ابن سنینہ سامری
ابو عبد اللہ محمد بن عبد اللہ (535ھ – 17 رجب 616ھ / 1140ء – 18 ستمبر 1219ء) بن محمد بن ادریس بن سنینہ سامری، ابن سنینہ السامری کے نام سے معروف تھے ۔ وہ ایک ماہر علم فرائض، حنبلی فقیہ اور بڑے قاضیوں میں شمار کیے جاتے تھے۔[2]
ابن سنینہ سامری | |
---|---|
(عربی میں: محمد بن عبد الله بن الحسين السامرّي)[1] | |
![]() |
|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 1140ء [1] سامراء |
وفات | 28 ستمبر 1219ء (78–79 سال)[1] بغداد |
شہریت | ![]() |
عملی زندگی | |
پیشہ | قاضی [1]، فقیہ |
پیشہ ورانہ زبان | عربی |
درستی - ترمیم ![]() |
سیرت
ترمیمابن سنینہ السامری 535ھ میں سامراء میں پیدا ہوئے۔
تعلیم و فقہ
ترمیمانھوں نے ابن البطی (وفات 564ھ)، ابو حکیم النهروانی اور عبد اللطیف بن ابی سعد سے بغداد میں حدیث سنی۔ انھوں نے فقہ کی تعلیم ابو حکیم النهروانی سے حاصل کی اور ان کے شاگرد رہے۔ فقہ اور علم فرائض میں مہارت حاصل کی اور نمایاں مقام پایا۔
مناصب
ترمیم- سامراء میں قضاء کا منصب سنبھالا اور "معظم الدین" کا لقب پایا۔
- کچھ عرصہ بغداد میں قضاء اور حسبہ (معاشرتی نگرانی) کے عہدے پر فائز رہے۔
- بعد میں اس منصب سے معزول ہوئے اور دیوان الزمام کے نگران مقرر کیے گئے۔
اوصاف
ترمیمابن النجار کے بقول:
” | "وہ ایک جلیل القدر شیخ، فاضل، نبیل اور مذہب و اختلافات کا بہترین علم رکھنے والے تھے۔ ان کی تصانیف عمدہ تھیں، لیکن میرا گمان ہے کہ انھوں نے حدیث روایت نہیں کی۔"[3][4][5][6] | “ |
وفات
ترمیمانھوں نے 17 رجب 616ھ (18 ستمبر 1219ء) کی شب بغداد میں وفات پائی۔ ان کی عمر 81 سال تھی۔ ان کی نماز جنازہ اگلے روز نظامیہ مدرسہ میں ادا کی گئی، جس کی امامت عبد العزیز بن دلف نے کی۔ انھیں باب حرب کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔
مؤلفات
ترمیمابن سنینہ السامری کی اہم تصانیف درج ذیل ہیں:
- . المستوعب
ایک جامع کتاب جو فقہ کے مسائل پر مشتمل ہے۔
- . الفروق
فقہ کے مختلف مسائل میں اختلافات اور ان کے اصولی پہلوؤں پر مبنی تصنیف۔
- . البستان
علم فرائض (وراثت کے قوانین) پر ایک اہم کتاب۔