دماغی و قلمی نمونہ جنگ صفین خواجہ حسن نظامی کی کتاب ہے جس میں انھوں نے محمد علی جوہر سے اپنی قلمی جنگ کا مکمل تذکرہ درج کیا ہے اور اس سلسلے میں تحریر کیے گئے مضامین اور دوسرے اشخاص کے متعلقہ خطوط بھی یکجا کر دیے ہیں۔ 17 نومبر سنہ 1926ء کو محمد علی جوہر نے اپنے اخبار ہمدرد کے ذریعہ اس قلمی جنگ کا آغاز کیا۔[1] جوہر نے کسی خط کو دیکھ کر غلط فہمی میں حسن نظامی پر انگریزوں کی جاسوسی اور مخبری کا الزام لگایا تھا جس کے جواب میں حسن نظامی نے اپنے فعل کی صفائی پیش کی اور اپنی دانست میں جوہر کے مسلمان مخالف سیاہ کارناموں کو سلسلہ وار مضامین میں مفصل قلم بند کیا۔ 24 دسمبر 1926ء کو اس قلمی معرکے کا اختتام ہوا اور اپریل سنہ 1927ء میں کارکن حلقہ مشائخ دہلی سے نمونہ جنگ صفین شائع ہوکر خاصی مقبول ہوئی۔[2]

نمونہ جنگ صفین
مصنفخواجہ حسن نظامی
اصل عنواندماغی و قلمی نمونہ جنگ صفین
ملکہندوستان
زباناردو
موضوعقلمی جنگ
صنفجدلیات
ناشرکارکن حلقہ مشائخ، دہلی
تاریخ اشاعت
اپریل سنہ 1927ء
صفحات710

وجہ تسمیہ ترمیم

خواجہ حسن نظامی نے محمد علی جوہر سے اپنی اس قلمی معرکے کے تذکرے کا نام نمونہ جنگ صفین رکھا جس کی وجہ انھوں نے یہ بتائی کہ جوہر مسلسل اپنے اخبار ہمدرد میں میرے خلاف جاری سلسلہ مضامین کو جنگ صفین سے تعبیر کرتے اور کہتے رہے کہ میرا خنجر حسن نظامی کے گلے کے لیے پوری طرح تیز ہے۔ چنانچہ انھوں نے محمد علی جوہر کی اسی تشبیہ کی بنا پر اپنی اس کتاب کا نام نمونہ جنگ صفین رکھا۔[3]

سبب جنگ ترمیم

صوبہ اترپردیش کے شہر ہاپڑ کے ایک شخص تھے جن کا نام ضیاء الحق تھا۔ وہ اپنے دور کے نامی لوگوں میں سے تھے۔ انھیں مشاہیر کی ٹوہ میں رہنے کی عادت سی تھی۔ ضیاء الحق محمد علی جوہر اور خواجہ حسن نظامی دونوں کے حلقہ احباب میں شامل تھے اور ان دونوں بزرگوں سے اچھے مراسم رکھتے تھے۔ ایک دفعہ جب خواجہ نظامی دہلی میں موجود نہیں تھے انھوں نے جوہر کو خواجہ صاحب کا ایک دکھایا۔ جوہر نے اسے انگریزوں کی مخبری سمجھ لیا اور یہی غلطی فہمی اس سارے معرکے کا باعث بنی۔[4]

معرکہ ترمیم

محمد علی جوہر کو ہندوستان پر قابض انگریزوں سے سخت نفرت تھی، چنانچہ اس خط کو دیکھ کر وہ سخت ناراض ہوئے اور 17 نومبر 1926ء سے اپنے اخبار ہمدرد میں حسن نظامی کے خلاف سلسلہ وار مضامین لکھنا شروع کیا۔ نظامی صاحب جب دلی واپس آئے تو انھیں اس کا علم ہوا۔ انھوں نے بھی اپنا قلم سنبھالا اور ترکی بترکی جوابات دیے بلکہ ان تردیدی مضامین کے لیے انھوں نے ایک نیا اخبار ہی جاری کر دیا۔ بالآخر ایک ماہ بعد کچھ معززین نے دونوں حضرات کے بیچ پڑ کر صلح کرائی اور 24 دسمبر کو یہ سلسلہ تھما۔[5]

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. شاہد احمد دہلوی۔ گنجینہ گوہر۔ صفحہ: 71 
  2. خواجہ حسن نظامی (1927ء)۔ نمونہ جنگ صفین 
  3. خواجہ حسن نظامی (1927ء)۔ نمونہ جنگ صفین۔ صفحہ: 1 
  4. شاہد احمد دہلوی۔ گنجینہ گوہر۔ صفحہ: 71 
  5. شاہد احمد دہلوی۔ گنجینہ گوہر۔ صفحہ: 71 

بیرونی روابط ترمیم