مہمان نوازی (انگریزی: Hospitality) یا ضیافت مہمان اور میزبان کے مابین تعلقات کا نام ہے۔ میزبان مہمان کا خندہ پیشانی سے استقبال کرتا ہے۔وہ زائرین، اجنبی اور مہمان کی تفرہح اور آرام کا خیال بھی رکھتا ہے۔

اشتقاقیات ترمیم

عربی زبان میں مہمان کو ضیف کہتے ہیں اور میزبان کو مضیف۔[1] انگریزی زبان میں مہمان کے لیے guest کا لفظ آتا ہے جو لاطینی لفظ hospes کے نکلا ہے۔[2] اسی سے host اور stranger نکلے ہیں جو بالترتیب میزبان اور اجنبی کے معنی دیتے ہیں۔[3] میزبانی گھر کے علاوہ تجارتی طور پر بھی کی جاتی ہے۔ ہوٹل اور ریستوراں وغیرہ باقاعدہ پروفیشنل میزبان ہوتے ہیں۔

تاریخ میں ترمیم

قدیم تہذیب میں مہمان نوازی کا عام وراج پایا جاتا ہے۔ مہمان نوازی میں مہمان کی استقبال، کھانا کھلانا، پناہ دینا اور رہنے کا انتظام کرنا شامل ہے۔[4]

عالمی تصور ترمیم

قدیم یونان ترمیم

قدیم یونان میں مہمان نوازی کا تصور پایا جاتا تھا۔ مہمان میزبان کی تمام ضروریات کا خیال رکھتا تھا۔ قدیم یونان میں مہمان نوازی کو خدائی کام مانا جاتا تھا۔ یہ ایک اہم سماجی خدمت بھی سمجھی جاتی تھی۔[5]

بھارت اور نیپال ترمیم

بھارت اور نیپال میں مہمان کو اتیتھی دیوو بھوا کہا جاتا ہے یعنی “مہمان خدا کا روپ پے“۔ کئی قدیم کہانیوں میں دکھیا گیا ہے کہ خدا یا کوئی بزرگ ہستی مہمان کی شکل میں آتی ہے اور اچھے میزبان کو انعام دیتی ہے۔ قدیم ہندوستانی ادب کے تیروکال میں اخلاقیات اور اخلاق کے موضوع میں ایک مکمل باب (باب 9) مہمان نوازی پر ہے۔[6][7]

یہودیت ترمیم

کتاب پیدائش (Genesis 18:1–8 اور19:1–8) میں ابراہیم اور لوط کا تذکرہ موجود ہے جب فرشتے مہمان بن کر ابراہیم کے پاس آتے ہیں۔ عبرانی زبان میں مہمان نوازی کو ہکنشت عورحیم (הכנסת אורחים) یعنی مہمانوں کا استقبال کرنا کہتے ہیں۔ مہمان کے آرام اور تفریح کا خیال رکھا جاتا ہے۔[8] جب مہمان جانے کا ارادہ کرتا ہے تو میزبان اسے گھر کے باہر تک چھوڑ کر آتا ہے اور پرامن سفر کی دعائیں دیتا ہے۔[9] ابراہیم کو حکم ہوا تھا کہ وہ مہمان کی تین چیزوں کا خیال رکھیں:

  • اچیلا (کھانا)
  • شطیہ (پانی)
  • لینہ (رہائش)

ان تینوں ضروریات کا ذکر (کتاب پیدائش، 21:33) میں بطور ”عشل“ ہوا ہے۔

مسیحیت ترمیم

مسیحیت میں مہمان نوازی ایک خوبی ہے جسے زائرین کے ساتھ ہمدردی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ [10] عہد نامہ قدیم میں مہمان کے پیر دھونے اور بوسہ دینے کا تذکرہ ہے۔[11] عہد نامہ جدید میں یسوع مسیح کا قول ہے جس نے مہمان یا اجنبی کا استقبال کیا اس نے گویا میرا استقبال کیا۔[12] بائبل کی تعلیمات کی بنیاد پر کچھ مغربی ممالک نے پناہ گزینوں کی ضیافت کا رواج شروع کر دیا۔[13]

