یعقوب اوّل امارتِ جرمانیہ کا بانی تھا۔ یہ امارت مغربی اناطولیا میں کوتاہیہ اور اس کے نواحی علاقوں پر قائم تھی۔ گو کہ جرمیان سلطانِ روم مسعود ثانی (دورِ حکومت: 1284ء تا 1297ء اور 1303ء تا 1308ء) کے خلاف بغاوت کر چکے تھے تاہم یعقوب نے سلطان کیقباد ثالث (دورِ حکومت: 1298ء تا 1302ء) کی بالادستی کو تسلیم کرتے ہوئے اُسے خراج دینا منظور کیا۔ سلطنتِ روم بہت جلد انتشار کا شکار ہو گئی۔ اس صورتِ حال سے فائدہ اُٹھا کر یعقوب نے اپنی حدودِ سلطنت میں توسیع کا عمل شروع کیا اور بہت کم عرصے میں اُس کی امارت کی سرحدیں مشرق میں انقرہ اور مغرب میں بازنطینی سلطنت سے جا ملیں۔ یعقوب نے پڑوسی ریاستوں پر بھی اپنی بالادستی کا علم لہرا دیا۔ ہم عصر مؤرخین نے اُس کے دورِ حکومت کو معاشی ترقی سے بھرپور قرار دیا ہے۔ اُس کے بعد اُس کا بیٹا محمد امارتِ جرمیان کا دُوسرا امیر ہوا۔

پسِ منظر ترمیم

گیارھویں صدی عیسوی میں مغربی ایشیا کا بیشتر رقبہ سلاجقہ کے زیرِ فرمان تھا۔ سلاجقہ کی ایک شاخ نے اناطولیا میں ایک اسلامی سلطنت قائم کی تھی جو سلطنتِ روم کہلائی۔ جرمیان کا ظہور 1239ء میں ہوا جبکہ سلطنتِ روم پر کیخسرو ثانی (دورِ حکومت: 1237ء تا 1246ء) کی حکومت تھی۔ اُس زمانہ میں اناطولیا میں ایک مذہبی شخص بابا اِسحاق نے کافی فساد مچا رکھا تھا اور ملطیہ اور اس کے نواحی علاقوں میں اُس کے مریدوں کے جتھے بغاوت کا پرچم تھامے ہوئے تھے۔ سلطان نے یعقوب کے دادا مظفر الدین کو اس بغاوت کو فرو کرنے کی غرض سے روانہ کیا۔

1243ء میں کوسہ داغ کی جنگ برپا ہوئی جس میں سلجوقیوں کو منگولوں کے مقابلہ میں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا، اس کے نتیجے میں سلجوقی حکومت کی حیثیت منگولوں کے باج گزار کی سی ہو گئی اور سلطان منگول دربار کو سالانہ خراج ادا کرنے کا پابند ہوا۔ منگول سلطنت کی تقسیم کے بعد اناطولیا کا خطہ ہلاکُو خان کو ملا۔ 1277ء میں سلطانِ مصر بیبرس نے اناطولیائی مہم شروع کی تو اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سیاسی انتشار سے فائدہ اُٹھا کر جمری نامی ایک معمولی شخص نے جو تُرکمانوں کی حمایت پا کر علاء الدین سیاؤش کے لقب سے تختِ سلجوق کا مدعی تھا، منگولوں کے خلاف بغاوت کر دی۔ اسے ریاست قرہ مان کے حاکم محمد اوّل بیگ کی عسکری حمایت بھی میسر تھی۔ اُس کی سرکوبی کے لیے یعقوب کے بھائی حسام الدین کو روانہ کیا گیا جس نے جمری اور قرہ مانیوں دونوں کے متحدہ لشکر سے مغربی اناطولیا میں جنگ لڑی۔ جمری اور محمد کے خاتمہ پر قرہ مانیوں کی سیاسی قوت میں ضعف آ گیا جس کے نتیجہ میں خطہ میں سیاسی تقسیم کے عمل کا آغاز ہو گیا اور سلجوقی سلطنت بھی زوال کی پستیوں میں گرنے لگی۔

