بدیہی اور واضح ہے کہ دین اسلام کی تبلیغ کرنا اور لوگوں کو خدا کی طرف دعوت دینا تبلیغ کی توانائی رکھنے والے ہر مسلمان پر واجب ہے ـ خاص کر چونکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت اور طریقہ کار ــــ جو اخلاق کا نمونہ اور اسلامی کے آداب، اصول اور پروگرام ہے ـــــ اس موضوع کی سب سے بڑی دلیل ہے ـ کیا اسلام کی تبلیغ اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کو معرفی کرنے کے لیے کوئی محدود شکل و صورت معین ہے، جیسے تقریر، خطبے اور گفتگو؟ کیا دوسرے طریقوں، جیسے، غنا موسیقی اور سنگیت کے ذریعہ اسلام اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کو لوگوں میں معرفی نہیں کیا جا سکتا ہے؟ خاص کر آج کی دینا میں جبکہ موسیقی فلم اور صدا اور تصویر (light and sound) تبلیغ کے موثر عوامل ہیں؟ اجمالی جواب : عام طور پر اسلام اور خاص طور پر سیرت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تبلیغ سب سے اہم مسائل میں سے ہے کہ ان کی حکمت عملی اور طریقہ کار کے بارے میں غور کیا جاناچاہئے ـ البتہ اس سلسلہ میں بعض مسائل ایسے ہیں جن کی طرف توجہ کی جانی جاہئے:

1ـ دین اسلام اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کا حق ہونا اس امر کا سبب نہیں بن سکتا ہے کہ غیر شرعی راہ سے ان کی تبلیغ کی جائے ـ اسلام کے مطابق مقصد وسیلہ کی توجیہ نہیں کر سکتا ہے، کیونکہ یہ میکیاولی طریقہ کار ہے ـ ان کے مطابق انسان اپنے مقصد کے لیے ہر وسیلہ اور ذرائع سے استفادہ کر سکتا ہے ـ جبکہ اسلام کے مطابق یہ طریقہ کار قابل قبول نہیں ہے ـ اس بنا پر یہ صیحح نہیں ہے، جو چیزیں دین کی بلند قدروں کی مخالف ہوں ان ہی سے قدروں کی ترویج کے لیے استفایہ کیا جائے ـ

2ـ اس کے علاوہ جب ہم پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ اطہار علیہم السلام کی سیرت اور طریقہ کار پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ صیحح وسائل اور طریقہ کار سے استفادہ کرنے کے سلسلہ میں خاص اہتمام کرتے تھے، جس طرح وہ بلند مقاصد اور پاک افکار کے بارے میں اہتمام کرتے تھے ـ

اس لحاظ سے، جائز نہیں ہے کہ ہم غنا اور حرام موسیقی کے ذریعہ دین کی تبلیغ اور ترویج کریں ـ لیکن اگر فلمیں، تصاویر اور سنگیت وغیرہ شرع کے خلاف نہ ہوں تو اسلام کی تبلیغ کے لیے ان سے استفادہ کرنا کوئی حرج نہیں ہے، اس کے علاوہ جائز نہیں ہے ـ بہرحال دین اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کی تبلیغ کے بہت سے حلال اور جائز طریقے موجود ہیں، کیونکہ اسلام نے دین کی تبلیغ و ترویج کو کسی خاص طریقہ کار تک محدود نہیں کیا ہے، بلکہ اس کام کے لیے قانون و ضابطہ ــــ کہ وہی شریعت کے مطابق ہونا ہے ــــ معرفی کیا ہے ـ اس بنا پر جو بھی طریقہ کار اور وسیلہ اس اصول (شریعت کے مطابق ہونا) کے موافق ہو، اس سے اپنے مقاصد کی راہ میں استفادہ کیا جا سکتا ہےـ

تفصیلی جواب : واضح ہے کہ عام طور پر دین اور خاص طور پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت اور طریقہ کار، کی تبلیغ ــــ جو قدروں، اخلاق، صیحح سلوک اور بلند مضامین پر مشتمل ہے ــــ سب سے اہم مسائل میں سے ہیں کہ مناسب ہے کہ ایک مسلمان کو اس کے بارے میں غور و فکر کر کے ان قدروں کو روئے زمین پر نافذ کرنے کے لیے کو شش کرنی چاہئےـ

