سید احمد چشتی دہلوی (پیدائش:1897ء– وفات: 7 دسمبر 1967ء) اردو زبان کے شاعر تھے۔احمد چشتی اردو زبان کے دبستانِ دہلی سے تعلق رکھنے قدیمی شعرا کے نقشِ قدم پر سخن گوئی کرنے والے متاخر شعرا میں سے تھے۔[1]

احمد چشتی دہلوی
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1897ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
چاندنی چوک ،  دہلی   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 7 دسمبر 1967ء (69–70 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دہلی   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند (1897–15 اگست 1947)
بھارت (15 اگست 1947–7 دسمبر 1967)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاذ نوح ناروی   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ شاعر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سوانح ترمیم

پیدائش و خاندان ترمیم

سید احمد چشتی دہلوی کی پیدائش 1897ء میں دہلی کے کوچہ رحمان، چاندنی چوک میں ہوئی۔ اِس کوچہ میں اردو زبان کے نامور شاعر شیخ قلندر بخش جرات بھی ایک وقت میں آباد تھے۔اِسی محلہ میں داغ دہلوی کا مکان بھی موجود تھا جو 1857ء کی جنگِ آزادی میں برباد ہو گیا تھا۔ احمد چشتی دہلوی کے والد سید کبیر علی چشتی تھے۔ سید کبیر علی چشتی کا اپنا مکان بصورت حویلی شاہدرہ ضلع میرٹھ میں تھا۔ یہ بات اُس زمانہ کی ہے جب شاہدرہ ضلع میرٹھ کا حصہ ہوا کرتا تھا۔ بعد ازاں یہ حویلی نما مکان ایک اسکول میں تبدیل ہو گیا[2]۔سیداحمد چشتی کا خاندان دہلی کے ذی علم اور معزز گھرانوں میں شمار ہوتا تھا۔ اُن کے والد میر سید کبیر علی چشتی بھی شعر و اَدب کے دِلدادہ تھے۔ تفّننِ طبع کی خاطر شعر کہا کرتے تھے اور اُن کا تخلص کبیرؔ تھا، لیکن اُن کی شاعری محض اُن کی ذات تک ہی محدود رہی۔[3]

شاعری ترمیم

احمد چشتی خوش فکر اور اردو کے قدیم انداز کے شاعر تھے۔شاعری میں احمد چشتی کے استاد نوح ناروی تھے جو داغ دہلوی کے شاگرد تھے۔ اِس اعتبار سے احمد چشتی کو داغ دہلوی سے بھی نسبت حاصل ہے۔قلمی دیوان جو اُن کے فرزند محمد سعید چشتی کے پاس محفوظ تھا، کے آغاز میں اُن کے استاد خدائے سخن نوح ناروی کی ایک تحریر مؤرخہ 12 جنوری 1940ء کی موجود ہے، جس سے پتا چلتا ہے کہ سید احمد چشتی تقریباً 1920ء میں اُن کے حلقۂ شاگردی میں شامل ہوئے تھے[2]۔سید احمد چشتی بھی بذاتِ خود ایک گوشہ نشین شاعر تھے اور یہ گوشہ نشینی گمنامی کی حد تک پہنچی ہوئی تھی۔ابتدء میں وہ میر شرافت علی خاں صاحب کُشتہ ؔ اکبرآبادی کے شاگرد تھے۔ اُن کے اِنتقال کے بعد شاعرانہ صلاح و مشورہ کے لیے نوح ناروی سے رجوع کیا اور 1920ء میں اُن کے تلامذہ میں شامل ہو گئے۔نوح ناروی چونکہ داغ دہلوی کے تلامذہ میں سے ممتاز اور قادرالکلامشاعر کی حیثیت رکھتے تھے۔ سید احمد چشتی قدیم انداز کے غزل گو شاعر تھے۔[4]

وفات ترمیم

سید احمد چشتی کی وفات تقریباً سال کی عمر میں 7 دسمبر 1967ء کو دہلی میں ہوئی۔[5]

کتابیات ترمیم

  • سید احمد چشتی دہلوی: سرمایۂ چشتی، مطبوعہ غالب اکیڈیمی، دہلی، 2003ء

حوالہ جات ترمیم

  1. بیسویں صدی کے شعرائے دہلی، جلد 2، صفحہ 691۔
  2. ^ ا ب سرمایۂ چشتی: صفحہ 6۔
  3. بیسویں صدی کے شعرائے دہلی، جلد 2، صفحہ 691۔
  4. بیسویں صدی کے شعرائے دہلی، جلد 2، صفحہ 691۔
  5. بیسویں صدی کے شعرائے دہلی، جلد 2، صفحہ 691۔