آل محمد علی مصر و سوڈان پر 19 ویں اور وسط بیسویں صدی تک حکمرانی کرنے والا خاندان تھا۔ اسے اپنے جد اعلٰی اور بانی سلطنت محمد علی پاشا کے نام سے آل محمد علی کے طور پر جانا جاتا ہے، جسے جدید مصر کا بانی سمجھا جاتا ہے۔

آل محمد علی
Muhammad Ali dynasty
(Alawiyya dynasty)
ملکمصر اور سوڈان
قیام1805: Muhammad Ali's consolidation of power
بانیمحمد علی پاشا
آخری حکمرانشاہ فواد دوم
تخت یا سے معزولی1953, abolition of monarchy following the Egyptian Revolution of 1952
موجودہ سربراہشاہ فواد دوم
خطابوالی، خود اعلان خدیو (1805–1867)
خدیو باضابطہ طور پر تسلیم شدہ (1867–1914)
سلطان (1914–1922)
مملکت مصر (1922–1953)

تعارف ترمیم

 
بانئ سلطنت محمد علی پاشا

محمد علی عثمانی فوج کا البانوی نژاد کماندار تھا جسے مصر سے نپولین کی افواج کو بے دخل کرنے کی ذمہ داری سونپ کر مصر بھیجا گیا لیکن فرانسیسیوں کے نکالے جانے کے بعد اس نے اقتدار حاصل کر کے 1805ء میں عثمانی سلطان محمود ثانی پر زور دیا کہ وہ اسے مصر کے والی یا گورنر، کے طور پر تسلیم کرے۔

محمد علی نے مصر کو ایک علاقائی قوت میں تبدیل کر دیا اور اسے وہ زوال پزیر عثمانی سلطنت کا حقیقی جانشیں سمجھتا تھا۔ وہ اپنے ان عزائم کا اظہار ان الفاظ میں کرتا تھا:

مجھے اچھی طرح علم ہے کہ سلطنت (عثمانیہ) روز بروز تباہی کی جانب بڑھ رہی ہے ۔۔۔۔۔۔ اور اس کی باقیات پر میں ایک وسیع سلطنت قائم کروں گا --- جو دجلہ و فرات تک پھیلی ہوگی۔

اپنے دور عروج پر محمد علی پاشا اور اس کے بیٹے ابراہیم پاشا کی عسکری قوت نے بلاشبہ عثمانی سلطنت کی بقا کو خطرات لاحق کر دیے لیکن عالمی قوتوں کی مداخلت نے مصری افواج کی قسطنطنیہ کی جانب پیشقدمی روک دی اور اس طرح اس کی حکومت کو افریقا تک محدود کر دیا۔ (دیکھیے : معاہدۂ کوتاہیہ)

محمد علی نے اپنے دور حکومت کے ابتدائی دور میں سوڈان فتح کیا اور اس کے جانشینوں نے اس قبضے کو مزید مضبوط کیا اور اس کو توسیع بھی تھی، جن میں سب سے اہم ابراہیم پاشا کا بیٹا اسماعیل اول ہے۔

حالانکہ محمد علی اور اس کے جانشیں خدیو کا لقب استعمال کرتے تھے لیکن عثمانی دربار نے 1867ء تک اس لقب کی منظوری نہیں دی جب سلطان عبد العزیز اول نے باضابطہ طور پر اسماعیل پاشا اور اس کے جانشینوں کے لیے اس لقب کی منظوری دی۔ عثمانی سلطنت کے خلاف دادا کی جارحانہ حکمت عملی کے برعکس اسماعیل کی توجہ کم سے کم ٹکراؤ کے ذریعے مصر اور اپنے خاندان کو مزید مضبوط کرنے پر مرکوز رہی اور انہی اقدامات کے باعث وہ عثمانی سلطنت کی جانب سے مصر کی نیم آزادی تسلیم کرانے میں کامیاب ہو گیا۔ 1879ء میں اس آزادی کو بھی دھچکا پہنچا جب سلطان نے عالمی قوتوں کے ساتھ مل کر اسماعیل کو اپنے بیٹے توفیق اول کے حق میں دستبردار کرانے کا منصوبہ بنایا۔ تین سال بعد برطانیہ کی جارحیت اور ملک پر قبضے سے قبل مصر کی آزادی میں مزید اضافہ ہوا۔ حالانکہ اس کے بعد بھی مصر اور سوڈان پر نام کے خدیو ہی حکمران تھے لیکن حقیقی اقتدار اور قوت برطانوی ہائی کمشنر کے ہاتھ میں تھی۔ مصر کے برخلاف برطانیہ سرکاری طور پر سوڈان کو مصر و برطانیہ کی مشترکہ ملکیت سمجھتا تھا جو مصر کے مکمل حصے کی بجائے برطانیہ اور مصر کا مشترکہ علاقہ ہے۔ مصری حکومتی اور عوامی دونوں سطحوں اس کی کھل کر مخالفت کرتے رہے اور ان کا مطالبہ "وادی نیل کا اتحاد" رہا اور یہ مسئلہ 1956ء میں سوڈان کی آزادی تک برطانیہ اور مصر کے درمیان تنازع کا باعث بنا رہا۔

