ناصر الدین کا بذات خود جنگ میں شرکت نہ کرنا شامل تھے۔

ان تمام باتوں کے باوجود اس نے ایک عظیم فوج جمع کر لیا جبکہ دوسری جانب الفانسو ہشتم کے گرد یورپ کے ہر ملک اور ہر علاقے سے مسیحی جمع ہو رہے تھے بلکہ براعظم یورپ کی تمام تر طاقت سلطنت موحدین کے خلاف مجتمع ہو گئی تھی اور یہ کثیر لشکر اپنی تیاریوں کو مکمل کرکے العقاب کے مقام پر خیمہ زن ہوا جہاں اس کا ٹکراؤ ناصر الدین کی افواج سے ہوا۔

طبلِ جنگ ترمیم

مسیحیوں میں انتہائی جوش تھا کیونکہ ایک طرف ان کا وہی مذہبی اختلاف اور دوسری طرف سرزمین فلسطین پر شکستوں کا صدمہ تھا جس کی تلافی وہ اندلس میں مسلمانوں کو شکست دے کر کرنا چاہتے تھے۔ چنانچہ 609ھ میں العقاب کے مقام پر مسیحی اور اندلس کے مسلمان صف آرا ہوئے۔ اسلامی لشکر کے کئی سرداران چونکہ بد دل تھے اس لیے وہ جنگ سے قبل ہی فوج سے علاحدہ ہو گئے اور لشکر کی تعداد نصف رہ گئی جبکہ بعض سرداران نے دانستہ جنگ کے دوران اپنی حرکات سے کمزوری کا اظہار کیا اور ناصر الدین کے احکامات کی تعمیل نہ کرکے اس زبردست جنگ کو مسلمانوں کے لیے شکست میں بدل دیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تقریباً پورا لشکر اپنے انجام کو پہنچا اور صرف ایک ہزار سپاہی ناصر الدین کو بمشکل بچا کر میدان جنگ سے واپس لائے۔

ناصر الدین شکست کھا کر اشبیلیہ آیا اور ادھر مسیحیوں نے اندلس کے مفتوحہ شہروں میں قتل و غارت گری اور لوٹ مار کا بازار گرم کر دیا۔

اس جنگ نے اندلس میں اسلامی سلطنت کی جڑوں کو ہلا کر رکھ دیا اور سلطنت موحدین تیزی سے زوال کی جانب گامزن ہو گئی۔

جنگ العقاب میں شکست کھاکر ناصر الدین دل برداشتہ ہو گیا اور مراکش آنے کے کچھ عرصے بعد 610ھ میں اس کا انتقال ہو گیا۔

مزید دیکھیے ترمیم