آغازِ حکومت ترمیم

1283ء میں جب کہ منگولوں نے سلطان کیخسرو ثالث کو پھانسی کی سزا دے کر مسعود ثانی کو تخت پر بٹھایا تھا، جرمیانیوں نے سلطنتِ روم کی اطاعت کا طوق گردن سے اُتار پھینکا اور اپنی خود مختار حکومت قائم کر لی۔ جرمیانیوں اور سلجوقیوں کے مابین اقتدار کی کھینچا تانی جاری رہی، آخر کیقباد ثالث کی تخت نشینی پر یعقوب نے سلجوقی بالادستی کو تسلیم کرتے ہوئے خراج کی ادائیگی کو منظور کر لیا اور اس طرح دونوں کے مابین معرکہ آرائی ختم ہو گئی۔ امن کے اس دور میں امارتِ جرمیانیہ کی سرحدیں مشرق میں انقرہ تک پھیل گئیں۔ بازنطینیہ کے یونانی مؤرخ نیکیفورس گریگورس کے مطابق دینیزلی اور قرہ حصار، اور مؤرخ جارج پاچیمیریس کے بیان کے مطابق انتونیوپولس کے شہر بھی جرمیانیوں کے زیرِ فرمان آ گئے۔

فوجی قوت ترمیم

عرب مؤرخ العمری نے یعقوب کو اپنے ہم عصر تُرک ریاستوں میں سب سے طاقتور امیر قرار دیا۔ وہ اپنے بہت سے پڑوسی امراء کا بالادست حکمران تھا۔ اُس کی قوت و شوکت کا یہ عالم ہو گیا تھا کہ بازنطینی سلطنت اُسے ہر سال ایک لاکھ کی مقدار میں سونے کی اینٹیں بطور خراج، دیتی تھی۔

العمری نے دو سیاحوں حیدر العریان اور بلبن کے مشاہدات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے یہ بھی بیان کیا کہ یعقوب کے زیرِ فرمان تقریباً 700 بستیاں تھیں۔ اُس کی فوج 40 ہزار گھڑ سواروں پر مشتمل تھی اور میدانِ جنگ میں وہ 2 لاکھ سپاہی لا سکتا تھا۔ عہدِ حاضر کے ایک تُرکی مؤرخ پروفیسر ڈاکٹر مصطفیٰ چیتن ورلک ارمغانی نے اُس کی فوجوں کی تعداد بیان کرنے میں بڑی مبالغہ آرائی سے کام لیا ہے۔

غیر مستحکم فتوحات ترمیم

یعقوب نے سیماو اور کولا کے علاقے بھی فتح کیے جنھیں انجمن قطلونیہ نے دوبارہ حاصل کر لیا۔ یہ انجمن دراصل عیسائی مشنریوں کی ایک ملیشیا تھی جسے بازنطینیوں نے اناطولیائی اُمراء کے خلاف معرکہ آرائی کے لیے ہائر کر رکھا تھا۔ اسی طرح، فلاڈیلفیا (جو آج کل آلاشہر کے نام سے جانا جاتا ہے) کو بھی یعقوب نے فتح کیا تھا، مگر 1304ء کے موسمِ بہار میں قطلونوی فوجوں نے اس پر بھی دوبارہ قبضہ کر لیا۔ اس شہر پر قابض قطلونیہ کی مقامی حکومت نے 1314ء سے جرمیانیہ کو جزیہ دینا شروع کیا اور اس طرح آلاشہر پر ایک طرح سے جرمانیہ کی بالادستی قائم ہو گئی۔

عثمانیہ سے تعلقات ترمیم

سلطنتِ عثمانیہ جو تب امارتِ عثمانیہ تھی، اُس کے ساتھ بھی یعقوب کے تعلقات کی نوعیت معاندانہ تھی اور اُس نے 1313ء میں قراچہ حصار کے قریب چاودار قبیلے کے تاتاریوں کو عثمانیوں پر حملہ آور ہونے کے لیے اُکسایا تھا۔

ایلخانی منگولوں کا حملہ ترمیم

1325ء میں منگول سپہ سالار اور اناطولیائی گورنر، تیمورتاش نے امارتِ بنو حمید اور امارتِ بنو اشرف کے خاتمہ کے بعد مغربی اناطولیا کا رُخ کیا تاکہ وہاں کے خُود مختار تُرکی اُمراء پر منگولوں کی بالادستی قائم کر سکے۔ اُس نے جرمانیہ کے زیرِ تسلط علاقوں فلاڈیلفیا، دینیزلی اور منتشه پر بھی قبضہ کرنے کی کوشش کی۔

