ٹھگ

جرائم پیشہ جو لوگوں کو لوٹتے ہیں

ٹھگ (انگریزی: Thuggee; ہندی: نیپالی ठग्गी ṭhagī‎; اردو: ٹھگ; سنسکرت: sthaga‎; (سندھی: ٺوڳي، ٺڳ)‏; (کنڑا: ಠಕ್ಕ thakka)‏) وہ جرائم پیشہ لوگ جو سادہ لوح لوگوں کو دھوکا اور فریب دے کر لوٹ لیتے تھے۔ بعض اوقات یہ لوگ اپنے شکار کو جان سے مار دینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ ایسے لوگ تقریبا ہر ملک میں پائے جاتے ہیں۔ ہندوستان میں مغلوں کی سلطنت کو زوال آیا اور ملک میں طوائف الملوکی پھیل گئی تو یہاں ٹگی ایک منظم پیشہ بن گیا۔ یہ لوگ بڑی ہوشیاری سے مسافروں کو لوٹ لیا کرتے تھے۔ اگر ایک ٹھگ ناکام رہتا تو وہ اپنے شکار کو دوسرے علاقے کے ٹھگ کے ہاتھ فروخت کر دیتا۔ ان کا بڑا ہتھار رومال یا پھندا ہوتا تھا۔ جس سے وہ آناً فاناً اپنے شکار کا گلا گھونٹ کر اس کا خاتمہ کر دیتے تھے۔

ٹھگ
1894ء میں ٹھگوں کا گروہ
قیام1356 سے قبل
نام منسوبسنسکرت لفظ اشٹگا स्थग مطلب ہوشیار یا مکار، ہوشیاری، دھوکا دہی، بے ایمانی
مقام قیاموسطی ایشیا
فعال سال450 سال تقریبا
خطہبرصغیر
نسلیتبھارتی
مجرمانہ سرگرمیاںقتل، ڈاکہ

لارڈ ولیم بنٹنک نے ہندوستان کا گورنر جنرل بنا تو اس کے سامنے جو مسلے درپیش ہوئے ان میں ایک اہم مسلہ ٹھگی کے انسداد کا بھی تھا ۔ جس کے بارے میں سر جان کیٹی کا کہنا ہے کافی لمبے عرصہ تک برطانوی حکومت کو اس وحشیانہ قتل اور لوٹ مار کے جرم کا علم ہی نہیں ہو سکا ۔ یہ ٹھگ جو بے گناہ مسافروں کو قتل ان کا مال لوٹ لیا کرتے اور پورے ملک میں ڈنداتے پھرتے تھے اور ان کی خاص قتل و غارت کی آماج گاہ وسط ہند دکن اوڑیسہ کے علاقے تھے ۔ یہ پیشہ ور بلکہ آبائی قاتلوں کے گروہ تھے جو ہر سال سیکڑوں مسافروں کو وحشیانہ طور پر قتل کرکے ان کا مال غنیمت حاصل کیا کرتے تھے ۔

کارروائیاں ترمیم

  • ہندوستان ٹھگی کی کارروائیاں قدیم زمانے سے چلی آرہی تھیں ۔ ان میں عموماً زہر دے کر اور گلے میں پھندا ڈال کر مسافروں کو قتل کیا جاتا تھا ۔ ٹھگوں مختلف براریاں تھیں جو تمام ہندوستان متعظم شکل میں تھیں ۔ ان کی خطرناک کارروائیوں سے ملک کو کوئی بھی علاقہ محفوظ نہ تھا ۔ برصغیر کے ہر علاقے میں ان ٹھگوں نے خوف و حراص کی فضاء پھیلا رکھی تھی ۔ یہاں تک لوگ سفر کرتے ہوئے اور کسی بھی اجنبی مسافر پر اعتماد کرتے ہوئے ڈرتے تھے کہ ناگاہ ان کا ساتھی کہیں ٹھگ نہ ہو اور اس میں حقیقت بھی تھی ۔ کیوں کہ یہ ٹھگ مسافروں کو راستہ میں ہی مسافر کی حثیت سے ملتے تھے اور موقع پاکر ان کا قتل کردیتے تھے ۔ چنانچہ سی پی ، بنگال ، مدراس ، بمبئی ، یوپی ، سندھ اور پنجاب کی کسی سڑک یا راستہ ایسا نہیں تھا جو ان ٹھگوں کے وجود سے خالی ہو ۔ اکثر بشتر مسافر راستہ میں غائب ہوجاتے یا ان کی لاشیں بے دردانہ طریقے سے گلہ گھٹی ہوئی ملتی تھیں ۔
  • ٹھگ شکار کو جہاں قتل کرنا ہوتا تھا پہلے اس جگہ کا انتخاب کر لیا کرتے تھے ۔ وہاں کہیں قریب اس کی قبر بھی کھود لی جاتی تھی ۔ جو عموما راستے سے ہٹ کر جھاڑیوں میں ہوتی تھی اور اطلاع دے دی جاتی تھی کہ قبر تیار ہے ۔ جب قبر تیار ہوتی تو یہ اپنے شکار کو مارنے کے لیے ایک رول کیا ہوا رومال استعمال کرتے تھے ۔ جس کے بیچ میں ایک سکہ ہوتا تھا اور اسے پھرتی سے شکار کے گلے میں اس طرح ڈالتے کہ سکہ اس کے نرخرے پر آجاتا اور رومال کا جھٹکا شکار کی سانس کی ڈوری توڑ دیتا تھا ۔ گلے میں رومال ڈالنے والے کے علاوہ عموماً دو مدگار اور ہوتے تھے ۔ ایک ہاتھ پکڑتا اور دوسرا اس کے پیر کھنچ کر زمین پر گرا دیتا تھا ۔ اس رومال کو استعمال کرنے کے لیے خاص پھرتی اور مہارت کی ضرورت ہوتی ہے اور قتل کرنے والے ٹھگ کا رتبہ گروہ میں بھی بڑا ہوتا تھا ۔ اسے دوسروں سے زیادہ حصہ ملا کرتا تھا ۔ بعد ازاں لاش سے کپڑے اتار کر مال حاصل کر لیا جاتا تھا اور لاش جلد سے جلد دفن کردی جاتی تھی ۔ اس دوران اگر کوئی اجنبی شخص آجاتا تو جلدی سے لاش پر کپڑا ڈال دیا جاتا تھا اور اس کے پاس بیٹھ کر گریہ و زاری کرتے کہ گویا ان کا کوئی عزیز ساتھی مرگیا ہو ۔ آنے والے ایک یا دو ہوتے تو انھیں بھی شکار کر لیا جاتا تھا ۔

