یوسف حسین خاں (1902ء – 1979ء) ہندوستانی مؤرخ، ماہرِ تعلیم، دانشور، نقّاد اور ادیب تھے۔[2] بطور ماہرِ لسانیات اُن کو عربی، انگریزی، فرانسیسی، فارسی اور اُردو زبانوں پر کامل عبور تھا۔

یوسف حسین خاں
معلومات شخصیت
تاریخ پیدائش سنہ 1902ء [1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات سنہ 1979ء (76–77 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند
بھارت   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی علی گڑھ یونیورسٹی
جامعہ پیرس   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تعلیمی اسناد ڈاکٹر آف لیٹرز   ویکی ڈیٹا پر (P512) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ مورخ ،  شاعر ،  استاد جامعہ   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو ،  انگریزی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملازمت جامعہ عثمانیہ ،  علی گڑھ یونیورسٹی   ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
باب ادب

سوانح ترمیم

آبا و اجداد کا تعلق قائم گنج، فرخ آباد سے تھا۔ ان کے چھ بھائیوں میں ڈاکٹر ذاکر حسین خاں مسلم علی گڑھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر، صوبہ بہار کے گورنر اور بعد ازاں بھارت کے صدرِ جمہوریہ (1967ء–1969ء) رہے۔ ایک بھائی ڈاکٹر محمود حسین خاں، جو تحریکِ پاکستان میں شامل ہو گئے تھے اور بعد ازاں پاکستان منتقل ہو گئے، کراچی اور ڈھاکا کی یونیورسٹیوں میں بطور وائس چانسلر خدمات سر انجام دیتے رہے۔ اس کے علاوہ حکومتِ پاکستان میں وزارتِ دفاع اور وزارتِ تعلیم کے قلمدان بھی ان کے سپرد رہے۔ وہ حیدرآباد، دکن میں پیدا ہوئے۔ وہیں انھوں نے نشو و نما پائی۔ اٹاوہ (اترپردیش) میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ سے بی۔ اے۔ کیا۔ فرانس چلے گئے اور تاریخ میں پیرس سے ڈی۔ لٹ۔ کی سند حاصل کر کے 1926 میں ہندوستان واپس آئے۔ واپسی پر جامعہ عثمانیہ میں پہلے تاریخ کے ریڈر مقرر ہوئے۔ پھر اسی شعبہ کی صدارت پر فائز ہوئے۔ ایک مدت تک یہاں کام کرنے کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے منسلک ہو گئے۔ بعد ازاں دہلی جا بسے۔ وہیں انتقال ہوا۔[2]

ادبی زندگی ترمیم

ملازمت کے دوران یوسف حسین خاں کی تمام تر علمی توجہ کا مرکز زبان و ادب، شاعری اور تاریخ رہی۔ حیدرآباد کے قیام کے زمانے میں وہ وہاں کے علمی اور ثقافتی اداروں سے وابستہ رہے۔ 1978ء میں ان کی کتاب "حافظ اور اقبال" پر انھیں ساہتیہ اکیڈمی اعزاز دیا گیا۔[2] یہ ان کی علمی خدمات کا اعتراف تھا۔ حکومت ہند نے انھیں پدم بھوشن کے خطاب سے سرفراز کیا۔[3]

