نظر لکھنؤی

لکھنؤ سے تعلق رکھنے والے مشہور شاعر

نظر ؔ لکھنؤی – منشی نوبت رائے نظرؔ (پیدائش: 1866ء – وفات: 10 اپریل 1923ء لکھنؤ سے تعلق رکھنے والے اردو زبان کے شاعر، ادیب اور نثرنگار تھے۔

نظر لکھنؤی
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1866ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لکھنؤ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 10 اپریل 1923ء (56–57 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لکھنؤ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شاعر ،  مدیر ،  نثر نگار   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو ،  فارسی ،  ہندی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سوانح ترمیم

پیدائش اور خاندان ترمیم

نظر کی پیدائش 1866ءمیں لکھنؤ میں ہوئی۔ بعض کتب ہائے تذکرہ میں سالِ پیدائش 1864ء لکھا گیا ہے۔نظر لکھنؤی کا پیدائشی نام منشی نوبت رائے تھا جبکہ تخلص نظرؔ اور لکھنؤ سے نسبت کے باعث لکھنؤی مشہور ہوئے۔ لکھنؤ کے ایک معزز کایستھ خاندان میں پیدا ہوئے۔ یہ خاندان لکھنؤ کے نوابوں کے زمانے سے ہی برسرِ اقتدار تھا۔[1]

تعلیم ترمیم

نظر نے اوائل عمر میں ہی فارسی اور اُردو کی تکمیل کرلی تھی ۔ بعد ازاں انگریزی زبان میں بھی دسترس حاصل کی۔

ملازمت ترمیم

نظر چونکہ واقعی صاحبِ نظر واقع ہوئے تھے اور ادبی صلاحیتیں بدرجۂ اُتم موجود تھیں، اِسی سبب سے1904ء میں خداداد ذہانت و قابلیت کو دیکھتے ہوئے منشی دیا نرائن نگم (ایڈیٹر رسالہ ’’زمانہ‘‘ کانپور) نے اپنے مقبولِ عام رسالہ ’’زمانہ‘‘ کا نائب مدیر بنا کر اپنے پاس کانپور بلا لیا، مگر جلد ہی1910ء میں آپ رسالہ ’’ادیب‘‘ کے مدیر (ایڈیٹر) ہوکر انڈین پریس، الہٰ آباد پہنچے۔ الہٰ آباد بھی دو سال سے زیادہ قیام نہ رہ سکا اور پھر 1912ء میں کانپور واپس آکر دوبارہ سالہ ’’زمانہ‘‘ کی خدمت پر مامور ہوئے۔ آزادؔ کے اجرا میں آپ نے منشی دیانرائن نگم کا بہت ہاتھ بٹایا، پھر حامد علی خاں بیرسٹر ایٹ لا کی وساطت سے نول کشور پریس میں چلے گئے۔ یہاں پہلے تو ’’تفریح‘‘ کے مدیر رہے اور بعد میں ’’اودھ اخبار‘‘ کے مدیر ہو گئے۔[2]

وفات ترمیم

آخری دور میں نظر ’’اودھ اخبار‘‘ کے مدیر (ایڈیٹر) کے فرائض سر انجام دے رہے تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اُن کی عمر کا آخری حصہ زیادہ پُر آشوب تھا اور اِس کا شکوہ اُن کے اکثر اشعار میں ملتا ہے۔ پے در پے خاندانی صدمات سے دوچار ہوئے۔ اپنی بیٹی اور پھر نواسی کے انتقال کے بعد نظر کافی دل برداشتہ ہو گئے اور ’’ اودھ اخبار‘‘ سے قطع تعلق ہو گئے۔ اِس دور کے کلام سے پتا چلتا ہے کہ نظرؔ دنیا سے اکتا گئے تھے اور اَب وہ دنیا سے رخصت ہونا ضروری سمجھتے تھے ۔ تقریباً 57 سال کی عمر میں وہ 10 اپریل 1923ء کو لکھنؤ میں انتقال کرگئے۔[3]

شاعری ترمیم

انیسویں صدی اور بیسویں صدی میں لکھنؤ شعر و شاعری کا گہوارہ بنا ہوا تھا اور اُس کی فضاء میں سخن گوئی و نغموں کی جھنک گونجتی رہتی تھی۔ نظر بھی اِسی فضاء کے سحر میں مبتلاء ہوئے اور طبیعت میں شعر و شاعری کا ذوق پیدا ہوا۔ فوراً ہی مظہر لکھنؤی کے شاگرد ہو گئے اور لکھنؤ میں منعقد ہونے والے مشاعروں میں شرکت کرنے لگے۔ وہ بحیثیت دردمندانہ دِل رکھتے ہوئے اردو زبان و اَدب کی خدمت میں مشغول ہونا چاہتے تھے، چنانچہ دنیائے کاروبار میں قدم رکھتے ہوئے 1897ء میں انھوں نے ایک رسالہ بنام ’’خدنگِ نظرؔ‘‘ جاری کیا جس میں پہلے صرف غزلیں ہی شائع ہوا کرتی تھیں، لیکن مضامینِ نثر بھی بعد میں شائع کیے جانے لگے۔آغا مظہر لکھنؤی کے یہاں اکثر و بیشتر مشاعرے ہوا کرتے اور اُن مشاعروں کی روائیداد مع غزلیات کے رسالہ ’’خدنگِ نظرؔ‘‘ میں شائع ہوا کرتی تھیں۔منشی دیانرائن نگم نے کہا ہے کہ: ’’ فطرت سے انھوں نے علم و اَدب کے لیے نہایت موزوں طبیعت پائی تھی، قدرت نے انھیں نہایت شستہ و سلیم ذوقِ سخن عطاء کیا تھا۔ بچپن میں اُن کو بہت اچھی صحبت ملی تھی جس سے طبیعت میں رفعتِ مزاج میں تہذیب‘ متانت و سنجیدگی پیدا ہو گئی تھی۔ اُن کا ذہن بھی بلاء کا تھا جس بات کو اور لوگ مہینوں میں حاصل کرتے، اُس پر وہ چند دِنوں کی محنت میں حاوی ہوجاتے تھے۔ اُن کا معیارِ خیال بہت اونچا، اُن کا مطمح نظر بلند اور رفیع تھا۔ اُن کی پسند مشکل ہوتی تھی‘‘۔[4]

کتابیات ترمیم

  • عبد الشکور ایم اے: دورِ جدید کے چند منتخب شعرا، کتابخانہ دانش محل، امین الدولہ پارک، لکھنؤ، 1943ء
  1. دورِ جدید کے چند منتخب شعرا، صفحہ 53۔
  2. دورِ جدید کے چند منتخب شعرا، صفحہ 53۔
  3. دورِ جدید کے چند منتخب شعرا، صفحہ 54۔
  4. دورِ جدید کے چند منتخب شعرا، صفحہ 53-54۔