دوہری زندگی ترمیم

  • ان ٹھگوں کی دہری زندگی ہوا کرتی تھی اور عام حالات میں یعنی جب یہ اپنے گھروں یا ملازمت پر ہوتے تھے تو اچھے چال چلن کے مالک ، محنتی اور امن پسند ہوا کرتے تھے ۔ کچھ ٹھگوں کے بارے میں معلوم ہوا انھوں نے ٹھگی کا پیشہ چھوڑ کر سپاہی بھرتی ہو کر مختلف پلٹنوں میں تعینات تھے ۔ جب ان کے چال چلن کے بارے میں معلومات کی گئیں تو ان کا چال چلن میں کوئی خرابی پائی نہیں گئی ۔ اس برادری کا ایک مستعد خالق جسے پھانسی دی گئی تھی ۔ وہ بھی ایک سپاہی تھا اور قانون کے مطابق رخصت لے کر اپنے ساتھیوں کے ساتھ جا ملتا اور ٹھگی اور قتل کی وارداتیں کرنے کے بعد واپس پلٹن میں آجاتا تھا ۔ اس کے چال چلن میں بھی کوئی خرابی نہیں پائی گئی ۔ ان ٹھگوں کو جنہیں پکڑا گیا ان سردار جفاکش کاشتکار ، سپاہی اور دوسرے پیشے سے وابستہ تھے اور اچھی شہرت کے مالک تھے ۔ حلانکہ ان کے مختلف گروہوں نے دور دور تک قتل و غارت اور لوٹ ماری کا بازار گرم کر رکھا تھا ۔

سرپرستی ترمیم

  • یہ ٹھگ جن علاقوں اور موضعات میں رہتے تھے وہاں کے سرکاری عہدہ دار اور جاگیر دار اکثر ان کے دھندوں سے واقف تھے ۔ مگر ان ٹھگوں سے رقوم اور دوسرے تحفہ بٹوڑتے تھے اور نہ دینے کی صورت میں انھیں قید اور سولی پر لٹکانے کی ڈھمکی دیتے تھے ۔ ٹھگوں کو بھی ایک محفوظ پناہ کی ضرورت ہوتی تھی ۔ اس لیے وہ ہر مہم یا سفر سے واپس آکر لازماً انھیں کوئی تحفہ یا رقم ادا کرتے تھے اور انھیں خوش رکھنے کی کوشش کرتے تھے ۔ مگر یہ ٹھگ اپنی بشتر رقوم ان عہدہ داروں اور جاگیر داوں سے چھپا کر رکھتے تھے ۔ ایسا بھی ہوتا کوئی جاگیردار یا عہدہ دار انھیں یا ان کے خاندان کو قید کرکے ان سے مزید رقوم کا تقاضا کرتا اور نہ دینے کی صورت میں سولی پر چڑھانے کی ڈھمکی دیتا تھا ۔ لیکن یہ اپنی بیویوں سے اپنے ٹھگ ہونے کا ذکر نہیں کرتے تھے ۔ انھیں خوف ہوتا تھا وہ کہیں دوسروں پر یہ راز فاش نہ کر دیں ۔

