ابن دقیق العید

تیرہویں صدی عیسوی میں مصر کے شیخ الاسلام، فقیہ ومحدث

شیخ الاسلام، امام المجدد ابن دقیق العید (پیدائش: 22 جولائی 1228ء— وفات: 5 اکتوبر 1302ء) تیرہویں صدی عیسوی میں مصر کے شیخ الاسلام، فقیہ، محدث تھے۔

ابن دقیق العید
(عربی میں: مُحمَّد بن علي بن وهب بن مُطيع بن أبي الطاعة القشيري القوصي ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
معلومات شخصیت
پیدائش 22 جولا‎ئی 1228ء [1][2]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ینبو   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 5 اکتوبر 1302ء (74 سال)[1][2]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قاہرہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب اسلام
فرقہ اہل سنت
فقہی مسلک شافعی
عملی زندگی
استاذ عز بن عبد السلام   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تلمیذ خاص ابو حیان الغرناطی ،  ذہبی   ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ فقیہ ،  قاضی ،  معلم ،  شاعر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل فقہ   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاں الاقتراح فی بیان الاصطلاح   ویکی ڈیٹا پر (P800) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سوانح ترمیم

نسب ترمیم

نام محمد بن علی ہے جبکہ نسب یوں ہے: محمد بن علی بن وہب بن مطیع بن ابی طاعہ المنفلوطی القوصی الثبجی المصری المالکی الشافعی۔ کنیت ابوالفتح ہے۔ القابات تقی الدین، ابن القاضی ہیں۔ابن دقیق صحابی رسول بہز بن حکیم القشیری کی اولاد سے ہیں۔[3][4][5] آپ کی والدہ شیخ الصالح تقی الدین مظفر بن عبد اللہ المقترح کی بیٹی تھیں۔[6]

پیدائش ترمیم

ابن دقیق کی پیدائش 15 شعبان 625ھ مطابق 22 جولائی 1228ء کو بحیرہ احمر کے ساحل پر ینبع کے قریب سمندری سفر کے دوران ہوئی جب اُن کے والدین قوص سے حجاز حج کی ادائیگی کے لیے مکہ پہنچنے والے تھے۔[7]

تحصیل علم ترمیم

آپ کی نشو و نما قوص میں ہوئی، جہاں آپ نے مالکیہ اور شافعی علما سے حدیث کا درس لیا۔قرأت کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انھوں نے فقہ مالکی کی تعلیم اپنے والد سے اور فقہ شافعی کی تعلیم اپنے والد کے اور اُن کے شاگرد بہاء الدین ھبۃ اللہ القفطی سے حاصل کی۔ اِس کے بعد قاہرہ چلے گئے اور وہاں محمد بن عبد السلام، ابو الحسن بن فقیر، ابن الرواج سے علم حدیث کی تحصیل کی۔[8] دمشق میں شیخ ابی العباس احمد بن عبد الدائم بن نِعمہ المقدسی اور ابوالبقاء خالد بن یوسف سے سماع حدیث کیا۔ بعد ازاں اسکندریہ چلے آئے اور یہاں شیخ الحافظ عبد العظیم المنذری (متوفی 656ھ/ 1258ء) ، محمد بن انجب الصوفی بغدادی، ابوعلی الحسن بن محمد التیمی البکری اور ابو الحسن عبد الوہاب بن حسن الدمشقی سے سماع حدیث کا شرف حاصل کیا۔[9] بعد ازاں مصر، بلاد الشام اور حجاز کے علمائے حدیث سے مزید علم حاصل کیا۔ شیخ الاسلام عز بن عبدالسلام (متوفی 660ھ) سے تلمذ شرف حاصل کیا۔ عربی زبان اور فقہ کی تعلیم شیخ شرف الدین محمد بن ابی الفضل المرسی سے حاصل کی۔اپنی والدہ سے بھی سماع حدیث کیا۔اِس نتیجے میں انھیں علم فقہ اور علم حدیث میں ایسی بصیرت حاصل ہوئی جو اُس زمانے میں بہت کم لوگوں کو حاصل تھی۔

