انتخابات 1946ء کے فوراً بعد حکومت برطانیہ نے ہندوستان کی گتھی سلجھانے اور انتقال اقتدار کے لیے راہ ہموار کرنے کی غرض سے تین وزرا پر مشتمل ایک مشن ہندوستان بھیجا۔ یہ مشن کیبنٹ مشن یا وزارتی مشن کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس مشن میں مندرجہ ذیل تین وزرا شامل تھے۔

لارڈ پیتھک لارنس

سر سٹیفورڈ کرپس

اے ۔ وی ۔ الیگزینڈر

وائسرے ہند لارڈ ویول کیبنٹ مشن کو The three Magi (تین میگی) کے نام سے پکارتے تھے۔ مشن کا اصل مقصد ہندوستان میں ایک عارضی حکومت کا قیام اورکانگرس اور مسلم لیگ کے درمیان موجود آئینی بحران کو ختم کراکے انتقال اقتدار کے لیے راہ ہموار کرنا تھا۔

مشن کو ہندوستان پہنچتے ہی وائسرائے ہند، صوبائی گورنروں، ایگزیکٹیو کونسل کے اراکین اور کانگرس اور مسلم لیگ کے لیڈروں کے ساتھ اپنی بات چیت کا سلسلہ شروع کیا۔ لیکن ان ملاقاتوں کا کوئی خاص نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ اس لیے مشن نے شملہ کے مقام پر اہم سیاسی راہنماؤں کی ایک مشترکہ کانفرنس بلانے کا فیصلہ کیا۔ یہ کانفرنس 5 مئی 1946ء سے 12 مئی 1946ء تک شملہ میں منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس میں آل انڈیا مسلم لیگ کی طرف سے قائد اعظم محمد علی جناح، لیاقت علی خان، نواب محمد اسماعیل خان اور سردار عبدالرب نشتر نے شرکت کی جبکہ کانگرس کی نمائندگیابوالکلام آزاد، پنڈت جواہر لال نہرو، ولہ بائی پٹیل اور خان عبدالغفار خان نے کی۔

دونوں سیاسی پارٹیوں کے مؤقف میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ مسلم لیگ ہندوستان کی تقسیم چاہتی تھی جبکہکانگرس ہندوستان کی سالمیت پر آنچ آنے کے لیے کسی بھی قیمت پر راضی نہ تھی۔ کانفرنس کے اختتام پر ’’تین میگی‘‘ ان حالات سے دوچار تھے کہ وہ نہ تو مسلم لیگ کے مطالبے کو جائز قرار دے سکتے تھے اور نہ ہی کانگرس کی خواہش کو جائز کہہ سکتے تھے۔ اس لیے اس مشن نے 16 مئی 1946ء کو اپنی طرف سے ایک منصوبہ پیش کیا اس منصوبے کو ’’کیبنٹ مشن پلان‘‘ کہتے ہیں۔ اس منصوبے کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں دونوں سیاسی پارٹیوں کے نقطہ نظر کو ایک خاص تناسب کے ساتھ شامل کیا گیا تھا۔ اس منصوبے کے دو حصے تھے۔ ایک قلیل المعیاد منصوبہ جس کے تحت ایک عبوری حکومت کا قیام عمل میں لانا تھا، دوسرا طویل المعیاد منصوبہ جس کے تحت کم از کم دس سال کے لیے ہندوستان کو تقسیم سے روکنا تھا۔

اہم نکات ترمیم

برطانوی ہند کے صوبوں پر مشتمل ایک کل ہند یونین (مرکزی حکومت) کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ اس یونین کے پاس خارجہ امور، دفاع اور مواصلات کے شعبے ہوں گے

برطانوی ہند اور ریاستوں کے نمائندوں کے باہمی اشتراک سے مرکزی حکومت اپنی انتظامیہ اور مقننہ تشکیل دے گی۔ مقننہ میں زیر غور ہر ایسا معاملہ جس سے کوئی بڑا فرقہ ورانہ مسئلہ پیدا ہونے کا امکان ہو، کو فیصلہ کرنے کے لیے ہر دو بڑی قومیتوں کے نمائندوں کی اکثریت اور پارلیمنٹ میں موجود اراکین کی اکثریت ضروری قرار دی گئی۔

4۔ پلان ہذا کے مطابق برطانوی ہند کے تمام گیارہ صوبوں کو مندرجہ ذیل تین گروپوں میں تقسیم کیا گیا۔ گروپ الف میں ہندو اکثریت صوبے اُڑیسہ، بہار، بمبئی، سی پی، مدراس اور یو۔ پی۔ گروپ ب میں شمال مغرب میں مسلم اکثریت کے صوبے پنجاب، صوبہ سرحد اورسندھ جبکہ گروپ ج میں شمال مشرق میں مسلم آبادی کے صوبے بنگال اور آسام شامل کیے گئے۔

