نگیال راجپوت  دراصل ایک پوٹھوہاری قبیلہ ہے ۔ وہ تمام قبائل جن کے ساتھ  ال یا آل کا لاحقہ استعمال ہوتا ہے در حقیقت پوٹھوہاری قبائل ہیں ۔ مثال کے طور پر دھمیال , پکھڑال , تھتھال , بندیال اور رنیال وغیرہ وغیرہ یہ ال دراصل آل کے لیے مستعمل ہے دھمیال کا مطلب دھمی خان کی اولاد دھمی کی آل سے دھمیال مستعمل ہوا بالکل اسی طرح نگیال یا ناگیال کی اصل ناگی آل ہے یعنی راجا ناگی خان کی اولاد ۔ یہ بالکل ویسے ہی ہے جیسے عرب میں بن اور بنتِ اور سرحد میں زئی مستعمل ہے۔

نگیال قوم کا تعلق دراصل جموں کے جموال خاندان سے ہے ۔ ان کا نسبی تعلق چودھویں صدی میں جموں کے راجا ملدیو جموال سے ہے جس کا زمانہِ اقتدار 1360 تا 1410 جبکہ بعض روایات کے مطابق ١٤٥٦ تک ہے۔ نگیالوں کا سلسلہ نسب راجا ملدیو جموال کے سب سے چھوٹے فرزند راجا ناگی خان سے ملتا ہے اور اسی نسبت سے یہ ناگیال کہلاتے ہیں۔ راجا ملدیو جموال کے دور حکومت میں تیمور لنگ نے ہندوستان پر حملہ کیا اور ہندوستان کو تاخت و تاراج کرتا ہوا واپسی وسطی ایشیإ روانہ ہوا تو جموں سے ہوتا ہوا گیا راستے میں متعد قلعے فتح کیے ہزاروں لوگوں کا قتل عام کیا جب تیمور جموں پہنچا تو پتہ چلا کہ اس علاقے پر ایک ہندو راجا کی حکومت ہے ۔ تیمور نے اپنے لشکر کو جموں میں بیلہ کے مقام پر پڑاؤ کا حکم دیا ۔ جب راجا ملدیو  کو خبر پہنچی تو اپنے ایلو عیال  کو پہاڑوں پر بھیج کر جنگ کی تیاری شروع کر دی۔ ایک رات مسلمان لشکر پر اچانک شب خون مارا تو لشکر میں بھگدڑ مچ گئی اور مسافروں کا کافی نقصان ہوا اگلی صبح تیمور نے باقاعدہ حملہ کی اجازت دی ۔

بہت سے جموال سرداران مارے گئے اور راجا ملدیو جموال زخمی حالت میں گرفتار ہوا جس پر دیگر جموال سرداران نے ہتھیار ڈال دیے۔

راجا ملدیو کو زخمی حالت میں تیمور لنگ کے سامنے پیش کیا گیا , تیمور نے اسلام کی دعوت دی جس پر راجا نے اسلام قبول کر لیا ۔ تیمور لنگ نے یہ یقین کرنے کیلٕے کہ واقعی دل سے سلام قبول کیا یا جان بخشی کے لیے دھوکا دہی سے کام لے رہا ہے ایک ضیافت کا اہتمام کروایا جس میں تمام پکوان گائے کے گوشت کے بنوائے گئے۔راجا نے بخوشی نوش فرماٸے جس پر سلطان تیمور لنگ صاحبِ نے راجا ملدیو کو اپنی شاہی چادر بطور تحفہ عطا کی اور جموں پر راجا کی حکومت بحال کرنے کا فرمان جاری کیا اور وسطی ایشیإ کی طرف کوچ کر گیا۔

اس واقعے کے اور تیمور کی روانگی کے بعد جموال  سرداران اور راجا کا سب سے بڑا صاحبزادہ راجا ہمیر دیو  رفتہ رفتہ راجا ملدیو کے خلاف ہوتے گئے اور عوام کو بھی بھڑکاتے رہے کہ راجا نے جان بخشی کے لیے اسلام قبول کیا اور گائے کا گوشت تک نوش کیا۔ مختصرا“ یہ کہ راجا ہمیر دیو نے اکثر سرداران کو ساتھ ملا کر بغاوت کا ارادہ کر لیا جس کی خبر راجا ملدیو کو قبل از وقت کچھ خاص اور وفا دار مصاحب سے ہو گٸی نتیجتا“ راجا ملدیو نے انتقامی کارواٸی کرنے کی بجاٸے اپنے خاص اور وفادار احباب  کو ساتھ لیا اور رات و رات جموں سے خفیہ طور پر ہجرت کر کے بھمبر کے قرب میں بمقام بٹالہ آکر ٹھہرا اور بٹالہ کو ہی اپنی مستقل قیام گاہ بنایا ۔ اور جموں میں راجا ہمیر دیو نے حکومت کا اعلان کر دیا ۔

راجا ملدیو نے بٹالا کے ساتھ اپنا نام پر دیوا کا موضع آباد کیا جو بعد میں دیوا بٹالہ یا دیوا وٹالہ کے نام سے مشہور ہوا۔