بھوانی ترمیم

  • ٹھگوں کی خاص دیوی بھوانی تھی جو کالی کا ایک روپ ہے اور اس روپ میں وہ خون ریزی کو پسند کرتی ہے ۔ مگر حیرت کی بات یہ ہے ٹھگوں کے گروہ میں ہندو اور مسلمانوں کی کوئی تخصیص نہیں تھی ہندوؤں کے ساتھ مسلمان بھی برابر کے شریک تھے اور وہ بھی بھوانی پوچا اور دوسری رسومات میں شریک ہوا کرتے تھے ۔ ٹھگی صرف ان کا پیشہ ہی نہیں بلکہ جی اینڈرسن کے الفاظوں میں مذہب بھی تھا ۔ ان کا اعتقاد تھا کہ ان کی کار گزاریوں پر ان کی دیوی خوش ہوتی ہے اور اس کا اظہار بعض مسلمہ علامتوں اور آوازوں کے ذریعے ان کے ساتھ سلسلہ پیام جاری رکھتی ہے ۔ وہ بھوانی کی رضا جوئی کے لیے پرتکلف رسوم ادا کرتے اور اس کے شگون ملنے تک کسی مہم میں حصہ نہیں لیتے تھے ۔ اس سے زیادہ ظاہری مذہبی رسوم یا متوقع انکشافات کے باطنی مظبوط عقیدے کے ساتھ مسلمہ قدامت کے زمانہ ہائے بعید میں بھی کسی فال گو نے اپنے دیوتا سے کبھی مشورہ نہ کیا ہوگا ۔
  • وہ بھوانی کی رضا جوئی کے لیے پرتکلف رسوم ادا کرتے اور ہر مہم سے پہلے دیوی کی پوجا کے علاوہ اس کے شگونوں کے منظر رہتے تھے ۔ ٹھگ گدھے ، گیڈر اور الو کی آواز کو مبارک اور اسے بھوانی کی رضامندی خیال کرتے تھے اور اس طرح بعض جانوروں اور شگونوں کو منحوس سمجھتے تھے ۔ کسی بھی شخص کو ٹھگ بنانے سے پہلے بھوانی کی رضامندی ضروری سمجھی جاتی تھی اور اس کے لیے اس کی پوجا اور کچھ رسوم ادا جاتی تھیں اور جب تک بھوانی کی طرف سے کوئی شگون نہیں ملتا تھا اسے گروہ میں شامل نہیں کیا جاتا تھا ۔ جب مبارک شگون مل جاتا تو اسے ٹھگوں کی برادری میں شامل کر لیا جاتا تھا ۔
  • جب ٹھگوں جب کسی شکار کو قتل کرنے کرنے سے پہلے مبارک شگون مل جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ بھوانی نے اپنی خوشنودی کا اظہار کر دیا ہے ۔ اب شکار کو قتل کرنا ان کا نہ صرف ایک مذہبی فرض بن گیا ہے بلکہ ایک خوشگوار فرض قرار پاجاتا تھا ۔ یہی وجہ ہے ٹھگوں کو اپنے شکار کو قتل کرنے کے بعد کبھی کسی قسم کی پشیمانی نہیں ہوتی تھی ۔ کرنل سلمین ایک ایسے مسلمان ٹھگ کو جسے معافی مل چکی تھی یہ سوال کیا کہ کیا تمھیں مقتول لوگوں کے ساتھ کبھی رحم یا ہمدردی محسوس کی ؟ اس ٹھگ نے جواب دیا کبھی نہیں ۔ کرنل سلیمین پھر پوچھا کہ تم جن لوگوں کے ساتھ سفر کرتے تھے وہ تمھارے ساتھ بیٹھتے بات چیت کرتے اور اپنے مسلے مسائل بیان کرتے تھے ، نیز اپنے اہل و عیال کا ذکر کرتے تھے جن سے وہ کئی سال کی جدائی ، تکلیفوں اور مصیبتوں کے بعد وہ ملنے جا رہے ہوتے تھے ۔ ان کے چھوٹے چھوٹے بچے ہوتے تھے تمھیں قتل کرتے وقت ان پر ترس یا رحم نہیں آیا ؟ اس نے جواب میں کہا کہ شگونوں کے ملنے کے ہم انھیں ایسا شکار سمجھتے ہیں جنہیں قتل کرنے کے لیے بھوانی نے ہ میں حکم دے دیا ہے اور ہماری حثیت محض آلے کی ہوجاتی ہے ۔ اگر ہم اسے قتل نہیں کریں گے تو بھوانی ہم سے ناراض ہوجائے گی ۔ ہم اور ہمارے خاندان مصیبت و مفلسی میں مبتلا ہوجائیں گے اور ہم پر بھوانی کا قہر ہم نازل ہوگا ۔
  • جی اینڈرسن کا کہنا ہے کہ ٹھگوں کے لیے ان کی وہ کدال جن کو وہ لاش کو دفنانے کے لیے کھدائی کے لیے استعمال کرتے تھے خاص اہمیت کی حامل اور مقدس ہوتی تھی ۔ لاش کو کسی اور دوسری کدال یا کھدائی کے دوسرے اوزار سے کھدائی اور دفنانا ممنوع تھا ۔ کیوں کہ ان کے خیال میں کدال ہی ان کے پیشے کی علامت تھی اور ان کا اعتقاد تھا کہ خود دیوی نے بطور میراث اسے چھوڑا ہے ۔ اس کدال کو خاص عقیدت اور رسومات کی ادائیگی کے بعد ڈھالی جاتی تھی اور پھر بعض رسوم کی ادائیگی بعد یہ متبرک ہو جاتی تھی ۔ لیکن ہ میں ایسی مثالیں ملتیں ہیں کہ بعض اوقات لاش کو کسی کھڈ ، نالے اور جانوروں کے کھانے کے لیے چھوڑ دی جاتی تھیں ۔