مسلک ترمیم

ابن دقیق ابتداً اپنے والد کے زیر اثر مالکی المذہب تھے لیکن بعد ازاں انھوں نے فقہ شافعی کی ہمنوائی اختیار کرلی اور اِس میں مجتہدانہ مقام حاصل کیا۔[10]

مصر میں قیام ترمیم

ابن دقیق اپنے زمانے کے جید عالم تھے جس کی بنا پر حکمران اور سلاطین بھی اُن کا بے حد احترام کیا کرتے تھے۔ علامہ ابن حجر عسقلانی نے لکھا ہے کہ ایک بار جب وہ سلطان حسام الدین لاچین سے ملنے کے لیے اُس کے پاس گئے تو سلطان تخت سے نیچے اُتر آیا اور مؤدب ہوکر اُن سے نیچے ہوکر بیٹھا۔[11] مدت تک وہ اپنے آبائی شہر قوص میں فقہ مالکی کے قاضی رہے لیکن جب وہ قاہرہ چلے گئے تو عہدہ قضا سے دستبردار ہو گئے۔ البتہ 695ھ (1296ء)کے قریب قریب کچھ عرصے تک انھوں نے شافعی قاضی القضاۃ کا عہدہ قبول کر لیا۔[12] اِس عہدے پر وہ کئی سال تک فائز رہے۔ اِس دوران میں انھوں نے متعدد اصلاحی اِقدامات کیے جس سے مصر میں نفاذِ قانون کا عمل بہتر ہوا۔

وفات ترمیم

11 صفر 702ھ مطابق 5 اکتوبر 1302ء کو ابن دقیق العید کا انتقال قاہرہ میں ہوا۔[13] اُن کے جنازہ میں عوام و خواص کی کثیر تعداد شریک ہوئی جن میں مصری امرا اور اعیانِ دولت، خصوصاً نائب السلطنت بھی شامل تھے۔ تدفین قرافۃ الصغریٰ میں اُن کے استاد عز بن عبدالسلام کے پہلو میں کی گئی۔[14]

تالیفات و تصانیف ترمیم

حدیث ترمیم

اَلاِقْتَراح فی بیان الاِصطلاح ترمیم

  • یہ کتاب علم حدیث کی اصطلاحات کے بیان پر مشتمل ہے۔اِس میں ابن دقیق نے محدثین، راویانِ حدیث کے طبقات، کیفیت و سماع و روایت اور احادیث متفق علیہ کی تعریف پر عمدہ انداز میں بحث کی ہے۔ یہ پہلی بار بیروت سے 1406ھ مطابق 1988ء میں شائع ہوئی تھی۔ براکلمان نے اِس کتاب کے قلمی نسخوں کے متعلق لکھا ہے۔[15]

الالمام فی الاحادیث الاحکام ترمیم

  • یہ کتاب ایسی احادیث کے "ضبط" پر مشتمل ہے جو احکام سے متعلق ہیں۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ اِس کتاب کو کتاب الاسلام قرار دیتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ: اِس جیسی کتاب نہیں لکھی گئی۔ اِس کتاب کی اہمیت کے پیش نظر متاخر علمائے حدیث نے اِس کی شروح لکھی ہیں۔ پہلی شرح خود مصنف ابن دقیق نے لکھی ہے جس کا نام الانام شرح الالمام تھا۔ علامہ ابن حجر عسقلانی کے بقول اِس شرح کی 20 جلدیں تھیں۔[16] یہ شرح اب ناپید ہو چکی ہے۔

الاحکام الاحکام شرح عمدۃ الاحکام ترمیم

شرح ترمیم

شرح اربعين النوویہ ترمیم

نُبْذۃُ فی علوم الحدیث ترمیم

اِس کتاب کا ایک قلمی مخطوطہ برطانیہ کے کتب خانہ میں موجود ہے۔[18]

رجال الحدیث ترمیم

رجال الحدیث پر انھوں نے ابوشجاع احمد بن حسن بن احمد اصفہانی کی التقریب کی شرح بعنوان ’’تحفۃ اللبیب فی شرح التقریب‘‘ لکھی۔ اِس کا ایک قلمی مخطوطہ برلن میں موجود ہے جبکہ عکسی نسخہ قاہرہ میں موجود ہے۔[19]