افیون قرہ حصار کے حاکم نے جو یعقوب کا داماد بھی تھا، ارتنا سے کوتاہیہ کا رُخ کیا۔ وہ تیمور تاش کا ایک ماتحت فوجی افسر تھا جسے منگول سپہ سالار کی جانب سے شہر پر قبضے کا فرمان ملا تھا۔ یعقوب کو جب اس حملے کی خبر ملی تو اُس نے جنگی تیاریوں کا بندوبست کیا مگر اس سے قبل کہ جنگ چھڑتی، تیمور تاش نے 1327ء میں اپنے ماتحت سالار کو واپس طلب کر لیا اور یہ جنگ ہوتے ہوتے رہ گئی۔

معاشی ترقی اور علمی سرپرستی ترمیم

یعقوب کے زیرِ اِنتظام علاقے معاشی طور پر خوش حال تھے اور اُس نے ادبی و سائنسی سرپرستی میں بھی دلچسپی لی۔ مولانا رومیؒ کے پوتے عارف چلپی نے 1312ء میں اس کے مقبوضہ علاقوں کا دورہ کیا اور یعقوب کا رُوحانی سرپرست بن بیٹھا۔

یعقوب نے قرہ حصار کے مولوی خانه (مولانا رومی کے بنا کردہ سلسلۂ مولویہ کی خانقاہ) کے لیے ایک وقف بھی قائم کیا۔ گزشتہ صدی کے ایک تُرکی مؤرخ إسماعيل حقي أوزون تشارشيلي کا بیان ہے کہ یعقوب نے ایک اور وقف بھی قائم کیا جو عشاق شہر کے ایک گاؤں حجیم کے ایک زاویہ کے لیے 1321ء میں بنایا گیا تھا۔ تاہم اس وقف پر یعقوب کی بجائے اُس کے بیٹے اور جانشین محمد کا نام کندہ ہے۔

جرمیانی سکہ جات ترمیم

یعقوب نے اپنے دورِ حکومت کے اواخر سالوں میں ایک سکہ ڈھالا۔ 1307ء میں ایک ایسا سکہ بھی ڈھالا گیا تھا جس پر کوئی نام تو نہ تھا مگر اُس پر خانِ جرمیان کا لقب کندہ تھا۔ قلعۂ ساندیکلی کے نوشتہ جات میں اُس کے یہ القابات درج ملتے ہیں:

السلطان الجرمانیہ، چلبی الاعظم، عزم اللہ و قادِرَہُ

موت اور جانشینی ترمیم

خیال آرائی کی جاتی ہے کہ یعقوب نے 1340ء میں مملوک سلطنت کے ساتھ خط کتابت بھی کی تھی۔ یہ اُس کی زندگی کے بارے میں آخری معلوم سرگرمی ہے۔ چوں کہ اُس کی موت کا سال نامعلوم ہے لہٰذا یہ گمان کیا جا سکتا ہے کہ یعقوب کا سالِ وفات 1340ء یا اس کے بعد کا کوئی سال ہو گا۔ اولیا چلبی جو یعقوب کی موت کے تین صدیوں بعد کا ایک عثمانی سیاح اور مؤرخ تھا، اُس نے یعقوب کا جائے مدفن کوتاہیہ کے نزدیک خضرلک پہاڑی میں بیان کیا ہے۔ یعقوب کی وفات پر اُس کا جانشین اُس کا بیٹا محمد ہوا جو تُرکوں میں چخشادن کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔

خاندان ترمیم

یعقوب کے والد کا نام کریم الدین علی شیر، دادا کا نام مظفر الدین علی شیر اور پردادا کا نام علی شیر بیان کیا جاتا ہے۔تُرکی مؤرخ إسماعيل حقي أوزون تشارشيلي نے اُس کے ایک بھائی کا نام حسام الدین بیان کیا ہے۔ اُس کے ایک بھانجے بدر الدین مُراد کا تذکِرہ بھی ملتا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اُس کی ایک بہن بھی تھی۔

یعقوب کی اولاد میں چار بچوں کا تذکرہ ملتا ہے۔ دو بیٹے محمد اور مُوسیٰ تھے جب کہ دو بیٹیاں بھی تھیں جن کے ناموں کا کچھ علم نہیں۔