5۔ خارجہ امور، دفاع اور مواصلات کے شعبوں کے علاوہ دیگر تمام شعبے صوبوں اور ریاستوں کو دینے کی سفارش کی گئی۔

6۔ کل ہند یونین کے آئین اور ہر گروپ کے آئین میں ایک شق ایسی ہوگی جس کے تحت کوئی بھی صوبہ اگر چاہے تو ہر دس سال کے بعد اپنی قانون ساز اسمبلی کی اکثریت کی خواہش پر آئین کی نکات یا شقوں پر ازسرنو غور کرنے کا مجاز ہوگا۔ شق ہذا کے مطابق تمام صوبوں کو یہ اختیار دیا گیا کہ دس سال گذرنے کے بعد وہ انفرادی طور پر یا گروپ کی صورت میں اگر چاہیں، توکل ہندوستان یونین سے علیحدگی اختیار کرسکتے ہیں۔

7۔ صوبائی اسمبلیوں میں صوبوں کو آبادی کے تناسب سے نشستیں الاٹ کرنے کے لیے کہا گیا۔ ہر دس لاکھ افراد کے لیے ایک نشست مخصوص کی گئی۔ برطانوی ہند کے گیارہ صوبوں کو کل دو سو نوے نشستوں میں تقسیم کیا گیا جن میں اٹھہتر مسلمانوں کے لیے مقرر کی گئیں اسی طرح ریاستوں کو زیادہ سے زیادہ تریانو 93 نشستیں دی گئیں

منصوبے کو قابل عمل بنانے کے لیے کیبنٹ مشن نے یہ بھی شرط عائد کر دی کہ جو بھی سیاسی پارٹی اس پلان کو مسترد کرے گی اسے عبوری حکومت میں شامل ہونے کی دعوت نہیں دی جائے گی۔

مسلم لیگ اور کانگریس کاردعمل ترمیم

ابتدا میں کیبنٹ مشن پلان پر کانگرس اور مسلم لیگ کا رد عمل مختلف رہا۔ 6 جون 1946ء کو مسلم لیگ نے کیبنٹ مشن پلان کو منظور کر لیا، کیونکہ اس میں ہندوستان کی تقسیم اور قیام پاکستان کے آثار موجود تھے۔ دوسری طرف کانگرس نے پس و پیش سے کام لیتے ہوئے بالآخر 25 جون 1946ء کو کیبنٹ مشن پلان کے ایک حصے کو مشروط طور پر منظور کر لیا اور دوسرے کو نامنظور کر لیا۔ جو طویل المعیاد منصوبہ تھا جس کے تحت صوبوں کو گروپوں میں تقسیم اور آل انڈیا یونین کا قیام عمل میں لانا تھا کو قبول کر لیا گیا۔ جو قلیل المعیاد منصوبہ تھا۔ جس کے تحت ایک عارضی حکومت کا قیام عمل میں لانا تھا، کو مسترد کر دیا گیا۔

اس صورت حال میں انگریز سرکار کی ذمہ داری بنتی تھی کہ وہ آل انڈیا مسلم لیگ کو عبوری حکومت بنانے کی پیشکش کرتے، کیونکہ مسلم لیگنے کابینہ مشن پلان کو مکمل طور پر قبول کر لیا تھا، لیکن افسوس کہ انگریز سرکار ایسا نہ کر سکی انگریز کی اس بدعہدی کے نتیجے میں مسلم لیگ نے احتجاجاً 29 جولائی 1946ء کو نہ صرف اپنی قبولیت (کابینہ مشن پلان کی قبولیت) واپس لی بلکہ راست اقدام لینے کا بھی فیصلہ کیا اور پورے ہندوستان کی سطح پر ہڑتال کرانے کے لیے 16 اگست 1946ء کی تاریخ بھی مقرر کر دی گئی۔ اس موقع پر کانگرس پنڈتوں نے ایک نیا سیاسی کارڈ کھیلتے ہوئے 10 اگست 1946ء کو کابینہ مشن پلان کے دونوں حصوں کو منظور کر لیا۔ اس سیاسی پیش رفت کے بعد وائسرائے ہند نے پھرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 12 اگست 1946ء کو کانگرس کے صدر پنڈت جواہر لال نہرو سے عبوری حکومت کے قیام سے متعلق تجاویز طلب کیں۔ لندن سے منظوری حاصل کرنے کے بعد وائسرائے نے 24 اگست کو پنڈت جواہر لال نہرو اور ان کے ساتھیوں کی عبوری حکومت میں شمولیت کا اعلان کیا۔ اس اعلان کے بعد ہندوستان میں ہندو مسلم فسادات کا ایک لافانی سلسلہ شروع ہوا جو علاقے اور شہر سب سے زیادہ متاثر ہوئے ان میں کلکتہ، بمبئی ،آگرہ ،احمد آباد، نواں کلی، بہار اور دہلی کے نام قابل ذکر ہیں۔ ان حالات و واقعات میں کانگریسی لیڈروں نے انگریزوں کے ساتھ اپنی دوستی اور وفا کا بھرم رکھتے ہوئے 2 ستمبر 1946ء کو عبوری حکومت میں شامل ہونے کا حلف اٹھایا۔

