ہکاتونکائر [ہِکا-تَون-کائر] یا ہکاتونخائر یونانی اساطیر میں ارضی دیوی گایا اور آسمانی دیوتا یورینس کے تین بچے تھے۔ یہ شکل سے بدصُورت تھے اور اِن کے 50 سَر اور 100 بازُو تھے۔ اِن کی اِس صِفت کے باعث انھیں صدبازو، یعنی 100 بازوؤں والا، بھی کہا جاتا ہے۔ اِن کے جِسم کی قامت آفاق کی حد تک جا پہنچتی تھی، چنانچہ اِس اعتبار سے یہ مخلوک جب سامنے کھڑی ہوتی تھی تو انسان کا مرکزی نُکتہِ نظر اِنہی پر مرکوز ہوتا تھا کیونکہ یہ سب چیزوں کو اپنے ظہور میں ڈھانک لیتے تھے۔

1890ء میں امریکا کے ایک اخبار میں تَمثيلِ بَيان کے طور پر ہکاتونکائر کو دِکھایا گیا ہے۔

یونانی زبان میں ”ہکاتون“ کا مطلب ’100‘ ہے اور ”کائر“ کا مطلب ’ہاتھ‘ یا ’بازُو‘ ہے۔ ہکاتونکائر کی قدیم یونانی اساطیر میں کم ہی روداد سُنائی دیتی ہے کیونکہ اِن کی طرح کی مخلوک کا گُمان کرنا مُشکل تھا۔ ماہرِ علم الاساطیر کا ماننا ہے کہ یہ شاید قُدرتی آفات کی عکس بینی کرتے تھے۔ فیض احمد فیض نے اپنی نظم ’پیکنگ‘ میں ہکاتونکائر کے ظہُور کے ذریعہ اپنے دل کی خوشنُودی کا اِظہار کیا ہے:

یوں گماں ہوتا ہے بازو ہیں مرے ساٹھ کروڑ
اور آفاق کی حد تک مرے تن کی حد ہے
دل مرا کوہ و دمن دشت و چمن کی حد ہے