ٹھگی کے طریقے ترمیم

  • یہ ٹھگ مختلف قسم بھیس بدلنے میں ماہر ہوتے تھے اور مختلف روپوں میں یہ اپنا کام انجام دیتے تھے ۔ یہ ٹھگ اکثر مختلف میں مسافروں کے ساتھ سفر کرتے اور راستہ میں ان مسافروں کو فریب سے زہر کھلا کر یا گلے میں کپڑے کا پھندا ڈال قتل کر دیتے تھے اور ان کا مال و متاع لے کر فرار ہوجاتے تھے ۔ ان میں کچھ گروہ ایسے تھے جو بھکاریوں کو بھی قتل کرنے سے گریز نہیں کرتے تھے ۔ ان ٹھگوں میں بعض گروہ دولت کے نہیں قتل کرتے تھے بلکہ ان کا مقصد ان کے بچوں کو اغوا کرکے فروخت کے لیے قتل کرتے تھے ۔ یہ ٹھگ میگھ پونیا کہلاتے تھے ۔ جو ہندی میں میکھ پھندیاں ہے ۔ میکھ یعنی کیل اور پھندیاں پھندے کو کہتے ہیں اور یہ تسمہ باز کے مترادف ہے ۔ تسمہ باز مختلف شعبدہ بازی بھی کرتے تھے ۔ اس سے بھولے بھالے لوگ اور دیہاتی ان کے پھندے میں پھنس جاتے تھے ۔
  • تسمہ بازی کا طریقے فیتہ دہرا کر کے لپیٹ لیا جاتا تھا اور ماہرے یہ ہوتی تھی کہ لپٹے ہوئے فیتہ میں سلاخ اس طرح پڑوتے کہ اگر فیتہ کو کھولا جائے تو سلاخ بیچ میں آجائے اور سرا چھوڑے بغیر سلاخ نہ نکلے ۔ یہ تسمہ باز ٹھگ منگھ پونیا ٹھگوں کی طرح سے ہوتے تھے ۔ ان کے ٹھگنے کا طریقہ ایک ہی نہیں ہوتا تھا بلکہ کافی نئے نئے طریقوں سے لوگوں کو ٹھگانے لگاتے تھے ۔ جنرل ہروی نے منگھ پونیا کے ٹھگوں کے سات طریقہ ریکارڈ میں لکھے ہیں جو راجپوتانہ میں راءج تھے ۔ 1803ء میں کانپور کی برطانوی رجمنٹ میں ایک گریگ سپاہی نے تین اور سپاہیوں کو تسمہ بازی کا طریقہ سکھایا اور یہ شخص یورپین تسمہ بازوں کا سرغنہ بن گیا تھا ۔ یہ سپاہی چھٹی لے کر لوگوں کو لوٹا کرتے تھے اور چھٹی ختم ہونے پر واپس رجمنٹ میں آجاتے تھے ۔
  • یہ مجرمانہ پیشہ کسی خاص طبقہ یا مذہب کے لیے مخصوص نہیں تھا ۔ بلکہ ہزاروں افراد جو اس پیشہ سے منسلک تھے ان میں ہر مذہب ، فرقہ اور طبقہ کے لوگ شامل ہوتے تھے اور اس پیشہ میں برصغیر کے کونے کونے سے نئے لوگ بھی شامل ہوتے تھے ۔ 1877ء میں آگرہ کے کہاروں کے ایک گروہ نے ٹھگی کا پیشہ اختیار کر لیا ۔ اس گروہ میں عادی اور نئے دونوں طرح کے لوگ شامل تھے یہ لوگ کھانا پکانا چانتے تھے اور سڑکوں پر سوتے تھے ۔ جس وجہ سے انجام مسافر ان کے پنجے میں پھنس جاتا تھا ۔
  • یہ ٹھگ عام مسافروں کی طرح سڑکوں پر سفر کرتے تھے اور ان میں اور دوسرے مسافروں میں کوئی فرق نہیں ہوتا تھا ۔ یہ روپ بدلنے کے ماہر اور کئی طرح کے بھیس بدلتے تھے کہ ان پر کسی قسم کا کوئی شبہ نہیں ہوتا تھا ۔ یہ جب اپنی مہم کے لیے جب سفر کرتے تو علحیدہ علحیدہ بھی اور تین یا چار چار کی ٹولیوں میں بھی ہوتے تھے ۔ اس طرح یہ سب ایک ساتھ ٹولیاں بنا کر نہیں چلتے تھے ۔ ان میں شکار کی قبر کھودنے والے آگے ہوتے تھے ۔ اس طرح راہ میں ملنے والے فقیر یا مسافر بظاہر اجنبی ہوتے مگر ان ہی کے ساتھی ہوتے تھے جو آپس میں مختلف اطلاعات کا تبادلہ یا احکامات وغیرہ دیا کرتے تھے ۔ یہ گفتگو اور اشارے صرف ایک ہی ٹھگ سمجھ سکتا تھا ۔ یہ گفتگو کچھ اس طرح کی ہوتی تھی ، مثلاً قبر کھود لو یا قبر کھود چکی ہے ، خطرہ ہے اور لوگ آ رہے ہیں ۔ ان میں موٹی آسامی ہے ۔ اس طرح ان کا آپس میں گفتگو ہوتی رہتی تھی اور شکار کو اس کا پتہ ہی چلتا تھا ۔
  • یہ شہروں اور قصبوں میں آپس میں ملتے تو اجنبیوں کی طرح اور دوسرا کوئی انھیں شناخت نہیں کرسکتا تھا ۔ ایسا بھی ہوتا تھا کہ بظاہر کوئی ایک ذی رتبہ شخص کسی ریاست کی جانب سفر کر رہا ہوتا تھا اور اس کے ساتھ ملازمین اور محافظ ساتھ ہوتے ۔ دوسرے پیشہ ور جن گانے بجانے والے ، طواءفیوں یا اس کے خاندان کی عورتوں کی ڈولیاں ساتھ ہوتی تھیں ۔ انھیں دیکھ کر تنہا مسافر دھوکا کھا جاتے اور حفاظت کے خیال سے ان کے ساتھ ساتھ سفر کرتے اور اجل کا نشانہ بنش جاتے تھے ۔ اگرچہ یہ اپنی مہم میں خواتین کو شریک نہیں کرتے تھے اور اپنی بیویوں تک کو اس راز سے آشنا نہ کرتے کہ کسی کو بتا نہیں دیں ۔ اس لیے قافلوں میں شریک خواتین کے علم میں لائے بغیر ساری کارروائی کرتے تھے ۔

