ابن قولویہ
ابن قولویہ قمی (وفات: 367ھ/ 978ء) شیعی محدث، فقیہ تھے۔ابن قولویہ شیعی محدثین شیخ ابن بابویہ قمی اور الکلینی کے استاد ہیں۔ابن قولویہ اپنے زمانے کی ایک جانی پہچانی علمی شخصیت تھے۔ان سے منقول روایات آج تک حدیثی مجوعوں میں ذکر ہوتی ہیں اور ان سے استناد کیا جاتا ہے ۔ شیعہ علما اور فقہا ان کے خاص احترام کے قائل ہیں اور ان کا بہت سے راویوں سے احادیث نقل کرنا ان راویوں کی توثیق کی دلیل سمجھا جاتا ہے ۔
ابن قولویہ | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
مقام پیدائش | قم |
وفات | سنہ 978ء بغداد |
مدفن | مسجد کاظمیہ ، بغداد ، عراق |
شہریت | ![]() |
عملی زندگی | |
پیشہ | عالم ، محدث ، فقیہ ، مورخ ، مصنف |
کارہائے نمایاں | کامل زیارات |
درستی - ترمیم ![]() |
سوانح
ترمیمنام جعفر بن محمد بن جعفر بن موسی بن مسرور بن قولِوَیْہْ قمی ہے۔ ابن قولویہ قمی کے نام سے شہرت پائی جبکہ کنیت ابو القاسم ہے۔ غالباً قم میں پیدا ہوئے۔ سنہ پیدائش معلوم نہیں ہو سکا۔ بچپن سے ہی حصول علم کے لیے اپنے باپ اور بھائی کے درس میں حاضر ہوتے تھے جن کا شمار شیعہ راویوں میں ہوتا تھا۔ 341ھ مطابق 952ء میں ابن قولویہ نے تحصیل علم کے لیے مصر کا سفر اختیار کیا اور وہاں کے علما سے استفادہ کیا۔ امام ابن حجر عسقلانی نے لکھا ہے کہ محمد بن سلیم صابونی نے مصر میں ان سے حدیث نقل کی ہے۔[1]
وفات
ترمیمابن قولویہ کی وفات 367ھ مطابق 978ء میں بغداد میں ہوئی۔ اُن کی تدفین مشہد امام موسیٰ الکاظم معروف بہ الکاظمین میں کی گئی۔آفندی اصفہانی کا خیال ہے کہ ابن قولویہ قم میں مدفون ہیں۔[2]
تصانیف
ترمیم- مزید پڑھیں: کامل الزیارات
کامل الزیارات ابن قولویہ قمی کی مشہور تالیف ہے جس میں فضیلت زیارات، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل بیت کے مزارات و مقابر کی زیارات کے متعلق روایات جمع کی گئی ہیں۔اسے الزیارات، جامع الزیارات اور کامل الزیارة کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔كامل الزيارات شیعہ منابع میں ایک اہم اور معتبر ترین روایات اور دعاؤں کے مجموعے کی حیثیت سے جانی جاتی ہے ۔
تعداد روایات
ترمیمشیعہ فقہ میں ابن قولویہ سے منقول روایات کی تعداد 500 ہے۔ سید ابو القاسم خوئی کی تحقیق کے مطابق 465 روایات میں اُن کا نام جعفر بن محمد بن جعفر بن موسیٰ اور 28 روایات میں اُن کا نام جعفر بن محمد بن قولویہ آیا ہے۔[3]
علما کی آراء
ترمیممزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ ابن حجر عسقلانی: لسان المیزان، جلد 2، صفحہ 125۔
- ↑ آفندی اصفہانی: ریاض العلماء، جلد 6، صفحہ 32۔
- ↑ سید ابو القاسم خوئی: معجم رجال الحدیث، جلد 5، صفحہ 67/68۔
- ↑ نجاشی: رجال نجاشی، صفحہ 123۔
- ↑ علامہ حلی: خلاصۃ الاقوال، صفحہ 88۔