اخنس بن شریق بن عمرو
اخنس بن شریق بن عمرو (وفات :10ھ) بن وہب بن علاء بن ابی سلمہ بن عبد العزی بن غیر ہ بن عوف بن ثقیف ثقفی ، ابو ثعلبہ ، بنو زہرہ کے حلیف، جن کا نام ابی ہے۔ یہ صحابی نہیں تھا بلکہ منافق تھا
الأخنس بن شريق بن عمرو | |
---|---|
تخطيط الاسم الأخنس بن شريق بن عمرو.
| |
معلومات شخصیت | |
اولاد | مغیرہ بن اخنس |
درستی - ترمیم ![]() |
اولاد
ترمیمان کا ایک بیٹا مغیرہ ہے جس نے یوم الداری کو عثمان بن عفان کا دفاع کیا اور اسی دن شہید ہوئے۔ [1]
وجہ تسمیہ
ترمیمانھیں الاخنس کہا جاتا ہے کیونکہ وہ بدر سے بنی زہرہ کے ساتھ واپس آئے تھے جب انھیں یہ خبر پہنچی کہ ابو سفیان اونٹ لے کر فرار ہو گیا ہے کہا گیا کہ "اخنس نے بنو زہرہ کے ساتھ خیانت کی ہے" اس لیے اسے یہ نام دیا گیا۔
اسلام
ترمیمابوجہل کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ رات کو چھپ کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قرات سننے آیا. اسی طرح ابوسفیان ابن صخر اور اخنس بن شریق بھی. ایک کو دوسرے کی خبر نہ تھی. صبح تک تینوں چھپ کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن سنتے رہے. دن کا اجالا ہونے لگا تو واپسی میں ایک سنگھم پر تینوں کی ملاقات ہو گئی۔ ہر ایک نے دوسرے سے کہا کہ تم کیسے آئے تھے (جب بات کھلی) تو اب سب نے آپس میں یہ معاہدہ کیا کہ ہم کو قرآن سننے کے لیے نہیں آنا چاہیے. کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمیں دیکھ کر قریش کے نوجوان بھی آنے لگیں اور آزمائش میں پڑجائیں۔ جب دوسری رات آئی تو ہر ایک نے یہی گمان کیا کہ وہ دونوں نہیں آئے ہوں گے، چلو قرآن سن لیں۔ غرض یہ کہ صبح کے قریب تینوں کا سنگھم ہوا اور خلاف معاہدہ ہونے پر ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگا اور دوبارہ معاہدہ کر لیا کہ اب کے نہ جائیں گے۔ تیسری رات آئی تو پھر تینوں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں گئے۔ پھر صبح کے وقت معاہدہ کر لیا کہ آئندہ سے تو ہرگز نہیں آئیں گے. اب اخنس بن شریق ،ابوسفیان کے پاس آیا اور کہنے لگا: اے ابوخنطلہ! تمھاری کیا رائے ہے ؟ تم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے جو قرآن سنا، اس کے بارے میں کیا کہتے ہو ؟ ابوسفیان کہنے لگا: اے ابو ثعبلہ ! اللہ کی قسم میں نے جو باتیں سنی ہیں ، ان کو خوب پہنچانتا ہوں اور اس کا جو مطلب ہے اس کو بھی جانتا ہوں لیکن بعض ایسی باتیں سنی ہیں جن کا مقصد اورمعنی نہ سمجھ سکا. تو اخنس نے کہا: اللہ کی قسم! میری بھی یہی حالت ہے۔ پھر اخنس وہاں سے چل کر ابوجہل کے پاس آیا اور کہنے لگا: اے ابولحکم! محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ سنا تمھاری اس بارے میں کیا رائے ہے؟ اور تم نے کیاسنا ہے؟ تو ابوجہل نے کہا : ہم اور بنوعبد مناف مقام شرف کے حاصل کرنے میں ہمیشہ دست و گریباں رہے ہیں۔ انھوں نے دعوتیں کیں تو ہم نے بھی کیں. انھوں نے خیر و سخاوت کی تو ہم نے بھی کی. حتیٰ کہ ہم تو پاؤں جوڑے بیٹھے رہے اور وہ کہنے لگے کہ ہمارے پاس اللہ کا ایک پیغمبر ہے۔ اس پر آسمان سے وحی اترتی ہے تو اب ہم یہ بات کہاں سے لائیں. اللہ کی قسم! ہم اس پر ایمان نہ لائیں گے اور اس کی پیغمبری کی تصدیق نہیں کریں گے. اخنس یہ سن کر چلا گیا.[2][3].[4] ابن عطیہ نے کہا: یہ کبھی ثابت نہیں ہوا کہ الاخنس نے اسلام قبول کیا ہو اور اس نے اسلام قبول کیا ہو، پھر مرتد ہو گیا ہو اور پھر اسلام قبول کیا ہو۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ ذكره ابن عبد البر في الاستيعاب
- ↑ ذكره أبو موسى عن بن شاهين قال حدثنا محمد بن إبراهيم حدثنا محمد بن يزيد عن رجاله وكذا ذكره ابن فتحون عن الطبري وذكره الذهلي في الزهريات بسند صحيح عن الزهري عن سعيد بن المسيب
- ↑ Baidawi, Volume 2, page 416 pdf!
- ↑ "Shaw University Mosque -Islam, Mosques & NC Muslims eCommunity"۔ 2014-06-30 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2006-07-07