بھیس بدلنے کے ماہر ترمیم

  • یہ ٹھگ مختلف قسم بھیس بدلنے میں ماہر ہوتے تھے اور مختلف روپوں میں یہ اپنا کام انجام دیتے تھے ۔ یہ ٹھگ اکثر مختلف میں مسافروں کے ساتھ سفر کرتے اور راستہ میں ان مسافروں کو فریب سے زہر کھلا کر یا گلے میں کپڑے کا پھندا ڈال قتل کر دیتے تھے اور ان کا مال و متاع لے کر فرار ہوجاتے تھے ۔ ان میں کچھ گروہ ایسے تھے جو بھکاریوں کو بھی قتل کرنے سے گریز نہیں کرتے تھے ۔ ان ٹھگوں میں بعض گروہ دولت کے نہیں قتل کرتے تھے بلکہ ان کا مقصد ان کے بچوں کو اغوا کرکے فروخت کے لیے قتل کرتے تھے ۔ یہ ٹھگ میگھ پونیا کہلاتے تھے ۔ جو ہندی میں میکھ پھندیاں ہے ۔ میکھ یعنی کیل اور پھندیاں پھندے کو کہتے ہیں اور یہ تسمہ باز کے مترادف ہے ۔ تسمہ باز مختلف شعبدہ بازی بھی کرتے تھے ۔ اس سے بھولے بھالے لوگ اور دیہاتی ان کے پھندے میں پھنس جاتے تھے ۔
  • ٹھگ اپنی کارروائیاں چند افراد کی صورت میں سفر کرتے تھے ۔ دوسرے اس گروہ کہ ٹھگ ان کی پیچھے یا کچھ آگے ہوتے تھے یا کسی اور مقام پر انتظار کر رہے ہوتے تھے ۔ ان سب کا آپس میں مسلسل رابطہ ہوتا تھا ۔ یہ پیغام رسانی کے لیے راہ میں آتے جاتے بظاہر مسافر لیکن اصل میں ٹھگ ہوتے تھے کے ذریعے مختلف اشاروں یا اپنی مخصوص بولی میں جسے دوسرے مسافر سمجھ نہیں پاتے تھے بھیجواتے تھے ۔ ایسا بھی ہوتا تھا یہ کسی قافلعہ کی شکل میں جس میں کوئی امیر آدمی بڑی شان و شوکت اور سپاہیوں کے ساتھ سفر کر رہا ہوتا تھا ۔ جس کے ساتھ مختلف پیشوں اور سپاہی بھی ساتھ ہوتے ۔ نادان مسافر اپنے تحفظ کے لیے ان کے ساتھ سفر کرتے اور نتیجہ میں وہ پھنس جاتے تھے ۔ ان میں سے بہت سے گرفتار بھی کرلیے جاتے تھے ۔ مگر زیادہ تر انفرادی مجرم کی حثیت سے ۔ جس کی وجہ سے ان کے گروہوں کو کوئی نقصان نہیں ہوتا تھا اور نہ ہی انھیں لمبی سزائیں ملتی تھیں ۔ کیوں کہ انھیں گرفتار کرنے والے اکثر جاگیردار ہوتے تھے ۔ جو ان کے پیشے کو جانتے تھے وہ ان سے دولت کے حصول کے لیے انھیں گرفتار کرتے ۔ اس وہ مال دے کر چھوٹ جایا کرتے تھے ۔ یہ اپنی مہموں کم از دو افراد کے ساتھ اور اس سے بڑی کی قید نہیں ہوتی تھی شریک ہوتے تھے ۔ ہاتھ آئے ہوئے مال میں ہر ٹھگ کو اس کے کام کے مطابق حصہ ملتا تھا ۔ قتل کرنے والا یا پھندا ڈالنے والا زیادہ حصہ کا حقدار ہوتا تھا ۔

زہر دینے والے ترمیم

  • زہر دینے والوں کی دو یا تین افراد آٹھ دس مسافروں کو بڑی مہارت سے ہلاک کریا کرتے تھے ۔ ان کا طریقہ کار یہ ہوتا تھا کہ وہ سفر پر روانہ ہوتے تھے ۔ راہ میں دوسرے مسافروں کی ٹولی مل جاتی تھی اور یہ ان کے ساتھ سفر کرتے تھے ۔ چند دنوں کے سفر کے بعد یہ ان سے تعلقات بڑھاتے اور اپنی باتوں سے ان کو رجھاتے ۔ ان سے اپنے مسلے مسائل بیان کرتے اور ان سے مشورہ کرتے ۔ اس طرح کے مسلے مسائل سنتے اور ان کو بھی مخلصانہ مشورے دیتے ۔ ان اپنی کسی شادی میں مدعو کرتے ۔ یہاں تک وہ ان پر اعتماد کرنے لگتا تھا ۔ پھر وہ کھانا یا کسی مٹھائی میں زہر ملا کر انھیں دعوت دیتے تھے ۔ دوسرے مسافر ان کا خلوص دیکھ کر انکار نہیں کرتے تھے اور وہ مٹھائی یا کھانا کھالیتے اور موت کی نیند سوجاتے تھے ۔ اکثر زہر دینے کا کام اس گروہ کی بوڑھی عورتیں یا مرد انجام دیتے تھے ۔ یہ زہر دھتورے کے بیجوں کا نہایت مہلک زہر ہوتا تھا ۔