لیکن قابل توجہ نکتہ جس سے غفلت نہیں کی جانی چاہیے، وہ یہ ہے کہ ان بلند مقاصد کو نافذ کرنے اور ان قدروں کی تبلیغ کرنے اور انھیں لوگوں تک پہنچانے کے سلسلہ میں ان طریقوں سے استفادہ کیا جانا چاہیے جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقاصد کے ہم آہنگ ہوںـ

مثال کے طور پر، اگر ہم سیاست کے مانند ایک مفہوم کو مد نظر رکھیں، میکاولی نظریہ کے مطابق اس مفہوم (سیاست) کی تعریف یہ ہے :"سیاست، حکومت کو جاری رکھنے کے لیے حکام کے ہاتھـ میں ایک مدیریت و تخصص ہے، جس راہ سے بھی اس پر عملی جامہ پہنا یا جائے ـ"[1]

بعض نے سیاست کی یوں تعریف کی ہے: "سیاست، انسانوں پر حکومت کرنے کا ایک دھوکا اور فریب ہے ـ"[2]

مذکورہ تعریفوں کے مطابق اور ان کی نظر میں مقصد تک پہنچنے کے لیے ہر ذریعہ اور وسیلہ سے استفادہ کرنا جائز ہے ـ لیکن جب ہم اسلام کے مطابق سیاست کی تعریف پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ سیاست، قوم، ملک کے مختلف شعیوں کا نظم و انتظام چلانے اور تدبیر کے معنی میں تعریف کی گئی ہے ـ[3] لہذا اس میں کوئی شک و شبہہ نہیں ہے کہ جب ایک مسلمان اس مفہوم پر غور و فکر کرے، تو جس چیز کو وہ پائے وہ اسلامی قدروں کی رعایت کرنا ہے، کیونکہ قدروں کے ذریعہ قوم کی حیثیت بہترین صورت میں محقق ہوتی ہے ـ

اسلام کی نظر میں صیحح نہیں ہے کہ ہم صرف ٹیکنالوجی میں ترقی کا اہتمام کریں یا صرف اقتصادی اور مادی ترقی کی فکر میں رہیں لیکن قدروں سے غافل رہیں اور خیال کریں کہ صرف اقتصادی اور مادی ترقی سے قوم و مملکت کا نظم و انتظام چلا یا جا سکتا ہے ـ

اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ اطہار علیہم السلام کی سیرت میں مادی و معنوی مقاصد تک پہنچنے کی راہوں اور طریقوں کے جائز اور مطابق شرع ہونے کی زبردست تاکید کی گئی ہے ـ اس سلسلہ میں ارشاد الٰہی ہے: "

"اے داود ہم نے تم کو زمین میں اپنا جانشین بنایا ہے، لہذا تم لوگوں کے درمیان حق کے ساتھـ فیصلہ کرو اور خواہشات کا اتباع نہ کرو کہ وہ راہ خدا سے منحرف کر دیں ـ بیشک جو لوگ راہ خدا سے بھٹک جاتے ہیں ان کے لیے شدید عذاب ہے کہ انھوں نے روز حساب کو یکسر نظر انداز کر دیا ہے ـ"[4]

یہ آیہ شریفہ اس بات کی تاکید اور سفارش کرتی ہے کہ حق پر حکم کیجئے اورنفسانی خواہشات کا اتباع نہ کیجئے، کیونکہ حق کی پیروی کرنا اور نفسانی خوہشات سے دوری اختیار کرنا، الٰہی تعلیمات اور انبیا علیہم السلام کی رسالت کے موافق ہے، نہ دھوکا اور فریب کے ـ اسی طرح جب ہم سنت کی طرف رجوع کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اسی طریقہ کار اور نمونہ پر عمل کیا گیا ہے ـ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت نقل کی گئی ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا :"کوئی ایسا مسلمان نہیں ہے، جو مسلمانوں کے امور کو اپنے ہاتھـ میں لینے کے بعد اگر ان کے ساتھـ فریب اور دھوکا دہی سے کام لے تو خداوند متعال اس پر بہشت حرام قرار دیتا ہے "ـ[5]

مذکورہ مطالب سے یہ مسئلہ واضح ہوتا ہے جس قدر ہم دین کی ترویج اور اس کی نشر و اشاعت کے فکر مند ہیں، سزاوار ہے کہ اسی قدر ہمیں ان راہوں اور طریقہ کار پر بھی غور کرنا چاہیے جن کو ہم دین کی نشر و اشاعت کے لیے اختیار کرتے ہیں کہ کیا یہ راہ اور طریقہ کار اسلام کے مطابق صیحح اور مشروع ہے یا نہیں!