اس کے بعد وائسرائے ہند لارڈ ویول، قائد اعظم اورپنڈت نہرو کے درمیان بات چیت کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا۔ نواب صاحب آف بھوپال نے کانگرساور آل انڈیا مسلم لیگ کے درمیان مستقل بنیادوں پر مفاہمت پیدا کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ مگر ان کی کوششیں بار آور ثابت نہ ہوئیں۔ بات چیت کے اس دور کا ایک نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ آل انڈیا مسلم لیگ نے 16 اکتوبر 1946ء کو عبوری حکومت میں شامل ہونے کا اعلان کر دیا۔ لیکن لیگ میں شمولیت سے ہندوستانی مسئلے کی نوعیت میں کوئی فرق نہ آیا۔ کیونکہ قائد اعظم محمد علی جناح نے مجوزہ قانون ساز اسمبلی میں شرکت کرنے سے انکار کر دیا۔ انکار کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ پنڈت جواہر لال نہرو کابینہ کو مشن کے بعض نکات جو طویل العمیاد منصوبے سے متعلق تھے کو توڑ مروڑ کر پیش کر رہے تھے۔ اور مجوزہ قانون ساز اسمبلی کی تعریف و توضیح اور دائرہ کار کے اختیارات سے متعلق وضاحتیں اور تشریحات اپنے مفاد اور اپنی خواہشات کے مطابق کر رہے تھے۔

نہرو کا استدلال یہ تھا کہ مجوزہ قانون ساز اسمبلی مکمل طور پر ایک خود مختار ادارہ ہوگا اور یہ ادارہ جو چاہے کر سکے گا۔ لیگ کے لیے ایسے ادارے میں شرکت اپنے مطالبے (مطالبہ پاکستان) سے خود بخود دستبردار ہونے کے مترادف تھا۔ بقول لیاقت علی خان:

’’ اگر مجوزہ قانون ساز اسمبلی کو مکمل طور پر خود مختار ادارہ مان لیا جائے تو اس میں مسلم لیگ کے لیے کوئی جگہ نہ ہوگی، کیونکہ اس اسمبلی میں ایک مسلم ممبر کا مقابلہ دیگر چار اراکین سے ہوگا۔‘‘

اگر قائد اعظم مجوزہ قانون ساز اسمبلی میں شرکت نہ کرنے کا اعلان نہ کرتے تو کانگریس اپنی اکثریت کی بنیاد پر اپنی ہی خواہشات کے مطابق ہندوستان کے لیے آئین تیارکرتی۔ لیکن مسلم لیگ کسی بھی قیمت پر کانگریس کو اس بات کی اجازت نہیں دے سکتی تھی اور یوں اتنی سیاسی پیش رفت کے باوجود ان دونوں سیاسی جماعتوں کے درمیان موجود آئینی بحران اور سیاسی اختلاف بدستور قائم رہا۔

مجموعی جائزہ ترمیم

کیبنٹ مشن پلان اور اس پرمسلم لیگ اورکانگرس کے رد عمل کا جائزہ لینے کے بعد اس نتیجے پر پہنچنا نہایت ہی آسان ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد انگریز سرکار ہندوستان کو آزادی دینے کے لیے راضی ہے لیکن وہ ہندوستان کا مسئلہ ہندوستانیوں ہی ذریعے حل کروانا چاہتی ہیں۔ دوسری طرف کانگریس اور لیگ کے مؤقف میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد کانگریس ہندوستان کی سالمیت پر کوئی آنچ آنے کے لیے تیار نہیں ہے جبکہ مسلم لیگ کی قیادت کے لیے ہندوستان کی تقسیم کے بغیر کوئی دوسرا حل قابل قبول نہیں ہے۔ اس موقع پر کانگریسی پنڈتوں کی سیاسی چالوں کا بہ نظر غائر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ وہ مسلم لیگی زعماء کے ساتھ ایک انوکھا سیاسی کھیل کھیل رہے ہیں۔ وہ ہر جائز و ناجائز طریقے سے مسلم لیگ کو عبوری حکومت سے باہر رکھنا چاہتے ہیں لیکن ان کی راہ میں قائد ایک ایسا ناقابل تسخیر چٹان کی مانند ہے جس کو ٹوڑنا یا مسخر کرنا ان کے بس کا روگ نہیں ہے۔

بیرونی روابط ترمیم