ایک ٹھگ کی کہانی ترمیم

  • کرنل سلمین کو ایک ایسے ٹھگ جسے معافی مل چکی تھی بتایا کہ میں جے پوری سپاہی کے قتل کے بعد تقریباً چالیس یوم تک گھر پر رہا اور ٹھگوں کی ایک ٹولی کے ساتھ روانہ ہوا ۔ ہم نے موسم برسات میں کونڈو سے شکار کی تلاش میں سفر شروع کیا اور دو ٹھگ آدھار اور مکدی نے جن میں مکدی جو نہایت ہوشیار تھا ایک شخص کا اعتماد حاصل کر لیا ۔ یہ مسافر لاہور کا ایک راجپوت تھا اور اپنے وطن واپس جارہا تھا ۔ اسے مکدی نے ایک بنیے کے مکان میں ٹہرایا اور رات وقت جب سو رہا تھا اسے جگایا اور اسی وقت سفر کے لیے روانہ ہونے کو کہا تو وہ راضی ہو گیا ۔ وہ روانہ ہو گئے مگر راستہ میں وہ ;200;دھار اور مکدی سے بدک گیا اور ان سے کہا تم لوگ ٹھگ لگتے ہو میرے قریب نہیں آؤ ۔ میں نے مخصوص ٹھگی زبان میں کہا الگ چلے جاؤ اسے تم پر شبہ ہو گیا ہے ۔ دونوں ہمارے ;200;گے روانہ ہو گئے ۔ مسافر نے مجھ سے اپنا شبہ بیان کیا اور کہا کہ ہم دونوں کو ساتھ چلنا چاہیے ۔ میں نے اس سے اتفاق کیا اور دونوں ساتھ چلنے لگے اور وہ جب کہ چل رہا تھا کہ میں نے بڑبڑاتے ہوئے مکدی کو اپنی مخصوص زبان میں سامنے درخت کے قریب آنے کے لیے کہا جو مجھ سے کچھ آگے چھپ کر چل رہا تھا ۔ جب وہاں پہنچ کر میں جھکا کہ میرے پیر میں کچھ چپھ گیا ہو اور اور اس کے پیچھے سے گلے میں رومال ڈال کر اس کا گلا گھونٹ دیا ۔ جیسے ہی میں نے اس کے گلے میں رومال ڈالا مکدمی نے اس کی ٹانگیں پکڑ کر کھنچ لیں اور وہ مزاحمت بھی نہیں کرسکا ۔ ہم نے نعش ایک ایسے مقام پر پھنک دی جہاں پانی نہیں تھا تاکہ اسے گیڈر کھاجائیں ۔
  • اس بعد ہم دو ٹولیوں میں بٹ گئے ، مدار اور میں ایک طرف نئے شکار کی تلاش میں روانہ ہو گئے ۔ ہم نے اسی روز ایک اور گھسیارا ملا جو ٹٹو پر سوار تھا ہم اس کے ساتھ روانہ ہو گئے ۔ ٹٹو پر اس کا شکار نہیں کیا جا سکتا تھا اس لیے اسے ٹٹو پر سے اتارنے کے لیے مدار نے بہانہ کیا کہ اسے قے آرہی ہے اور پیٹ پکڑ کر قے کرنے کی کوشش کرنے لگا ۔ میں نے گھسیارے کو کچھ دیر ٹہرنے کو کہا کہ اس کی طبعیت بہتر ہوجائے ۔ وہ راضی ہو گیا اور ٹٹو سے اتر کر ایک جگہ بیٹھ گیا ۔ میں اس کی پشت پر گیا اور رومال گلے میں دال کر جھٹکا دیا اور مدارا نے اس کے پیر کھنچے ، وہ مزاحمت نہیں کرسکا اور دم توڑ دیا ۔ پھر ہم نے اس کی لاش ایک کنوئیں میں پھنک دی ۔ جہاں پہلے بھی میں پندرہ یا سولہ مسافروں کو پھنک چکا تھا اور اس کنوئیں سے ان کی ہڈیاں نکالی جا سکتی ہیں ۔ اس کے بعد ہم گھر واپس لوٹ گئے ۔ کیوں کہ ہ میں تقریباً ایک ماہ سفر میں ہو چکے تھے ۔ ان دو وارداتوں میں مجھے پچاس روپیے ملے ۔ کیوں کہ جو شخص جو گلا گھونتا ہے اسے ہمشہ سب سے زیادہ حصہ ملتا ہے ۔