یوسف حسین خاں کی ”یادوں کی دُنیا“ کا شمار اُردو آپ بیتی اور خودنوشت نگاری کے میدان میں ایک جامع اور وقیع تحریر کے طور پر کیا جاتا ہے اور اِسے بجاطور پر دس منتخب جدید خودنوشتوں کی فہرست میں جگہ دی جاتی ہے۔ ایک مؤرّخ ہونے کے ناطے انھوں نے اپنے واقعات کا اور شخصیات کا ایک جامع مگر کڑا انتخاب کیا ہے اور بہرحال گفتنی اور ناگفتنی کا اپنے نقطۂ نظر سے بخوبی لحاظ رکھا ہے۔ یوسف حسین خاں نے ایک ایسے عہد میں جنم لیا جو برصغیر کے مسلمانوں میں سیاسی، تہذیبی اور تعلیمی لحاظ سے کھوئی ہوئی عظمت دوبارہ حاصل کرنے کی کوششوں اور آزادی کی تحریک کا زمانہ تھا۔ ڈاکٹر یوسف حسین خاں نے ”یادوں کی دنیا“ میں زبان و بیان کی آسانی اور شگفتگی کا دامن نہیں چھوڑا اور کئی واقعات کو کہانیوں اور افسانوں کے انداز میں بیان کیا ہے مگر محتاط اور شائستہ پیرائے میں۔ اس طرح انھوں نے ”یادوں کی دنیا“ کو جوش ملیح آبادی کی ”یادوں کی برات“ بنانے سے حتی الوسع شعوری احتراز کیا ہے، جو حضرت جوش جیسے جرأتِ رندانہ و بے باکانہ کے حامل شاعر کے سامنے ایک ماہرِ تعلیم اور مورّخ کے انداز کی غمازی کرتا ہے۔ مصنف داخلی جذبات کو اتنا کھل کر بیان نہیں کر سکے اور ”کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے“ کی درمیانی کیفیت کو برقرار رکھا ہے اور اسے قاری کے تخیل پر چھوڑ دیا ہے۔ اس اعتبار سے ”یادوں کی دنیا“ ایک تاریخ بھی ہے، سوانح عمری بھی اور زندگی کی داستان بھی۔ یہ خود نوشت بلاشبہ اُردو ادب کی منتخب خودنوشتوں میں شمار کیے جانے کے قابل ہے۔

صنف غزل کی تنقید میں یوسف حسین خاں کی کتاب "اردو غزل" کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ "روح اقبال" اقبال کی فکر اور فن کا احاطہ کرتی ہے۔ انھوں نے مومن پر بھی علمی اور تحقیقی کام کیا۔ حسرت کی شاعری کے مختلف پہلوؤں پر تحقیقی مضامین لکھے جو "حسرت کی شاعری" کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہو چکے ہیں۔ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ پر ایک مبسوط کتاب "تاریخ دستور حکومت ہند" کے نام سے ترتیب دی۔ "یادوں کی دنیا" کے عنوان سے آپ بیتی لکھی ہے۔ "فرانسیسی ادب کی تاریخ" بھی قلم بند کی اور آخری عمر میں غالب کے کلام کا انگریزی زبان میں ترجمہ کیا۔ یوسف حسین خاں نے انگلش اردو لغت کے کام میں مولوی عبد الحق کی بھی بہت مدد کی تھی۔[2] دار الترجمہ عثمانیہ کے لیے انھوں نے "تاریخ ہند" مرتب کیا جو ایسٹ انڈیا کمپنی کے عہد سے 1939ء تک کے زمانے کی ہندوستان کی تاریخ ہے۔ "مبادی عمرانیات" نامی کتاب فرانسیسی زبان سے براہ راست ترجمہ ہے۔ "غالب اور آہنگ غالب" بھی ان کی ایک اہم تصنیف ہے۔ عہد وسطٰی کی تاریخ اور ادب سے متعلق انگریزی میں بھی کئی کتابیں ہیں۔

تصنیفات ترمیم

  • تاریخِ ہند (عہد حالیہہندوستان اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی 1939ء تک کی تاریخ۔
  • تاریخِ دکن (عہد حالیہدکن کی تاریخ
  • مبادی عمرانیات (رینے ورم [Rene Worms] کی کتاب کا فرانسیسی سے براہ راست ترجمہ)۔
  • روح اقبال
  • اردو غزل
  • حسرت کی شاعری
  • فرانسیسی ادب (فرانسیسی ادب اور زبان کا تجزیہ)

انگریزی کتابیں ترمیم

  • The first Nizām; the life and times of Nizāmu'l-Mulk Āsaf Jāh I (1963)[4]

حوالہ جات ترمیم

  1. ^ ا ب او ایل آئی ڈی: https://openlibrary.org/works/OL5723011A?mode=all — بنام: Yusuf Husain Khan — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017 — مصنف: آرون سوارٹز
  2. ^ ا ب پ ت Mohan Lal (1992–2006)۔ The Encyclopaedia Of Indian Literature, Volume Five (Sasay To Zorgot)۔ 5۔ sahitya academy۔ صفحہ: 4642۔ ISBN 81-260-1221-8 
  3. "Padma Awards"۔ Padma Awards۔ Government of India۔ 2018-05-17۔ 15 اکتوبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 مئی 2018 
  4. Yusuf Husain Khan (1963)۔ The first Nizām; the life and times of Nizāmu'l-Mulk Āsaf Jāh I۔ Asia Publishing House