سید اصغر مہدی نظمیؔ بہرائچی کی ولادت سن 1932 میں شہر بہرائچ کے محلہ سیدواڑہ قاضی پورہ میں ہوئی تھی۔آپ کے والد کا نام سید خورشید حسن زیدی اور والدہ کا نام محترمہ رقیہ بیگم تھا۔آ پ کے والد کا انتقال آپ کی کمسنی میں ہو گیا تھا۔آپ مشہور شاعر سید ساغر ؔمہدی کے بڑے بھائی تھے۔آپ کی تعلیمی لیاقت بی۔کام تھی اور انجمن ترقی پسندمصنفین سے وابستہ رہے۔آپ نے 1954 ء میں کراچی پاکستان کو ہجرت کی اور وہیں بس گئے تھے۔[1]

سید اصغر مہدی نظمیؔ بہرائچی
پیدائشسید اصغر مہدی نظمیؔ بہرائچی
1932ء
محلہ سیدواڑہ قاضی پورا شہر بہرائچ اتر پردیش ہندوستان
وفات15 اگست 1994ء
کراچی پاکستان
آخری آرام گاہکراچی پاکستان
زباناردو
قومیتبھارتی ،پاکستانی
شہریتبھارتی،پاکستانی
تعلیمانٹر
دورترقی پسند شاعری
موضوعغزل
ادبی تحریکترقی پسند تحریک
نمایاں کامدیوانجلی ،حرف جاں ،تحریر اور تحلیق
رشتہ دارساغر مہدی

حالات ترمیم

آپ کے والد کا نام سید خورشید حسن زیدی اور والدہ کا نام محترمہ رقیہ بیگم تھا۔آ پ کے والد کا انتقال آپ کی کمسنی میں ہو گیا تھا۔آپ مشہور شاعر سید ساغر ؔمہدی کے بڑے بھائی تھے۔آپ کی تعلیمی لیاقت بی۔کام تھی اور انجمن ترقی پسندمصنفین سے وابستہ رہے۔آپ نے 1954 ء میں کراچی پاکستان کو ہجرت کی اور وہیں بس گئے تھے۔[1] آپ کے بارے میں نعمت ؔ بہرائچی لکھتے ہیں جناب نظمی صاحب تقریباً چالیس سال سے اپنی عمرعزیز عرصئہ شعر وشخن میں بسر کر ہے ہیں ۔ ہندستان سے پاکستان ہجرت کرنے والوں میں ایک آپ بھی ہیں۔جو پاکستان میں مستقلاً قیام پزیر ہیں۔[2]

تصانیف ترمیم

سید اصغر مہدی کی دو کتابیں منظر عام پر آئی پہلی ’’خواب تیرے خیال کے‘‘ 1982ء میں شائع ہوئی تھی جس کی ترتیب آپ کے چھوٹے بھائی سید ساغر ؔمہدی نے دی تھی ، جب کی دوسری کتاب آپ کی وفات کے بعد ’’موج موج تشنگی‘‘ کے نام سے 1994ء میں کراچی پاکستان سے شائع ہوئی ۔[1] آپ کی وفات 1994ء میں کراچی پاکستان میں ہوئی۔ پروفیسر مجتبیٰ حسین سابق صدر شعبئہ اردو بلوچستان یونی ورسٹی کوئٹہ (پاکستان) ’’خواب تیرے خیال کے‘‘ کے پیش لفط میں نظمیؔ صاحب کے بارے میں لکھتے ہیں : نظمیؔ صاحب اچھے شاعر ہیں۔سلیقے سے شعر کہتے ہیں۔صاف کہتے ہیں۔مشکل نبا کر اپنے کو منوانے یا پیچنوانے کی کوشش نہیں کرت۔ان کی شاعری بے خبر آدمی کی شاعری نہیں ہے۔نظمی صاحب راہ کے پیچ و خم اور دشواریوں سے واقف ہیں۔وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ حالات بدلتے ہیں اور حالات بدلیں گے۔جدید ہونے کے چکر میں وہ شعریت سے دست بردار ہونے کو یتار نہیں۔یہ بڑی ہمت کی بات ہے۔ ان کی شاعری ہجر کی شاعری ہے۔اس میں یادوں کا ایک سلسلہ ہے۔یہ سلسلہ مستقبل سے مایوس نہیں ہے،حال سے دکھی ہے۔اس لیے اس کا درد ’’بے سود‘‘ نہیں ہے۔ایسی شاعری بے رس اور بے رنگ نہیں ہوتی،نظمیؔ صاحب کے یہاں یاد رہ جانے والی خصوصیت پائی جاتی ہے۔یہ وہ چیز ہے جس کی غیر موجودگی سے بہت سے شہرت یافتہ شاعر اپنی شہرت کھو دیتے ہیں۔ [3]

وفات ترمیم

سید اصغر مہدی نظمیؔ کی وفات15 اگست 1994ء میں کراچی پاکستان میں ہوئی۔[1]

نمونہ کلام ترمیم

اپنے غم سے بیگانہ تھے لیکن یہ معلوم نہ تھا

دنیا کے دکھ درد میں نظمیؔ اپنا غم بھی شامل ہے

دل بہت چاہتا ہے گھر جائیں یا اسی طرح دشت میں بکھر جائیں
ہم کھڑے ہیں عجب دوراہے پربول رے ہمسفر کدھر جائیں


  1. ^ ا ب پ ت بہرائچ ایک تاریخی شہر
  2. تذکرہ شعرائے ضلع بہرائچ
  3. خواب تیرے خیال کے