ارکاٹی ٹھگ ترمیم

  • کرپا و چتور اور شمالی اوڑیسہ اور جنوبی ہند میں ٹھگوں کی ایک جماعت تھی جو ارکاٹی ٹھگ کہلاتے تھے ۔ ان کے چار مشہور سردار شیخ احمد ، ایمن صاحب ، ہورنور صاحب اور حیدر خان تھے اور ان کی سرکردگی میں ضلع ملی پٹم کے موضعوں میں حیدرآباد کے سرحدی مقام مونگل سے ایلور کی شمالی جانب ایک منزل کی مسافت کے موضع تک اپنی سرگرمیاں جاری رکھی ہوئی تھے ۔ ان ٹھگوں میں سے اکثر لوگ جفاکش کاشتکار ہونے کی وجہ سے نیک نام تھے ۔ تیرہ سال کی مدت کے دوراب ان گروہوں نے اپنے موضعوں کے اطراف تین سو میل کے اندر ملک کی تمام بڑی بڑی شاہراؤں پر قتل و غارت کے کام کو جاری رکھا اور اس قتل و غارت سے انھوں نے کثیر رق میں حاصل کیں ۔ ان کی کچھ وارداتوں کا علم ہوا ۔ جس کی تفصیل کچھ یوں ہے ۔
  • ٍضلع باندہ میں مقیم ہونے کے بعد ان کا سب سے پہلا مال غنیمت چودہ ہزار روپیوں کی ایک رقم تھی جو کے پانچ اشخاص کو قتل کرکے حاصل کی گئی تھی اور یہ مال بندر کے ایک تاجر کا تھا جو اسے حیدرآباد روانہ کر رہا تھا ۔ اس واقع کے بعد تقریباً چودہ سال بعد انھوں نے ایک واردات میں چار افراد کو قتل کرکے چھ ہزار روپیوں کی ایک رقم حاصل کی جو کرپا کے ایک تاجر کی تھی ۔ پھر اسی مقام کے قریب ایک سال بعد ان کی مٹ بھیڑ پانچ خزانہ برداروں سے ہوئی ، جن کو قتل کے بعد انھیں آٹھ ہزار کی ایک رقم اور ملی ۔ اس کے دس سال بعد انھوں نے ایک مغل گھوڑوں کے سوداگر کو جس ہمراہ چار افراد تھے اچانک آ گھیرا اور سب کو قتل کرنے پر تین ہزار مالیت کا مال غنیمت حاصل کیا ۔ یہ ان کچھ وارداتیں ان کی وارداتوں کا معمولی حصہ ہیں جن کا ان ٹھگوں کے اس گروہ نے ارتکاب کیا تھا ۔ قتل کی کچھ ہی وارداتوں کا علم احکام کو ہو سکا تھا ۔ ان بیان کے مطابق یہ اپنی گرفتاری پہلے ساٹھ واداتیں کرچکے تھے ۔ ان وارداتوں میں ایک سو ستر افراد ان کے شکار بنے اور پچاس ہزار کی مالیت کا مال ان کے ہاتھ آیا تھا ۔ ٹھگوں کا یہ گرہو اپنی کارروائیاں جاری رکھتا اگر ایک وعدہ معاف ٹھگ ان کی اطلاع نہیں دیتا ۔ کچھ عرصہ بعد ان کی تمام آبادی جو ساٹھ افراد پر مشتمل تھی گرفتار کر لیا گیا ۔
  • اس گروہ کی گرفتاری کے بعد ضلع دیزیگاپٹم میں مسلمان ٹھگوں کی ایک بستی کا علم ہوا ۔ ان مسلمان ٹھگوں سے ضلع باندرہ کے ٹھگ راہ میں دو تین مرتبہ ملے تھے ۔ اس طرح انھیں صرف ان مسلمان ٹھگوں کا علم ہوا تھا ۔ مگر یہ بستی کب سے قائم ہے انھیں اس بارے نہیں معلوم تھا ۔ جب اس بستی کے ٹھگوں کو حراست میں لیا گیا تو تو معلوم ہوا تقریباً بیس سال پہلے ان کی تعداد ساٹھ اور ستر کے درمیان تھی ۔ لیکن اب ان کی تعداد گھٹ کر بارہ رہ گئی تھی ۔ کیوں کہ اس گروہ کے اکثر جوان سپاہی بھرتی ہو کر مختلف پلٹنوں میں تعینات تھے ۔ جب ان سپاہیوں کے چال چلن کے بارے میں معلوم کیا گیا تو ان کے بہتر چال چلن کی پلٹنوں نے تصدیق کی ۔ پہلے ذکر ہو چکا ہے ایک ٹھگ جو سپاہی تھا اور ٹھگی کی وارداتیں بھی کرتا تھا اس کا تعلق اسی برادری سے تھا ۔
  • گروہ کے ایک ضعیف ٹھگ نے بتایا کہ ان کے اجداد اور کئی افراد کے ساتھ ہندوستان ( شمالی ہندوستان ) سے آئے تھے اور وہ ابتدا میں تین سرداروں کے تحت تھے ۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ اجنبیوں کو اپنے گروہ میں شامل نہیں کرتے ہیں ۔ اس گروہ کے ٹھگوں کو لوٹ کھسوٹ کا مال کبھی بڑے پیمانے پر نہیں ملا ۔ اگرچہ یہ نہایت سنگ دل قاتل تھے ، جو ضعیف یا عمر کا خیال کرتے اور نہ ہی ان فرقوں یا ان لوگوں کا احترام کرتے تھے جن کا قتل کرنا دوسرے ٹھگوں کے نذدیک ایک سنگین جرم ہے ۔ وہ نہ ہی شگونوں اور کدال کو نہیں ماتے تھے ۔ ٹھگوں کے اس گروہ کو ارکاٹی ٹھگ اچھا نہیں خیال کرتے تھے وہ انھیں منحوس سمجھتے تھے ۔ ان ٹھگوں نے بڑی تعداد میں قتل کیے ۔ 1825ء سے 1835ء کے درمیان اپنی گرفتاری تک انھوں نے ٹھگی کی چالس واردتیں کیں اور اسی افراد کو قتل کیا ۔