پشتون ترمیم

میل ماستیا پشتونوالی کے اہم اصولوں میں سے ایک ہے۔ وہ مذہب، دین، ذات، نسل اور معاشی حالت سے قطع نظر مہمان کو عزت دیتے ہیں اور بدلے میں کوئی امید بھی نہیں رکھتے ہیں۔ پشتون اپنی ضیافت کے لیے مشہور ہیں۔[14][15][16]

اسلام ترمیم

اسلام میں مہمان نوازی ایک اہم دینی فریضہ ہے جسے بحسن و خوبی انجام دیا جاتا ہے۔ اسلام میں ہر آنے والے کو السلام علیکم کہا جاتا ہے یعنی آپ پر سلامتی ہو۔ اسلام کے پیغمبر محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قران کی روشنی میں مہمان کے ساتھ عزت و اکرام کا حکم دیا ہے چاہے وہ قیدی ہی کیوں نہ ہو۔

ابو عزیزی بن عمر روایت کرتے ہیں: میں غزوہ بدر کے قیدیوں میں سے ایک قیدی تھا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: “میں تم لوگوں کو قیدیوں کے ساتھ اچھے برتاو کا حکم دیتا ہوں“ اسلام قبول کرنے کے بعد میں مدینہ منورہ کے انصار میں سے تھا اور جب بھی ظہرانہ یا عشائیہ کا وقت آتا تو میں قیدیوں کو کھجور فراہم کرتا تھا کیونکہ میں بھی حکم نبوی کی وجہ بطور قیدی کھانا کھلایا گیا تھا۔[17] اے نبی! اپنے رب کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقے پر جو بہترین ہو۔[18] [19]

حوالہ جات ترمیم

  1. https://www.almaany.com/en/dict/ar-en/ضيف/
  2. C. Lewis, Elementary Latin Dictionary (Oxford Univ. Press, 2000)، p. 371.
  3. "آرکائیو کاپی"۔ 15 اگست 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 اگست 2019 
  4. Pohl, Christine D.، Making Room: Recovering Hospitality as a Christian Tradition، Wm. B. Eerdmans Publishing, 1999 آئی ایس بی این 9780802844316
  5. Tirukkuṛaḷ آرکائیو شدہ 2014-12-16 بذریعہ وے بیک مشین verses 71-80
  6. GU Pope (1886)۔ Thirukkural English Translation and Commentary (PDF)۔ W.H. Allen, & Co۔ صفحہ: 160 
  7. Yisrael Meir Kagan (1888)۔ Ahavath chesed : the Love of Kindness (2nd, rev. ایڈیشن)۔ Warsaw: Feldheim۔ صفحہ: 284۔ ISBN 0-87306-167-5 
  8. Babylonian Talmud Sotah, 46B
  9. Alain Montandon, L'hospitalité au XVIIIe siècle، Presses Universitaires Blaise Pascal, France, 2000, p. 12
  10. Walter A. Elwell, Evangelical Dictionary of Theology، Baker Academic, USA, 2001, p. 458
  11. Gideon Baker, Hospitality and World Politics، Springer, UK, 2013, p. 159
  12. J. Olaf Kleist, Irial Glynn, History, Memory and Migration: Perceptions of the Past and the Politics of Incorporation، Palgrave Macmillan, USA, 2012, p. 113
  13. Erinn Banting (2003)۔ Afghanistan the People۔ Crabtree Publishing Company۔ صفحہ: 14۔ ISBN 0-7787-9335-4۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 اکتوبر 2010 
  14. Rob Schultheis (2008)۔ Hunting Bin Laden: How Al-Qaeda Is Winning the War on Terror۔ New York: Skyhorse۔ صفحہ: 14۔ ISBN 978-1-60239-244-1 
  15. Rizwan Hussain (2005)۔ Pakistan and the Emergence of Islamic Militancy in Afghanistan۔ Aldershot: Ashgate۔ صفحہ: 221۔ ISBN 0-7546-4434-0 
  16. al-Mu’jam al-Kabīr 18444
  17. [قرآن 16:125]
  18. ترجمہ از تفہیم القران،