حضرت ابراہیم بن سعدؒ کا شمار تبع تابعین میں ہوتا ہے۔

حضرت ابراہیم بن سعدؒ
(عربی میں: إبراهيم بن سعد الزهرى ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 727  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات سنہ 800 (72–73 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت دولت عباسیہ  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کنیت ابو اسحاق
والد سعد بن ابراہیم الزہری  ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ موسیقار،  گلو کار،  محدث  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان عربی  ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نام ونسب ترميم

نام ابراہیم ،کنیت ابو اسحاق اور شجرۂ نسب یہ ہے،ابراہیم بن سعد بن ابراہیم بن عبدالرحمٰن بن عوف بن عبد عوف بن عبد بن الحارث بن زہرہ بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوئی [2]قریش کے خاندان بنوزہرہ سے نسبی تعلق تھا،مشہور صحابی رسول حضرت عبدالرحمٰن بن عوف کی تمام اولاد اپنے جد امجد کی طرف منسوب ہوکر عوفی کہلاتی ہے،اسی وجہ سے ابراہیم بھی عوفی کی نسبت سے مشہور ہوئے۔ [3]

ولادت،وطن اورخاندان ترميم

دیارِ اقدس مدینہ منورہ کے رہنے والے تھے،ان کے سنہ ولادت کے بارے میں صریح طور پر صرف امام احمد کے صاحبزادے عبداللہ کا یہ بیان ملتا ہے کہ ولد ابراہیم بن سعد سنہ ثمان ومائۃ [4] ابراہیم بن سعد 108 ھ میں پیدا ہوئے ان کی عمر اورسنہِ وفات کے بارے میں علماء بہت مختلف رائیں رکھتے ہیں، اس سلسلہ کی تمام روایتوں کو جمع کرکے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ان کی پیدائش 108ھ ،109ھ یا 110ھ میں ہوئی،ان میں اوّل الذکر کے تائیدی بیانات زیادہ ہیں۔ ان کے خاندان کی علمی فضیلت اور علوئے شان محتاجِ بیان نہیں ہے،ان کے جدا علیٰ حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف،ان جانباز صحابہ کرام میں تھے جن کا کیسۂ فضل وکمال نہ صرف علمی زروجواہر سے مالا مال تھا؛بلکہ ان کی اصابت فکر ونظر،صدق وعفاف انفاق فی سبیل اللہ اور ترحم وفیاضی خلفائے ثلاثہ کے عہد میں مسلم خیال کی جاتی تھی ،اس طرح قاضی ابراہیم کے ہم نام دادا اپنے عہد کے جلیل القدر علماء میں شمار ہوتے تھے،کمال علم کے باعث ایک عرصہ تک مدینہ طیبہ کے قاضی رہے۔ [5]

حدیث ترميم

حدیث نبوی کی تحصیل وسماع سے انہیں خاص شغف تھا،منتخب روزگارشیوخ کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنے دامن کو حدیثِ نبوی کے جواہر پاروں سے پُرکیا ،علامہ ابن سعدان کی ثقاہت کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں کثیر الحدیث قراردیتے ہیں [6] خطیب بغدادی نقل کرتے ہیں کہ ابراہیم بن سعد اپنے زمانہ میں مدینہ کے سب سے بڑے عالمِ حدیث تھے اوراس وقت کے مدنی علماء میں ان سے زیادہ ذخیرہ روایات کسی کے پاس موجود نہ تھا [7] ابراہیم زبیری کا بیان ہے کہ: کان عندابراھیم بن سعد عن ابی اسحاق سبعۃ عشر الف حدیث فی الاحکام سوی المغازی رواھالبخاری عنہ واحتج بہ فی کتب الاسلام [8] ابراہیم بن سعد کے پاس مغازی کے علاوہ صرف احکام کے سلسلہ کی سترہ ہزار حدیثیں تھیں جنہیں امام بخاری نے ان سے روایت کیا ہے اورابراہیم قابل اسناد تھے۔ علامہ خزرجی انہیں احد الاعلام اورحافظ ذہبی احد الاعلام الثقات لکھتے ہیں۔ [9]

اساتذہ ترميم

قاضی ابراہیم کے شیوخ حدیث کی طویل فہرست میں ان کے والد سعد کے علاوہ درجِ ذیل اسمائے گرامی بہت ممتاز ہیں۔ امام زہری،ہشام بن عروہ،محمد بن اسحاق،صالح بن کیسان،صفوان بن سلیم، یزید بن الہاد،شعبہ