کلینی (رح) امام صادق عیلہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت (ع) نے فرمایا: "حلال محمد (ص) حلال ہے قیامت تک اور حرام محمد (ص)، حرام ہے قیامت کے دن تک، اس کے علاوہ کچھـ نہیں ہے اور کچھـ نہیں ہوگا ـ"[6]

یہاں پر ہم، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ اطہار علیہم السلام کی طرف سے قدروں کو اہمیت دینے اور فریب و دھوکا دہی سے پرہیز کرنے کی تاکید کے چند نمونے پیش کرتے ہیں :

1ـ عبد اللہ بن ابی سرح کے مقابلہ میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رد عمل:

مشہور ہے کہ عبد اللہ بن ابی سرح مسمان تھا اور ایک ایسے کام کا مرتکب ہوا جس کے سبب وہ مرتد ہوا اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا خون بہانا جائز قرار دیا، وہ حضرت عثمان(رض) کا دودھ شریک بھائی تھا، اس لیے حضرت عثمان(رضی) نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں اسے معاف کرانا چاہا ـ حضرت عثمان(رض) اپنے اس بھائی کے ہمراہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مخاطب ہوکر کہا : یہ شخص (عبد اللہ بن سعد) میرا دودھ کا شریک بھائی ہے ـ اس کی ماں نے میرے حق میں مہربانی کی ہے، جب ہم بچے تھے، تو ہمیں اپنی آغوش میں لیتی تھیں اور ..... انھیں بخش دیں، دنیا میں اس کا خون بہانے سے درگزر کرنا، پیغمبر (ص) نے حضرت عثمان(رض) کے سامنے منہ موڑ لیا ـ حضرت عثمان(رض) نے دوسری جانب جاکر آنحضرت (ص) سے مخاطب ہو کر پھر وہی جملات دہرائے ـ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر حضرت عثمان(رضی) سے منہ موڑ لیا تاکہ کوئی اٹھـ کر حکم خدا پر عمل کرے اور عبد اللہ بن سعد کا سر تن سے جدا کرے پیغمبر (ص) نے جب دیکھا کہ کوئی اٹھـ کر حکم خدا کو جاری نہیں کر رہا ہے اور ادھر سے حضرت عثمان(رضی) بھی مسلسل آنحضرت (ص) کے سر مبارک کو بوسہ دیتے ہوئے کہتے ہیں : یا رسول اللہ (ص) میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوجایئں اس کے مسلمان ہونے کی بیعت کو قبول فرما، تو حضرت نے اس کی بیعت قبول کی ـ

ابن ابی الحدید، واقدی سے نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں: اس ماجرا کے بعد رسول اللہ (ص) نے مسلمانوں سے فرمایا: آپ لوگوں کے لیے کونسی چیز رکاوٹ بنی، تاکہ اپنی جگہ سے اٹھـ کر اس مرتد کو قتل کر ڈالتے؟ عباد بن[7] بشر نے کہا: یا رسول اللہ قسم اس خدا کی جس نے آپ (ص) کو حق پر مبعوث فرمایا ہے، میں ہر طرف سے آپ (ص) کی جانب آتا تھا تاکہ شائد آپ (ص) ارشارہ فرماتے اور میں اس کا سر تن سے جدا کرتا، پیغمبر (ص) نے اس کے جواب میں فرمایا: "ہم اشارہ کے ذریعہ کسی کو قتل نہیں کرتے ہیں" یا یوں فرمایا: "پیغمبر کے لیے آنکھوں کی خیانت مناسب نہیں ہے "[8] واضح ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حتی ان حالات میں بھی اس طریقہ کار سے پرہیز کی جو آپ کے مقاصد اور قدروں کے خلاف تھا ـ

