سورہ یٰس

قرآن مجید کی 36 ویں سورت
(یٰس سے رجوع مکرر)

قرآن مجید کی 36 ویں سورت جسے "قرآن کا دل" کہا جاتا ہے۔ اس میں 5 رکوع اور 83 آیات ہیں۔

  سورۃ 36 - قرآن  
سورة يس
Sūrat Yā Sīn
سورت يس
----

عربی متن · انگریزی ترجمہ


دور نزولمکی
عددِ پارہ22, 23 واں پارہ
اعداد و شمار5 رکوع, 83 آیات, 733 الفاظ, 2,988 حروف

نام

آغاز ہی کے دو حرفوں کو اس سورت کا نام قرار دیا گیا ہے۔

زمانۂ نزول

مزید دیکھیے: یٰس آیت 45

اندازِ بیاں پر غور کرنے سے محسوس ہوتا ہے کہ اس سورت کا زمانۂ نزول یا تو مکہ کے دور متوسط کا آخری زمانہ ہے یا پھر زمانۂ قیام مکہ کے آخری دور کی سورتوں میں سے ہے۔

موضوع و مضمون

کلام کا مدعا کفار قریش کو نبوت محمدی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ایمان نہ لانے اور ظلم و استہزاء سے اس کا مقابلہ کرنے کے انجام سے ڈرانا ہے۔ اس میں اِنذار کا پہلو غالب اور نمایاں ہے مگر بار بار اِنذار کے ساتھ استدلال سے تفہیم بھی کی گئی ہے۔ استدلال تین امور پر کیا گیا ہے: توحید پر آثارِ کائنات اور عقلِ عام سے ، آخرت پر آثارِ کائنات، عقلِ عام اور خود انسان کے اپنے وجود سے اور رسالت محمدی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صداقت پر اس بات سے کہ آپ تبلیغِ رسالت میں یہ ساری مشقت محض بے غرضانہ برداشت کر رہے تھے اور اس امر سے کہ جن باتوں کی طرف آپ لوگوں کو دعوت دے رہے تھے وہ سراسر معقول تھیں اور انھیں قبول کرنے میں لوگوں کا اپنا بھلا تھا۔

اس استدلال کی قوت پر زجر و توبیخ اور ملامت و تنبیہ کے مضامین نہایت زور دار طریقے سے بار بار ارشاد ہوئے ہیں تاکہ دلوں کے قفل ٹوٹیں اور جن کے اندر قبولِ حق کی تھوڑی سی صلاحیت بھی ہو وہ متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں۔

امام احمد، ابو داؤد، نسائی، ابن ماجہ اور طبرانی وغیرہ نے معقل بن یسار سے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا

یٰس قلب القراٰن، یعنی یہ سورت قرآن کا دل ہے

یہ اُسی طرح کی تشبیہ ہے جس طرح سورۂ فاتحہ کو ام القرآن فرمایا گیا ہے۔ فاتحہ کو ام القرآن قرار دینے کی وجہ یہ ہے کہ اس میں قرآن مجید کی پوری تعلیم کا خلاصہ آ گیا ہے۔ اور یٰس کو قرآن کا دھڑکتا ہوا دل اس لیے فرمایا گیا ہے کہ وہ قرآن کی دعوت کو نہایت پر زور طریقے سے پیش کرتی ہے جس سے جمود ٹوٹتا اور روح میں حرکت پیدا ہوتی ہے۔

انہی حضرت معقل بن یسار سے امام احمد، ابو داؤد اور ابن ماجہ نے یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

اپنے مرنے والوں پر سورۂ یٰس پڑھا کرو

۔ اس کی مصلحت یہ ہے کہ مرتے وقت مسلمان کے ذہن میں نہ صرف یہ کہ تمام اسلامی عقائد تازہ ہو جائیں، بلکہ خصوصیت کے ساتھ اس کے سامنے عالمِ آخرت کا پورا نقشہ بھی آ جائے اور وہ جان لے کر حیاتِ دنیا کی منزل سے گذر کر اب آگے کن منزلوں سے اس کو سابقہ پیش آنے والا ہے۔ اس مصلحت کی تکمیل کے لیے مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ غیر عربی داں آدمی کو سورۂ یٰس سنانے کے ساتھ اس کا ترجمہ بھی سنا دیا جائے تاکہ تذکیر کا حق پوری طرح ادا ہو جائے۔