انسداد ترمیم

  • 1829ء تک یہ جرائم مسلسل جاری تھے مگر ان کے انسداد کی طرف کسی نے سنجیدہ توجہ نہیں دی گئی ۔ کرنل سلیمن نربدا ساگر کے علاقہ میں مامور ہوئے ۔ ان کے علم یہ بات آئی کہ 1807ء میں جبل پور کی سڑک پر 17 خزانہ بردار اور 1814ء میں ضلع دموہ سے میل کے فاصلے پر ہٹہ کو جانے والی سڑک پر سنجا گاؤں سے آدھ میل کے فاصلے پر سات آدمی قتل ہوئے تھے ۔ اس طرح کی اور وارداتیں ان کے علم آئیں ۔ چنانچہ انھوں نے اس کے متعلق ایسٹ انڈیا کمپنی کو ان جرائم کی تفصیلی رپوٹ بھیجی ۔ جس کے بعد 1829ء میں ایف سی سمتھ کو نربدا ساگر کے علاقہ میں خصوصی طور پر بھیجا گیا اور اس کے اسٹنٹ کے طور پر کرنل سلیمن کا تقرر ہوا اور بعد میں 1835ء میں سپرنٹنڈٹ محکمہ انسداد ٹھگی اور 1838ء میں کمشنر ٹھگی اور ڈاکہ کے عہدے پر فائز ہوئے ۔
  • ٹھگوں سے چھٹکارا پانا مقامی حاکموں اور جاگیرداروں سے حل ہونا ممکن نہیں تھا کیوں کہ وہ لالچ میں ان سے چشم پوشی کرتے تھے اور جب ٹھگوں کو پتہ چلتا کہ ان کے خلاف اقدامات کیے جا رہے ہیں تو یہ خبر پاتے ہی وہاں سے فرار ہوکر ہیں ملک کے کسی دوسرے حصے میں متقل ہوجاتے تھے ۔ دوسرا مسلہ یہ تھا ایسی شہادتیں اور گواہیاں فراہم کرنا جن کی بنا عدالت سزا دے ایک بہت دشوار کام تھا ۔ لہذا لارڈ ولیم بنٹنک نے اس کے لیے بعض ضروری قانونی اصلاحاتیں کیں اور ان کے انسداد کے لیے ایک خصوصی محکمہ کرنل سلیمن زیر نگرانی قائم کیا ۔ اسے کمپنی کی مملکت میں خاص اختیارت دیے گئے اور ایک قانون نافذ کیا گیا جس کے تحت انھیں سرسری تحقیقات کے بعد سزا اور معافی کا بھی اختیار بھی حاصل ہو گیا ۔ ان اختیارات کے ملنے کے بعد کرنل سلیمن اور اس ساتھیوں نے اپنا کام شروع کیا اور محنت اور جانفشانی کے ساتھ ٹھگی کے فن اور ان کی زبان کے بارے میں اتنی معلومات حاصل کر لیں کہ جتنی خود ٹھگوں کو تھیں ۔ ان ٹھگوں تک رسائی حاصل کرکے کچھ ٹھگوں کو گرفتار کیا ۔ گرفتار شدہ ٹھگوں میں سے جن کے سدھر جانے کے آثار تھے انھیں معافی اور ملازمت بھی دی گئی اور معافی یافتہ ٹھگوں کی مدد سے مختلف گروہوں کو تلاش کیا گیا اور انھیں 1823ء سے 1836ء تک یعنی تیرہ سال کی مدت کے دوران ٹھگی کا مکمل خاتمہ کر دیا گیا ۔ سرجان کیٹی نے اپنی رپوٹ میں لکھا ہے کہ یہ ایک عظیم انشان اور باقعت کارنامہ ہے کہ چند انگریز عہدہ داروں نے اعلی انتظامی حکام کے احکام پر عمل کرکے ٹھگی کا پیشہ ہندوستان سے ہمیشہ کے لیے پاک کر دیا ۔

سزائیں ترمیم

  • یہ دور ٹھگوں کے مجرموں کی تحقیقات کا کہلاتا ہے ۔ جس میں ٹھگوں کے مختلف گرہوں کے رکنوں اور ان کے عزیز و اقارب اور دوستوں کے بارے تحقیقات کیں گیں ۔ ان کے حالات معلوم کرکے ان کا پوری طرح قلع قمع کرنے کی کوشش کی گئیں ۔ اس قبیح جرم کے خاتمہ کے لیے خاص قوانین جن میں 1837ء کا ایکٹ 18 ، 19 ۔ 1838ء کا ایکٹ 10 ۔ 1839ء کا ایکٹ 18 ۔ 1842ء کا ایکٹ 14 ۔ 1843ء کا ایکٹ 18 ، 24 ۔ 1847ء کا ایکٹ 10 اور 1848ء کا ایکٹ 3 اور 11 کا نفاذ کیا گیا ۔ حیدرآباد ، میسور ، اندور ، لکھنؤ اور گوالیار میں میں ان مقدمات کے لیے خاص عدالتیں قائم کی گئیں ۔ جہاں ہر قسم شہادت جس میں دستاویزی زبانی اور دوسرے شہادتیں پیش کرنے اجازت تھی ۔ چاہے اس کی حثیت کچھ بھی ہو ۔

ان عدالتوں کے مجسٹریٹ اور کیس کی پیروی کرنے والے نہایت ذہین اور محنتی انگریز تھے اور وہ یہ کام اعزازی طور پر کرتے تھے ۔ چنانچہ ان کی محنت اور کوششوں کا یہ نتیجہ نکلا کہ 1826ء تا 185ء کے دوران ٹھگی کے جرم میں 1562 ملزموں پر مقدمات چلائے گئے ۔ ان میں سے 1404 افراد کو پھانسی یا عمر قید کی سزا دی گئی ۔ کچھ ٹھگوں نے اعتراف کیا کہ انھوں نے دوسو سے زیادہ قتل کیے ۔ ایک ٹھگ نے بتایا اس نے 1719 افراد کو قتل کیا ۔ جو ٹھگ وعدہ معاف گواہ بنے ان کی جان بخشی کئی گئی اور انھیں جبلپور کی اسپیشل جیل میں مع ان کے خاندانوں کے نظر بند کیا گیا ۔ انھیں دری ، قالین اور دوسرے کاموں کی مشقت میں لگایا گیا ۔ ان کی مشقت کے لیے ایک کارخانہ کرنل سلیمن اور کیپٹن چارلیس براوَن کی کوششوں سے 1838ء میں قائم کیا گیا ۔ یہاں تک برصغیر سے اس جرم کا مکمل صدبات ہو گیا اور 1904 میں محکمہ انسداد ٹھگی کو ٹور دیا گیا ۔

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  • تاریخ جرم و سزا ۔ امداد صابری
  • برطانوی عہد حکومت ۔ مولوی ذکاء اللہ
  • تاریخ جرم و سزا ۔ امداد صابری
  • برطانوی حکومت ہند ۔ انڈیسن
  • ہند کے سیاسی مسلک کی نشو و نما ۔ جے انڈریسن ، جے صوبہ دار