فقہ ترمیم

علم فقہ پر اُن کی دستیاب شدہ کتب یہ ہیں: 

  • شرح مختصر ابن حاجب:  یہ کتاب فقہ مالکیہ سے متعلق فقہی کتاب ہے۔
  • مقدمہ المطرزی فی اُصول الفقہ:  اِس کا تذکرہ علامہ ابن حجر عسقلانی نے الدررالکامنہ میں کیا ہے۔[20]
  • علم فقہ پر ایک مکتوب جو انھوں نے اپنے نائب قاضی اخمیم کے نام لکھا تھا۔ جعفر بن ثعلب الادفوی کی الطالع السعید میں یہ صفحہ نمبر597 تا 599 پر شائع ہو چکا ہے۔[21]

شعر و ادب ترمیم

ابن دقیق العید کو شعر و ادب سے بھی دلچسپی رہی۔ اُن کی شاعری کے موضوعات وصف، دوستوں سے فراق کی کیفیت اور نعت نبوی (بالخصوص علی صاحبھا التحیۃ والسلام) پر مشتمل ہے۔[22][23] کچھ قصائد قلمی صورت میں بغداد، عراق کے ایک کتب خانہ میں موجود ہیں۔

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. ^ ا ب ایف اے ایس ٹی - آئی ڈی: https://id.worldcat.org/fast/162217 — بنام: Muḥammad ibn ʻAlī Ibn Daqīq al-ʻĪd — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  2. ^ ا ب بنام: Muḥammad ibn ʻAlī ibn Daqīq al-ʻĪd — ایس ای ایل آئی بی آر: https://libris.kb.se/auth/191299 — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  3. ابن فرحون المالکی: الدیباج، جلد 2، صفحہ 318۔
  4. شمس الدین الذہبی: المعجم المختص، صفحہ 169۔
  5. ابن حجر عسقلانی: الدرر الکامنہ، جلد 5، صفحہ 350۔
  6. مقدمہ شرح الالمام باحادیث الاحکام، جلد 1، صفحہ 14۔
  7. مقدمہ شرح الالمام باحادیث الاحکام، جلد 1، صفحہ 13۔
  8. صلاح الدین الصفدی: الوافی بالوفیات، جلد 4، صفحہ 193۔
  9. مقدمہ شرح الالمام باحادیث الاحکام، جلد 1، صفحہ 14/15۔
  10. تاج الدین السبکی: طبقات الشافعیہ الکبریٰ، جلد 9، صفحہ 209۔
  11. ابن حجر عسقلانی: الدرر الکامنہ، جلد 4، صفحہ 93۔
  12. ابن کثیر: البدایہ والنہایہ، جلد 14، صفحہ 27۔ تذکرہ سال 695ھ۔
  13. ابن حجر عسقلانی: الدرر الکامنہ، جلد 4، صفحہ 94۔
  14. ابن ایاس الحنفی: بدائع الزھور فی وقائع الدھور، مطبوعہ قاہرہ، 1982ء
  15. تکملہ براکلمان:  جلد 2،   صفحہ 66۔
  16. ابن حجر عسقلانی: الدرر الکامنہ، جلد 4، صفحہ 92۔
  17. براکلمان: تکملہ،  جلد 2،  صفحہ 605۔
  18. براکلمان: جلد 2، صفحہ 75۔
  19. فہرس التمہیدی،  صفحہ 321۔  مطبوعہ قاہرہ،  مصر۔
  20. ابن حجر عسقلانی: الدرر الکامنہ، جلد 4، صفحہ 92۔
  21. جعفر بن ثعلب الادفوی: الطالع السعید، صفحہ 597 تا 599۔ مطبوعہ قاہرہ، مصر، 1966ء
  22. صلاح الدین الصفدی: الوافی بالوفیات، جلد 4، صفحہ 199، 208۔
  23. ادفوی:  الطالع السعید،  صفحہ 583، 595۔ مطبوعہ الحاجری، کویت۔