ابن ابی زکریا طمامی فاسق فاجر نوجوان تھا جس نے خدائی کا دعویٰ کیا۔

خدائی کا دعویٰ ترمیم

البیرونی نے اس کے کچھ حالات بیان کیے ہیں مگر نہ زمانہ بتایا ہے اور نہ مقام خروج ہی پر کچھ روشنی ڈالی ہے۔ ابن ابی زکریا طمامی کو دعوائے خدائی کے بعد بہت کامیابی ہوئی۔ بہت سے لوگ اس کے حلقہ ارادت میں داخل ہو کر اس کو معبود برحق یقین کرنے لگے۔

نکھد عقائد ترمیم

ابن ابی زکریا طمامی نے جو آئین جاری کیا اس میں حکم تھا کہ تمام مرنے والوں کے شکم چاک کر کے اندر خوب صاف کریں اور اس میں شراب بھر کر سی دیں۔ اس کے مذہبی قوانین کا بانکپن ملاحظہ ہو کہ اس نے آگ بجھانے کی ممانعت کر دی تھی۔ حکم تھا کہ جو کوئی آگ کو ہاتھ سے بجھائے اس کا ہاتھ قطع کیا جائے اور جو پھونک مار کر بجھائے اس کی زبان کاٹی جائے۔ اس نے اپنے پیروؤں کو آگ کی پرستش اور تعظیم کی بھی تاکید کر رکھی تھی۔ اس شخص کی شیطنت کا ایک نہایت دل آزار پہلو یہ تھا کہ انبیا سلف اور ان کے اصحاب پر لعنت کرتا اور کہتا تھا کہ وہ سب گم کردگان راہ اور پرفن و عیار تھے۔ البیرونی لکھتے ہیں کہ اس قسم کے اس کے اور بھی بہت سے اقوال ہیں جن کی شرح کتاب اخبار المبیضہ والقرامطہ میں کر چکا ہوں۔

ہم جنس پرستی ترمیم

اس کے مذہب میں اغلام یعنی لواطت جائز تھی۔ یہ حکم تھا کوئی شخص اس فعل میں مبالغہ و شدت سے کام نہ لے۔ جو شخص اس فعل میں غیر محتاط ثابت ہوتا اسے زمین پر لٹا کر بیس گز تک گھسیٹا جاتا تھا اور اس کے آئین مذہب میں لواطت نہ صرف جائز تھی بلکہ واجبات میں داخل تھی اور تارک قتل کا مستوجب تھا۔ چنانچہ اگر کسی شخص کی نسبت ثابت ہو جاتا ہے کہ وہ اغلام سے پہلو تہی کرتا ہے تو اسے قصاب سے ذبح کروا دیا جاتا۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ یہ شخص دنیا کو بے حیائی اور فحش کاری کا گہوارہ بنانا چاہتا تھا۔

انجام ترمیم

اس کی بد اعمالیوں کو شروع ہوئے ابھی تھوڑا ہی عرصہ گذرا تھا کہ خدائے شدید العتاب نے اس پر ایک ایسے شخص کو مسلط کیا جس نے قابو پاتے ہی بکری کی طرح ذبح کر دیا اور اس کی سیاہ کاریوں کا شجر خبیث کشت زار عالم سے بالکل مستاصل ہو گیا۔ اس کے بعد اس کے پیروکار بھی کیفر کردار کو پہنچا دیے گئے۔[1]

حوالہ جات ترمیم

  1. ابو القاسم رفیق دلاوری۔ جھوٹے نبی۔ لاہور: مرکز سراجیہ۔ صفحہ: 351