میخی

قدیم انسان کے پاس لکھنے کا کافی سامان نہ تھا۔ اس لیے لکڑی کی کیل سے مٹی کی تختیوں پر تحریر نقش کر دیتا تھا۔ اس خط کے حروف تیروں کے سروں اور کیلو

قدیم انسان کے پاس لکھنے کا کافی سامان نہ تھا۔ اس لیے لکڑی کی کیل سے مٹی کی تختیوں پر تحریر نقش کر دیتا تھا۔ اس خط کے حروف تیروں کے سروں اور کیلوں (میخ) کی مانند ہوتے تھے، چنانچہ اسے میخی خط (Cuneiform) کہا گیا۔

میخی رسم الخط ترمیم

 
میخی رسم الخط

میخی رسم الخط کا شمار دنیا کے قدیم ترین خَطوں میں ہوتا ہے۔ اسے پیکانی اور سہ گوشی خط بھی کہتے ہیں۔ ہزاروں سال قبل یہ رسم الخط سیریا (قدیم شام)، فارس (قدیم ایران) اور میسوپوٹیمیا (قدیم عراق) میں رائج تھا۔ اور اس کی بنیاد وہی تصویری حروف تھے جو سمیرنے ایجاد کیے جب تصاویر کے بنانے میں زیادہ دقت محسوس ہوئی تو ان کو مختصر کر لیا گیا اور اسی عمل میں تصویر کی جگہ صرف کیل اورتیر نما نشان رہ گئے۔ شام، ایران اور عراق سے میخی رسم الخط میں لکھے گئے نوشتہ، کتبے وغیرہ بہت بڑی تعداد میں برآمد ہوئے ہیں بلکہ کئی کتب بھی دریافت ہوئی ہیں۔ دنیا کی اولین اور سب سے بڑی رزمیہ داستان ”گلگامش“ بھی اسی خط میں تحریر ہوئی ہے جس میں حضرت نوح کے طوفان کا تذکرہ موجود ہے۔ اس کے علاوہ بابلیوں کی داستانِ تخلیق کی داستان عنوما علیش اور حمورابی کا قانون بھی میخی خط میں لکھاگیا۔ جب میسوپوٹیمیا کے آثار قدیمہ سے ”اشوربنی پال کی لائبریری“ دریافت ہوئی تو اس سے ملنے والی لغات اور گرائمر کی تختیوں سے اس رسم الخط کو سمجھنے میں بہت مدد ملی۔ ابتداءمیں خطِ میخی یعنی سمیری اورعکادی زبانوں کے تقریباً دو ہزار نشانات ہوتے تھے جو بعد میں بابلیوں اور آشوریوں کی آمد پر گھٹ کر تقریباً آٹھ سو رہ گئے جن میں سے چھ سو نشانات علامتی تھے اورڈیڑھ دو سو نشانات سلیبیتھے جو مستقل استعمال ہوتے تھے۔ تمام میخی خط انگریزی کی طرح بائیں سے دائیں لکھے جاتے تھے۔

عکادی، بابلی اور آشوری ترمیم

 
میخی رسم الخط

2500 ق م میں سمیر کے جنوب میں آباد قبائل اپنے بادشاہ سارگون اول کی رہنمائی میں سمیر پر حملہ آور ہوئے تو انھوں نے ایک نئی سلطنت کی بنیاد ڈالی جو ”عکاد“ یا اکاد (Akkad) کے نام سے مشہور ہوئی۔ ’‘اہلِ عکاد“ یوں تو سامی زبان بولتے تھے جو آرامی، عبرانی اور عربی وغیرہ سے کافی مماثلت رکھتی تھی لیکن لکھنے کے لیے انھوں نے سمیریوں کا میخی رسم الخط اپنایا۔ عکادیوں ہی کے دور میں عیلامی (Elamite) قوم نے اپنایا، عکادیوں کے بعد بابلی پھر کسدی پھر آشوری اقوام نے میخی خط کو اپنایا اور اپنے علوم اسی خط میں تبدیل کردیے 2000ق م میں حُرین (Hurrian) اور پھر 1700 ق م میں اناطولیہ کی حطی (Hittian) قوم 1400ق م میں شام کے علاقہ یوگریٹک (Ugaratic) کی قوم اور 600 ق م میں عراق و فلسطین کو فتح کرنے والی قدیم فارس کی قوم جب میسوپوٹیمیا میں عروج و زوال سے گذری انھوں نے بھی میخی خط کو ترجیح دی۔ چنانچہ تین ہزار سالوں تک اس خطہ میں میخی رسم الخط کو بین الاقوامی خط کی حیثیت حاصل رہی یہی نہیں ہزاروں برس بعد آرمینیا کی یوراٹین قوم نے بھی اس خط کو اپنایا۔

زبان ترمیم

جس طرح ہم پروٹوسیمیٹک کو تحریر کے لحاظ سے تمام سامی زبانوں کی ماں کہتے ہیں اسی طرح عکادی زبان بولی کے لحاظ موجودہ سامی زبانوں (عبرانی، عربی) کی ماں تھی۔ عکادی اور عربی میں وہی فرق ہے جو اردو اور ہندی کے درمیان ہے یعنی بولی ایک ہے رسم الخط الگ اس بات کا اندازہ آپ اوپر باکس میں دی ہوئی بابلیوں کی داستانِ تخلیق ”عنوما علیش“ کی ابتدائی چار سطحروں سے کر سکتے ہیں، جس میں عکادی زبان کے کئی الفاظ ایسے ہیں جو آج بھی سامی زبانوں یعنی یوگریٹک، فونیقی، آرامی، عبرانی، عربی اور اردو میں موجود ہیں۔

 
میخی رسم الخط

اقسام ترمیم

جب میسوپوٹیمیا سے میخی خط کے کتبہ برآمد ہوئے تو ماہرین اس الجھن میں مبتلا تھے کہ ایسی تحریروں کو کیونکر سمجھا جائے، جو چار ہزار سال پرانی ہے اور پڑھنے اور سمجھنے والا روئے زمین پر ایک شخص بھی زندہ سلامت نہ تھا۔ لیکن برسوں کی ریسرچ کے بعد ماہرین یہ معلوم کرنے میں کامیاب ہو گئے کہ میخی خط کی تین اقسام ہیں۔

درجہ اول : سمیری، عکا دی اور بابل کا خط 3000ق م وہ علامتی حروف جو تصویری خط سے اختصار کیے گئے ۔

درجہ دوم : یوگریٹک کا خط 2000ق م یہ زیادہ ترابجدی اور سلیبی حروف پر مشتمل تھا ۔

درجہ سوم : پیکانی یعنی قدیم فارس 600ق م اس میں سلیبی کے ساتھ علامتی حروف شامل تھے ۔

حوالہ جات ترمیم

ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کراچی