سلطنت اور پادشاہی ترمیم

 
اسماعیل اول

1914ء میں خدیو عباس ثانی نے عثمانی سلطنت کی حمایت کا اعلان کر دیا جو پہلی جنگ عظیم میں مرکزی قوتوں کی جانب تھی اور اس اعلان کے باعث ہی برطانیہ نے اسے ہٹا کر حسین کامل کو تخت پر بٹھا دیا۔ اس طرح عثمانیوں کے مصر پر حق حاکمیت کا باضابطہ خاتمہ ہو گیا، حسین کو مصر و سوڈان کا سلطان قرار دیا گیا ہے اور ملک برطانوی سرپرستی میں آ گیا۔ قوم پرستی کے عنصر کے پھیلنے کے ساتھ برطانیہ نے 1922ء میں مصر کی آزادی کو تسلیم کر لیا اور حسین کے جانشیں سلطان فواد اول نے نئے سلطان کی حیثیت سنبھالی۔ حالانکہ برطانیہ کا قبضہ اور مصری معاملات میں مداخلت جاری رہی لیکن مصر کے لیے سب سے زیادہ باعث تشویش بات برطانیہ کا مصر کو سوڈان کا قبضہ نہ دینا تھی۔ شاہ اور قوم پرست تحریکیں اس ایک نقطے پر متفق تھیں کہ شاہ فواد اول اور اس کا بیٹا شاہ شاہ فاروق اول "شاہ مصر و سوڈان" رہے۔

خاتمہ ترمیم

 
شاہ فاروق

فاروق کا دور برطانوی قبضے کے خلاف قوم پرستوں کے احتجاج، شاہی سطح پر بدعنوانی اور بد انتظامی اور 1948ء کی تباہ کن عرب اسرائیلی جنگ جیسے ہنگامہ خیز واقعات سے عبارت رہا۔ یہ تمام عوامل فاروق کی حیثیت کے خاتمے کا باعث بنے اور ان سے 1952ء کے انقلاب کی راہ ہموار ہوئی۔ فاروق پر اپنے شیر خوار بیٹے احمد فواد کے حق میں دستبردار ہونے کے لیے دباؤ ڈالا گیا جو شاہ فواد ثانی کے نام سے تخت نشین ہوا لیکن حقیقی اختیار محمد نجیب اور جمال عبد الناصر کی زیر قیادت Free Officers Movement کے ہاتھوں میں تھا۔ "شیر خوار" شاہ کا دور ایک سال بھی نہ چلا اور 18 جون 1953ء کو انقلابیوں نے شہنشاہیت کا خاتمہ کر کے مصر میں جمہوریت کا اعلان کر دیا اور اس طرح ڈیڑھ صدی کے عروج و زوال کے بعد آل محمد علی کے دور حکومت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو گیا۔

آل محمد علی کے حکمران (1805ء تا 1953ء) ترمیم

والی (1805ء تا 1867ء)

خدیو (1867ء تا 1914ء)

سلطان (1914ء تا 1922ء)

شاہ (1922ء تا 1953ء)

خاندان کے غیر حاکم اراکین ترمیم

متعلقہ مضامین ترمیم

محمد علی پاشا

ابراہیم پاشا

محمود ثانی

معاہدہ کوتاہیہ