چوگڑھ کی آدم خور شیرنیاں

چوگڑھ کی آدم خور شیرنیاں

چوگڑھ کی آدم خور شیرنیاں بنگال ٹائیگر کی نسل سے تعلق رکھتی تھیں۔ دونوں ماں بیٹی تھیں اور انھوں نے مشرقی کماؤں کے پندرہ سو مربع میل کے علاقے میں 64 افراد کو ہلاک کر کے کھایا تھا۔ تاہم یہ اعداد و شمار قابل بھروسا نہیں کیونکہ علاقے کے افراد اس سے دو گنی تعداد مانتے ہیں۔ ان میں وہ افراد بھی شامل ہیں جو ان شیرنیوں کے حملے سے تو بچ گئے تھے لیکن بعد ازاں زخموں کی تاب نہ لا کر مر گئے تھے۔ دونوں شیرنیوں کو مشہور شکار جم کاربٹ نے ہلاک کیا تھا۔

15 دسمبر 1925 کو ڈلکانیہ گاؤں کے چند افراد جب پہاڑی پر چڑھ کر ایک بھوٹیا کے پاس گئے کیونکہ اس کی بکریاں نزدیک موجود فصلوں میں گھس گئی تھیں۔ اس شخص کا رکھوالی والا کتا مرا ہوا تھا اور اس شخص کی باقیات جھونپڑی سے سو گز دور ملیں۔

جم کاربٹ ترمیم

جم کاربٹ کو فروری 1929 میں نینی تال سے بلایا گیا تھا۔ اس وقت کماؤں کے ڈویژن میں تین آدم خور شیر سرگرم تھے۔ جم کاربٹ نے چوگڑھ کی شیرنیوں کے شکار کو ترجیح دی کیونکہ یہ شیرنیاں زیادہ تباہی پھیلا رہی تھیں۔ ان ہلاکتوں کے نقشے سے اندازہ ہوتا تھا کہ یہ شیرنیاں کالا اگر نامی پہاڑ کے شمالی سرے والے کنارے کے گاؤں میں زیادہ متحرک تھیں۔ جم کاربٹ یہاں چار دن کے پیدل سفر کر کے پہنچے۔ اس علاقے میں شیرنیوں نے آخری بار ایک بائیس سالہ چرواہے کو ہلاک کیا تھا۔ اس نوجوان کی بوڑھی دادی نے جم کاربٹ کو اپنے تینوں بھینسے پیش کیے تاکہ انھیں بطور چارہ شیرنیوں کی ہلاکت کے لیے استعمال کیا جا سکے۔ اس وقت جم کاربٹ کے پاس اپنے چار نوعمر بھینسے موجود تھے۔ پہنچنے پر جم کاربٹ کو بتایا گیا کہ دس میل دور ڈلکانیہ نامی گاؤں شیرنیوں کی موجودگی کی اطلاع ملی ہے۔ وہاں شیرنیوں نے حملے کی ناکام کوشش کی تھی۔ جم کاربٹ اگلے دن وہاں پہنچے تو پورا گاؤں دہشت زدہ تھا۔

شیرنیوں کا شکار ترمیم

دوپہر کو جم کاربٹ ڈلکانیہ سے اس جگہ روانہ ہوئے جہاں شیرنیوں کی آوازیں گاؤں والوں نے سنی تھیں۔ شام تک انھوں نے وادی کو نیچے سے اوپر تک چھان مارا لیکن شیرنیوں کی کوئی خبر نہ ملی۔ یہاں ان کی ملاقات ایک چرواہے سے ہوئی جس کی ایک گائے گذشتہ رات شیرنیوں نے مار کھائی تھی۔ یہاں نشانات کا پیچھا کرتے ہوئے جم کاربٹ مردہ گائے اور اسے کھاتی ہوئی دو شیرنیوں تک جا پہنچے۔ دونوں جانوروں کی جسامت ایک جیسی تھی اور جم کاربٹ نے اندازے سے اس جانور کو پہلے ہلاک کرنے کا فیصلہ کیا جس کا رنگ کچھ ہلکا تھا۔ گولی چلتے ہی دوسری شیرنی فرار ہو گئی۔ گولی کھانے والی شیرنی وہیں مر گئی تھی اور اس کا معائینہ کرنے پر پتہ چلا کہ یہ شیرنی ماں نہیں بلکہ بیٹی تھی۔