دیوا وٹالہ میں آباد ہونے کے بعد روہتاس اور گوجر خان جو اس زمانے میں بڑی تجارتی منڈیوں کی حیثیت سے مشہور تھیں میں وقتا فوقتا راجا ملدیو کی آمد کا سلسلہ جاری رہا اور اسی ایک موقع پر راجا ملدیو کا گھوڑا رسی درخت سے کھلنے پر بھاگا جسے سامنے سے آتیں چند خواتین میں سے ایک خاتون نے پکڑ لیا اور واپس مالک کے حوالے کیا۔

اس علاقے کے احباب سے معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ لڑکی کا تعلق کسی عام گھرانے سے نہیں بلکہ ریاستِ  کوٹ دھمیک ( سلطان دھمی خان جدِ امجد خاندانِ دھمیال) کے شاہی خانوادے سے ہے۔ کچھ روایات کے مطابق وہ سلطان دھمی خان کی بیٹی اور کچھ کے مطابق پوتی یو نواسی تھی۔

راجا ملدیو نے واپسی کا ارادہ ترک کیا اور کوٹ دھمیک کے قریب موضع داراکیال میں عارضی قیام کیا۔

بالآخر بہت کوششوں کے بعد پیغام بھجوایا گیا تو دھمیال شاہی خاندان نے صاف انکار کر دیا کہ ہم مسلمان ہیں اور ہندوؤں میں شادی ممکن نہیں ۔ بہر حال راجا ملدیو نے کوشش جاری رکھی اور جب سلطان دھمی خان کو معلوم ہوا کہ راجا ملدیو جو ریاستِ جموں کا راجا تھا اوراب بوجہ اسلام قبول کرنے اور بیٹے کی بغاوت کے دیوا وٹالہ میں آباد ہے تو کچھ شراٸط پر آمادگی ظاہرکی ۔

سلطان دھمی خان نے پہلی شرط یہ رکھی کہ سب کے سامنے کلمہ حق پڑھ کر اپنے مسلمان ہونے کا باقاعدہ  اعلان کرنا پڑے گا۔

دوسری شرط یہ کہ مستقل رہاٸش کوٹ دھمیک میں رکھنی پڑے گی۔

راجا نے بخوشی اسلام کا اعلان کیا اور دھمیال خاندان میں شادی کر لی اور مستقل سکونت دیوا وٹالہ سے کوٹ دھمیک بمقام داراکیال اختیار کی ۔

راجا کی زوجہ (جنہیں خاندانی تاریخ میں دھمیالاں بی بی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے) کے ہاں کچھ عرصہ بعد ایک لڑکے کی پیداٸش ہوا ۔ اس بچے کے ساتھ ایک واقعہ پیش آیا کہ بچہ پنگوڑے میں تھا اور ماں کچھ گھریلو کام کاج  سے فارغ ہو کر بچے کے پاس آٸی تو دیکھا کہ بچہ کہ قریب ایک کالا ناگ بیٹھا ہے

ماں نے فورا“ سب کو چیخ کربلایا ۔ بچہ کے والد نے جب یہ دیکھا تو سب کو منع کیا کہ دور رہو ورنہ یہ ناگ بچے کو نقصان پہنچا سکتا ہے  کچھ ہی دیر بعد وہ سانپ وہاں سے بغیر بچے کو نقصان پہنچائے چلا گیا جس پر ماں نے سکھ کا سانس لیا اور اس واقعے پر راجا ملدیو نے جو ابھی نو مسلم تھا اور ذہنی طور پر ہندو مت کا غلبہ رہنے کہ وجہ سے بچے کا نام ناگی خان رکھا ۔

یہ بچہ ناگی خان کے نام سے مشہور ہوا اور اس کی اولاد ناگیال کے نام سے مشہور ہے جو پوٹھوہار کہ متعد دیہات میں آباد ہے ۔

ان کا نسبی و آباٸی علاقہ کوٹ دھمیک ہے جہاں پر دھمیال  اور ناگیال راجگان نے تین صدیاں راج کیا ہے ۔ اور بلآ خر ملک قدر خان گکھڑ کے زمانے میں فرنسیہ گکھڑ کے ساتھ جنگ میں راجا ملدیو مارا گیا۔

راجا ناگی خان کے تین فرزند ہوٸے ۔

١- راجا جندا خان

٢- راجا سلیم خان

٣- راجا ہمین خان

انہی تینوں کی اولاد وقتا فوقتا معاش و دیگر وجوہات کی بنإ پر پورے پوٹھوہار کے مختلف دیہات میں آباد ہوتی رہی۔

گکھڑوں سے شکست کھانے کے بعد دھمیالوں اور نگیالوں نے کاشت کاری کو ذریعہ معاش بنایا ۔

راجا دولوں خان پکھڑال نے اپنے نسبی تعلق کی وجہ سے کوٹ دھمیک کے  نگیال زمینداران کو دولتالہ میں زمینیں دیں اور لا کر آباد کیا ۔

جو آج تک وہاں آباد ہیں اور دولتالہ میں پکھڑال کے بعد سب سے قدیمی قوم نگیال ہے،