تلامذہ ترميم

اسی طرح ان سے روایت کا شرف حاصل کرنے والوں کی تعداد بھی کافی ہے،بیان کیا جاتا ہے کہ کوفہ،بصرہ اوربغداد کا کوئی ایسا قابل ذکر عالم نہیں جس نے ان سے روایت نہ کی ہو،اس میں ان کے صاحبزادگان یعقوب اورسعد کے علاوہ امام احمد بن حنبل، منصور بن ابی مزاحم حسین بن یسار،یزید بن ہارون،یونس بن محمد المؤدب،ابوداؤد الطیالسی، عبدالرحمٰن بن مہدی،نوح بن یزید، سلیمان بن داؤد الہاشمی،علی بن الجعد محمد بن جعفر، عبدالعزیز بن عبداللہ الاویسی،یحییٰ النیساپوری کے نام خصوصیت کے ساتھ لائق ذکر ہیں،علاوہ ازیں لیث بن سعد، قیس بن الربیع، یزید بن ہارون اور امام شعبہ نے بھی اپنی جلالت مرتبت اورتقدم کے باوجود ان سے روایت کی ہے۔[10]

مرویات کا پایا ترميم

تمام ائمہ جرح وتعدیل نے ایک زبان ہوکر ان کی ثقاہت وعدالت کو سراہا اوران کے ثبات واستاد کا اعتراف کیا ہے،علامہ ابن حجر نے تو یہاں تک لکھاہے کہ اگر کوئی شخص ابراہیم بن سعد کی ثقاہت میں کلام کرتا ہے تو وہ بڑا ظالم ہے [11] ابن معین کا قول ہے،ابراہیم بن سعد ثقہ اورحجت ہیں،ابنِ عدی فرماتے ہیں "ھومن ثقات المسلمین"علامہ ذہبی لکھتے ہیں کہ ابراہیم بن سعد بغیر کسی شرط کے ثقہ ہیں [12]امام احمد ابو حاتم ابو زرعہ اورابن خراش بھی ان کی صداقت وثقاہت کے معترف ہیں۔ [13]

عہدۃ قضا ترميم

مدینہ منورہ میں کچھ عرصہ تک قضا کے فرائض بھی انجام دیئے،اسی لئے قاضی مدینہ کہے جاتے ہیں۔[14]

بغداد میں آمد اور خزانہ کی افسری ترميم

اوپر ذکر آچکا ہے کہ قاضی ابراہیم کا اصل وطن مدینہ طیبہ تھا،جہاں وہ ایک عرصہ تک فضل و دانش کی گہر باری کرتے رہے،پھر اپنے اہل و عیال کے ہمراہ مرکز علم و فن بغداد منتقل ہوگئے، وہاں ان کی آمد کے صحیح وقت کی تعیین مشکل ہے، خطیب نے صرف اتنے ہی ذکر پر اکتفا کیا ہے کہ: کان قد نزل بغداد واقام بھا الی حین حیاتہ [15] وہ بغداد آئے اوروہاں اپنی وفات تک مقیم رہے۔ خلیفہ ہارون الرشید نے بغداد آنے پر ان کا بڑا اعزاز واکرام کیا اوران کی دیانت و تقویٰ کے اعتراف کے طور پر انہیں بیت المال کا نگران مقرر کیا۔[16]

موسیقی ترميم

تاریخ بغداد کی بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ موسیقی کو جائز سمجھتے تھے،لیکن یہ روایتیں قابل اعتبار نہیں ہیں۔

وفات ترميم

73یا 74 سال کی عمر میں بغداد میں وفات پائی اوروہیں مدفون ہوئے ،عمر کی طرح سنہ وفات میں بھی اختلاف ہے،کوئی 183 ھ کہتا ہے،کوئی 184ھ [17]مگر ساری روایتوں پر غور کرنے کے بعد 74 سال کی عمر او ر 183 ھ سنہ وفات صحیح معلوم ہوتا ہے۔ [18]

حوالہ جات ترميم

  1. https://catalog.perseus.tufts.edu/catalog/urn:cite:perseus:author.1817 — اخذ شدہ بتاریخ: 25 فروری 2021
  2. (تہذیب التہذیب:1/121)
  3. (اللباب فی تہذیب الانساب:2/582)
  4. (تاریخ بغداد:6/83)
  5. (تاریخ بغداد:6/83)
  6. (طبقات بن سعد:7/68)
  7. (تاریخ بغداد:6/83)
  8. (تذکرۃ الحفاظ:1/229)
  9. (خلاصہ تذہیب تہذیب الکمال:17 ومیزان الاعتدال:1/17)
  10. (تہذیب التہذیب:1/121،وتاریخ بغداد:6/181)
  11. (تہذیب التہذیب:1/123)
  12. (میزان الاعتدال :1/18، وشذرات الذہب:1/305)
  13. (تاریخ بغداد:6/83)
  14. (تذکرۃ الحفاظ:1/229)
  15. (تاریخ بغداد:6/81)
  16. (طبقات ابن سعد:7/67)
  17. (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو بغدادی :6/184)
  18. (طبقات ابن سعد:7/68)