وادی سندھ کا دفاع ، فوج اور اسلحہ

ویلر کے خیال میں وادی سندھ کی تہذیب کی ساری دولت کس سرچشمہ زراعت اور تجارت تھی۔ ملک کے اندر دولت کے ذخائر زرخیز تھے اور فوجی مہمات کے ذریعے ہمسایہ زمینوں کو فتح کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ لہذا سلطنت سندھ کے پاس لگتا ہے لمبی چوڑی فوج نہیں تھی۔ ویلر کا یہ بھی خیال ہے کہ ابتدا میں اتنی بڑی سلطنت کو وجود میں آجانا پر امن پھیلاؤ کی نسبت قوت کا زیادہ مرحون منت نظر آتا ہے ۔

لیکن آپ غور کریں تو جگہ جگہ آپ کو قلعہ بند شہر نظر آئیں گے۔ جس کا مطلب ہے جگہ جگہ قلعہ بند فوجی چھاؤنیاں تھیں۔ ہم اس سے نتیجہ نکال نے میں حق بجانب ہیں کہ سلطنت میں دفاع کا غیر متکز اور بلدیاتی نظام تھا۔ ہر فوجی چھاؤنی کا مقصد اپنے محدود علاقے میں امن و امان قائم رکھنا۔ تجارت کی نقل و حمل کو محفوظ بنانا اور زرعی زائد پیدوار کی وصولی کو ممکن بنانا تھا۔ یہ غیر مرکز اور بلدیاتی فوج بہت بڑے غیر ملکی حملے کی صورت میں دفاع کی صلاحیت نہ رکھتی تھی۔ خاص کر جب ہم اس بات پر غور کرتے ہیں کہ ان کے پاس اسلحہ کس قسم کا تھا۔ سیکڑوں مقامات کی کھدائی کے باوجود کوئی قابل ذکر جنگی ہتھیار نہیں ملے۔ کچھ ملا ہے تو وہ اتنے معمولی ہتھیار ہیں کہ ان کی مدد سے اتنی بڑی سلطنت کو اندونی شورشوں سے محفوظ رکھنا بھی ممکن نظر نہیں آتا اور جب کہ استحصال اپنے عروج پر تھا تو عوام کو کس طرح قابو میں رکھا جاتا تھا سمجھ میں نہیں آتا ہے۔ تانبے کے جو ہتھیار ملے ہیں وہ اتنے ہلکے پھلکے اور معمولی نوعیت کے ہیں کہ فوج کے ساز سامان سے زیادہ کسی شکاری یا دستکار کے ہتھیار معلوم ہوتے ہیں۔ مثلاً تانبے یا کانسی کے بھالے، چاقو، چھوٹی تلواریں، نیزے کی بے شمار انیاں اور کلہاڑیاں ملی ہیں۔ زرہ بکتر اور خود کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔ یہ 18 1/2 انچ لمبے خنجر یا بلم ہیں۔ جن کے دونوں طرف لمبا پھل ہے اور پیٹ ابھرا ہوا نوک دار ہے۔ یہ بھی آخری زمانے کی چیز ہے۔ سب سے زیادہ عام ہتھیار نیزہ ہے۔ پتے کی شکل کے کئی چاقو بھی ملے ہیں۔ ان میں دستہ ڈالنے کے لیے سوراخ نہیں ہے۔ البتہ ایک سوراخ دار تیشہ ملا ہے۔ جو بہت عمدگی سے بنایا گیا ہے۔ یہ بھی بعد کے زمانے کی پیداوار اور اسے بیرونی اثرات کی پیداوار بتایا جاتا ہے۔ سنگ جراحت، ریت پتھر اور ناقص عقیق اور چونے دار پتھر سے بنے ہوئے بے شمار بلم بھی ملے ہیں۔ یہ بلم ذاتی حفاظت کا ہتھیار معلوم ہوتا ہے۔ جسے لوگ دوران سفر اپنے پاس رکھتے ہوں گے۔ اس دونوں کناروں پر سوراخ تھے۔ جس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انھیں چابک کے چمڑے کے ساتھ باندھا جاتا ہوگا۔ بہت سارے پختہ مٹی کے غلے بھی ملے ہیں۔ ان میں سے گول ہیں اور ایک انچ موٹے ہیں۔ بعض بیضوی ہیں اور 2 1/2 انچ لمبے ہیں۔ تانبے کے بنے ہوئے ایک دھار کے قصائی کے بغدے بھی ملے ہیں۔ کچھ ہتھیار استرے سمجھے گئے ہیں۔ ایک استرے کے ساتھ سوتی کپڑے کا ٹکڑا بھی ملا ہے ۔

پتھر کے اوزار بہت بھاری تعداد میں ملے ہیں۔ جس کا مطلب ہے اس سماج میں پتھروں کے اوزاروں کا استعمال عام تھا۔ مثال کے طور پر حجری کلہاڑیاں جو دس انچ تک لمبی ہوتی تھیں۔ ناقص عقیق کے چاقو اور پتھر کے برمے بھی ملے ہیں ۔

اتنے معمولی ہتھیاروں کو دیکھ کر سوال پیدا ہوتا ہے کہ وادی سندھ میں استحکام کسیے قائم رکھا کہ حکومتی ڈھانچہ ایک طویل عرصہ تک مستحکم رہا؟ کیوں کے ہر طبقاتی سماج میں محکوموں کو کنٹرول میں رکھنے کا اصل اور حتمی طریقہ صرف طاقت ہے۔ فلسفہ، مذہب، تعلیم اور ترغیب کے ذریعے ذہنوں کو مسخر کیا جا سکتا ہے لیکن اس بالائی ڈھانچے کے پیچھے اصل محافظ حکمرانوں کی فوجی طاقت یا صلاحیت ہوتی ہے۔ جو اس کی حکومت کی استحکام کی ضامن ہوتی ہے ۔

وادی سندھ کی تہذیب کے شہروں میں دولت کی فراوانی تھی۔ گھر کی دیواریں موٹی اور چوروں کی نقب زنی سے محفوظ بنائی جاتی تھیں۔ گھر کا داخلی دروازہ چھوتا سا اور بغلی گلی میں کھلتا تھا۔ دروازے کے اندر چوکیدار ٹھکانہ بنا ہوتا تھا۔ ان گھروں سے مدفون سونا چاندی اور زیوارات ملے ہیں۔ یہ اس بات کا کافی ثبوت ہے کہ تاجر امیر لوگ تھے۔ لیکن ان کی تعمیرات میں آرائشی پہلو بالکل ناپید ہے۔ گویا دولت کی نمائش کا رواج نہ تھا۔ اس کی وجہ سے ریاستی اسلحہ کمزور ہونا ہے ۔

ماخذ

یحیٰی امجد۔ تاریخ پاکستان قدیم دور

پروفیسر محمد مجیب۔ تاریخ تمذن ہند

ڈاکٹر معین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم

ڈی ڈی کوسمبی۔ قدیم ہندوستان