شیرنی کو مارنے کی پہلی کوشش ترمیم

اگلے دن جم کاربٹ نے چاروں بھینسوں کو بطور چارہ باندھنے کا فیصلہ کیا۔ دس دن تک یہ جانور صحیح سلامت رہے۔ گیارہویں دن گاؤں کی دوسری جانب آدھے میل دور ایک عورت پر شیرنی نے حملہ کیا۔ اس کے زخموں کی مرہم پٹی کرنے کے بعد کاربٹ نے اس جگہ کے پاس ایک بکری باندھی۔ تاہم شیرنی نہ لوٹی۔ تین دن بعد جم کاربٹ کو بتایا گیا کہ لوہالی کے مقام پر ایک عورت ماری گئی ہے جو ڈلکانیہ سے پانچ میل جنوب میں واقع تھا۔

یہاں پہنچنے پر جم کاربٹ کو اس عورت کا باپ ملا جس نے بتایا کہ اس کی بیٹی مری نہیں بلکہ بری طرح زخمی ہے۔ جم کاربٹ نے پوٹاشیم پر میگنیٹ سے عورت کے زخم صاف کیے۔ اسی رات وہ عورت زخموں کی تاب نہ لا کر مر گئی۔ اس کے ایک ہفتے بعد جم کاربٹ ڈلکانیہ سے واپس چلے گئے اور وعدہ کیا کہ جونہی شیرنی نے دوبارہ کوئی حملہ کیا تو وہ واپس لوٹ آئیں گے۔ راستے میں انھیں شیرنی کے تازہ پگ دکھائی دیے۔ انھوں نے وہاں ایک چرواہے کو بھی شیرنی کی تازہ موجودگی کے بارے بتایا۔ ان کے روانہ ہونے کے فوراً بعد ہی شیرنی نے حملہ کر کے اس چرواہے کو شدید زخمی کر دیا۔ تاہم اس چرواہے کی بھینسوں نے شیرنی کو بھگا دیا۔ مرنے سے قبل اس چرواہے نے گاؤں والوں کو شیرنی کی موجودگی سے خبردار کر دیا۔

شیرنی کے شکار کی دوسری کوشش ترمیم

اگلے سال فروری میں جم کاربٹ ڈلکانیہ واپس آئے۔ اس دوران بہت سارے افراد مارے جا چکے تھے۔ جم کاربٹ نے گاؤں کے پاس ایک بھینسا بطور چارہ باندھا۔ یہاں انھوں نے شیروں کا ایک جوڑا مارا۔ تاہم دونوں ہی آدم خور نہیں تھے۔ ڈلکانیہ میں چند ہفتے ٹھہر کر جم کاربٹ ترائی میں ایک اہم سرکاری میٹنگ کو چلے گئے۔

شیرنی کے شکار کی تیسری کوشش ترمیم

22 مارچ 1930 کو جم کاربٹ کو کالا اگر کے ڈپٹی کمشنر کا پیغام ملا۔ یہ جگہ نینی تال سے پچاس میل دور ہے۔ یہاں پہنچتے ہی انھیں بتایا گیا کہ شیرنی نے حال ہی میں یہاں ایک عورت ماری ہے۔ جم کاربٹ نے اہم جگہوں پر اپنے چار بھینسے باندھے۔ ایک بھینسا چوتھی رات مارا گیا۔ تاہم بھینسے کو تیندوؤں کے ایک جوڑے نے ہلاک کیا تھا۔ اپنے دیگر بھینسوں کو بچانے کے لیے جم کاربٹ نے دونوں تیندوؤں کو ہلاک کر دیا۔

شیرنی کی ہلاکت اور بعد از مرگ معائینہ ترمیم

11 اپریل 1930 کو کالا اگر پہنچنے کے انیس دن بعد جم کاربٹ نے شیرنی کو ہلاک کر دیا۔ شیرنی کی ہلاکت کے ساتھ ہی انسانی ہلاکتوں کا سلسلہ رک گیا۔

شیرنی کی لاش کے معائینے سے پتہ چلا کہ شیرنی کے پنجے اور ایک بڑا دانت ٹوٹ چکے تھے اور اگلے چھوٹے دانت مکمل طور پر گھس گئے تھے۔

حوالہ جات ترمیم