2ـ عمروعاص کے مقابل میں حضرت علی (ع) کا رد عمل: اس مسئلہ کا ایک اور نمونہ یہ ہے کہ جنگ صفین میں جب عمروعاص کپڑے اتار کر ننگا ہوا تو حضرت علی (ع) اس کو قتل کرنے سے منصرف ہوئے ـ علامہ مجلسی (رح) اس سلسلہ میں "بحارالانوار" میں یوں نقل کرتے ہیں : ".... عمروعاص بھاگنے کی حالت میں تھا، علی علیہ السلام اس کا پیچہا کرتے ہوئے اس کے نزدیک پہنچے اور ایک ضرب لگائی جو اس کی زرہ پر لگ گئی اور وہ پشت کی طرف زمین پر گر پڑا اور جب اس نے دیکھا کہ اس کی جان خطرہ میں ہے تو اس نے کپڑے اتار دئے اور عریان ہو گیا، اس حالت میں امام علی علیہ السلام نے شرم و حیا کی وجہ سے منہ موڑ لیا اور اسے قتل کرنے سے منصرف ہو گئے ـ امام (ع) نے معاویہ کو مقابلہ کی دعوت دی، لیکن وہ علی(ع) سے مقابلہ کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوا، بسربن ارطاۃ حضرت (ع) سے مقابلہ کرنے کے لیے میدان میں آ گیا، علی (ع) نے اس پر ایسی کاری ضرب لگادی کہ وہ بھی پشت کے بل زمین پر گر گیا اور اس نے بھی عمروعاص کے مانند کپڑے اتار کر اپنے کو عریان کیا، علی (ع) اس کو بھی قتل کرنے سے منصرف ہو گئے اور اس کے بعد فرمایا: اے شام والو! افسوس ہو تم پر کہ نامردی کے ذریعہ اپنی جان بچانا جاہتے ہو، بیشک اس نامردی کے طریقہ کو عمروعاص نے تمھیں سکھایا ہے "[9]

مختصر یہ کہ فلم، سنگیت وغیرہ کے ذریعہ دین اور پیغمبر (ص) کی سیرت کی تبلیغ کرنا اگر حرام کام انجام دینے کا سبب بنے جیسے مرد اور عورتیں مخلوط ہوجائیں یا غنا اور حرام موسیقی سے استفادہ کیا جائے، تو اس صورت میں جائز نہیں ہے،[10] لیکن اگر اس طرح ہو کہ حرام شرعی کا سبب نہ ہو تو اس طریقہ سے استفادہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ـ اسلامی جمہوریہ کا تجربہ اس سلسلہ میں بہترین نمونہ ہے ـ اس بنا پر صیحح نہیں ہے کہ انسان دینی، شرعی اور اخلاقی قدروں کو پامال کرکے ان ہی قدروں کی ترویج و تبلیغ کرے، کیا عفت کی ترویج کرنا عفت و پاکی کو پامال کرکے صیحح ہے؟ کیا اخلاقی برایئوں کا مرتکب ہو کر اخلاقی فضائل کی ترویج کرنا صیحح ہے؟

اس بنا پر، مذکورہ بیانات سے واضح ہو گیا کہ اس راہ میں قانون وضابطہ صرف موجودہ وسائل پر منحصر نہیں ہوتا ہے، بلکہ ان وسائل کا احکام شرع کے مطابق ہونا معیار ہے اور واضح ہے کہ تبلیغ کے صیحح راستے بہت زیادہ ہیں ـ

[1] لیون تروتسکی، الثورة و الحیاة الیومیه،ص13، چاپ 1979. [2] کلیم صدیقی، الحرکة الاسلامیه، ص 47. [3] الثقافة السیاسیة الاسلامیة "فرهنگ علوم سیاسی اسلامی"، ص 12. [4] سورہ صاد، 26. [5] اس مطلب کو مسلم نے نقل کیا ہے ـ [6] کافی، ج 1، ص 59، ح 19. [7] بعض نے کہا ہے کہ یہ شخص ربا بشیر تھا، اس کے علاوہ نقل کیا گیا ہے کہ وہ شخص عمربن خطاب تھے [8] ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغة، ج 18، ص 13. [9] بحار الانوار، ج 32، ص 585 – 586. [10] مزید آگاہی کے لیے مندرجہ ذیل عناوین ملاحظہ ہوں: 1ـ فطرت و حرمت موسیقی، سؤال 1078 (سایٹ: 1256) 2ـ راه شناسایی موسیقی حلال از حرام، سؤال 499 (سایٹ: 540). 3ـ دلايل حرمت و حلیت موسیقی، سؤال 388 (سایٹ: 401). https://www.facebook.com/booksofmaraza 4ـ "شنیدن موسیقی"، سؤال 1595 (سایٹ: 1590). 5ـ ملاکهای تشخیص موسیقی حلال و حرام در غرب، سؤال 1690 (سایٹ: 1859).