بابائے براہوئی براہوئی زبان کے عظیم خدمت گار شاعر۔ ادیب۔مدبر، صحافی دانشور اور عظیم لکھاری

پیدائش

ترمیم

نور محمد پروانہ پندرانڑی 15 فروری 1918ء کو مولانا مہر دل پندرانڑی کے گھر اوستہ محمد ضلع نصیر آباد میں پیدا ہوئے۔

تعلیم

ترمیم

ابتدائی تعلیم اپنے گھر سے ہی حاصل کی پھر پرائمری کی چار کلاسیں آرچر اسکول اوستہ محمد سے پڑھیں اور پانچویں جماعت بارٹس ہائی اسکول سبی سے پاس کی۔دینی فارسی تعلیم مولانا پاندھی خان سے اوستہ محمد میں حاصل کی ۔ عربی تعلیم مولانا محمد بنگل سے محمد پورا اڈھو اور بعد میں مولانا محمد نوناری سے حاصل کی۔ادب دوستی کا رنگ مولانا پاندھی خان سے ملا۔اور براہوئی میں شاعری شروع کر دی

عملی زندگی

ترمیم

1935ء میں پروانہ تخلص اپنایا۔اور تعلیم ادھوری چھوڑ کے لیویز میں ملازمت اختیار کر لی ۔ سرکاری ملازمت میں پابندیاں راز نہ آئیں تو دل برداشتہ ہو کے نوکری ہی چھوڑ دی۔اور اپنا ذاتی کاروبار ٹیلرنگ شروع کر دی۔اس وقت سیاست میں نوجوانوں کے آئیڈیل میر عبد العزیز کرد، نواب یوسف علی خان مگسی اور خان عبد الصمد خان اچکزئی تھے لہذا آپ نے ان کی راہ اپنائی ۔ اور انجمن وطن بلوچستان کی ممبر شپ لے لی اور اس کی شاخ اوستہ محمد میں قائم کی ۔

صحافت

ترمیم

آپ نے صحافت کا آغاز 1939ء میں ہفت روزہ نوجوان جیکب آباد سے کیا اور اسسٹنٹ ایڈیٹر کی حیثیت سے صحافت میں آ گئے۔1942ء کو ان کی شادی ہو گئی اور اور اوستہ محمد سے نقل مکانی کرکے محمد پور اڈھو شفٹ ہو گئے۔اس کے ساتھ ہی آپ ہفت روزہ ہاری حقدار اور ہفت روزہ آزاد کی نمائندگی لے لی اس دوران آپ کا تعلق چیف آف ساراوان نواب غوث بخش خان رئیسانی سے ہو گیا۔آپ نے ان سے مل کے 1960ء میں ہفتہ روزہ ایلم مستونگ جاری کیا۔آپ نے اس اخبار کے ذریعے براہوئی زبان و ادب میں ایک نئی روح پھونک دی اور ادبی انقلاب لے آئے ۔ آپ نے براہوئی زبان کا ایک قاعدہ بھی لکھا تاکہ براہوئی زبان لکھنے اور پڑھنے میں لوگوں کو آسانی ہو۔نور محمد پروانہ کو بابائے براہوئی ان کی ادبی خدمات کے صلے میں مانا جاتا ہے ان کے بعد ان کے بیٹے مہر دل خان پروانہ نے ہفت روزہ ایلم جاری رکھا پھر ان کے فرزند محمد عظیم ذاکر نے یہ چراغ جلائے رکھا اور آج تیسری نسل براہوئی زبان کی خدمات سر انجام دے رہی ہے۔بابائے براہوئی کے ایک فرزند محمد اسلم پروانہ پیر غائب میں نہاتے ہوئے پانی میں ڈوب کر شہید ہو گئے تھے،

وفات

ترمیم

16 دسمبر 1995ء کو وفات پائی،[1]

  1. ڈاکٹر عبد الرشید آزاد