ابو برکات انباری ( 513ھ - 577ھ / 1119ء - 1181ء ) ابو برکات عبد الرحمٰن بن ابی الوفاء محمد بن عبید اللہ بن محمد بن عبید اللہ بن ابی سعید محمد بن حسن بن بن سلیمان انباری، لقب کمال الدین تھا ۔ وہ نحو ، لغت زبان ، ادب اور تراجم کے علماء میں سے تھے ۔ وہ بغداد میں رہے اور وہیں وفات پائی۔

ابو برکات انباری
معلومات شخصیت
پیدائش جون1119ء [1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بغداد ،  محافظہ الانبار [2]  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 26 دسمبر 1181ء (61–62 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بغداد [2]  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
تلمیذ خاص اسماعیل بن علی حظیری   ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ مصنف ،  ماہرِ علم اللسان [2]  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی [1][2]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملازمت مدرسہ نظامیہ (بغداد)   ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

حالات زندگی

ترمیم

یہ شخص بغداد میں رہا اور علم نحو کے اماموں میں شمار ہوتا تھا۔ شافعی فقہ مدرسہ نظامیہ میں پڑھی اور وہیں نحو کے استاد بنے۔ زبان و لغت ابو منصور بن جوالیقی سے سیکھی اور شریف ہبۃ اللہ بن شجری سے استفادہ کیا۔ ادب میں مہارت حاصل کی اور کئی شاگردوں کو عالم بنایا۔ الانباری کا مطلب "الانبار" سے منسوب، جو ایک قدیم قصبہ ہے جو دریائے فرات کے کنارے بغداد سے دس فرسخ کے فاصلے پر واقع ہے۔ اسے "الانبار" اس لیے کہا جاتا تھا کہ کسریٰ یہاں غلے کے گودام (انابير) بنواتا تھا۔ أنابير، نبر (غلے کا گودام) کی جمع ہے۔

ان کی ذات بابرکت تھی، جو بھی ان سے پڑھتا، نمایاں ہو جاتا۔ عمر کے آخری حصے میں دنیا اور اہل دنیا سے کنارہ کش ہو کر علم و عبادت میں مشغول ہو گئے اور نیک سیرت پر قائم رہے۔[3]

مؤلفات

ترمیم

آپ کی درج ذیل تصانیف ہیں:

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — عنوان : اوپن ڈیٹا پلیٹ فارم — بی این ایف - آئی ڈی: https://catalogue.bnf.fr/ark:/12148/cb13483857t — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  2. ^ ا ب پ ت جی این ڈی آئی ڈی: https://d-nb.info/gnd/102370273 — اخذ شدہ بتاریخ: 10 جون 2020
  3. عادل نويهض (1988)، مُعجم المُفسِّرين: من صدر الإسلام وحتَّى العصر الحاضر (ط. 3)، بيروت: مؤسسة نويهض الثقافية للتأليف والترجمة والنشر، ج. الأول، ص. 273