ادیب پشاوری پاکستان کے ایک فارسی زبان شاعر تھے جن کا اصل نام سید احمد بن شہاب الدین رضوی تھا۔ وہ موجودہ خیبر پختونخوا کے شہر پشاور کے نزدیک سنہ 1844ء میں پیدا ہوئے اور اُن کے مطابق وہ مشہور صوفی بزرگ شہاب الدین عمر سہروردی (متوفی 1234ء) کی نسل میں سے تھے۔

ادیب پشاوری
(فارسی میں: احمد ادیب پیشاوری ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائشی نام (فارسی میں: احمد بن شهاب‌الدین رضوی پیشاوری ویکی ڈیٹا پر (P1477) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیدائش سنہ 1844ء [1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پشاور   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 30 جون 1930ء (85–86 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تہران   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رہائش غزنی
کابل
مشہد
سبزوار
تہران   ویکی ڈیٹا پر (P551) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند
سکھ سلطنت
قاجار خاندان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
خاندان ایرانی سادات   ویکی ڈیٹا پر (P53) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شاعر ،  ادیب ،  فلسفی   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان فارسی ،  عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

ذاتی حالات

ترمیم

نوجوانی کے دوران میں ان کے والد اور متعدد رشتے دار برطانویوں اور افغان قبائل کے مابین ہونے والی سرحدی جھڑپوں میں مارے گئے۔ نتیجتاً، ادیب پہلے کابل اور پھر غزنی منتقل ہوئے جہاں انھوں نے ابتدائی تعلیم مکمل کی۔ 1877ء میں وہ ایران ہجرت کر گئے جہاں انھوں نے سبزوار میں واقع حاجی ملا ہادی سبزواری کے مدرسے میں شمولیت اختیار کی اور وہاں وہ فلسفے کے دروس میں حاضر ہوئے۔ بالآخر وہ تہران میں مقیم ہو گئے جہاں وہ اپنی وفات تک رہے۔

شاعری

ترمیم

ادیب کی شاعرانہ تخلیق کم و بیش بیس ہزار اشعار پر مشتمل ہے۔ ان کی وفات کے تین سال بعد شائع ہونے والے انتخابِ کلام میں، جو زیادہ تر غزلوں اور قصیدوں پر مشتمل تھا، 4200 فارسی اور 370 عربی اشعار شامل ہیں۔ انھوں نے قیصرنامہ کے نام سے ایک طویل مثنوی بھی لکھی۔ اسے المانیہ کے بادشاہ قیصر ولہلم ثانی کے نام معنون کیا گیا ہے اور اس میں جنگِ عظیم اول میں المانیہ کے کردار کو سراہا گیا ہے۔ اگرچہ ادیب کا تعلق شعرا کی پرانی نسل سے تھا، لیکن انھوں نے اپنی شاعری میں کچھ جوان ہم عصروں کی طرح نئے معاشرتی و سیاسی خیالات کا اظہار کیا۔ اس طرح انھوں نے فارسی شاعری میں وطن پرور رجحانات لانے میں پیش قدمی کی۔ ان کی ادبی اہمیت ایک پیش رَو کے طور پر ہے، کیونکہ ان کے شاعری میں ایسے رجحانات کا ابتدائی خاکہ نظر آتا ہے جو بعد میں ایران کے آئینی انقلاب کے دور میں نمایاں ہو گئے تھے۔

آخری ایام

ترمیم

ادیب نے اپنی زندگی کے آخری سال خاقانی شروانی، ناصر خسرو، سنائی غزنوی اور مثنویِ معنوی کے مطالعے اور تحقیق میں صرف کیے تھے۔ انھوں نے وفات سے پہلے ارادہ کیا تھا کہ وہ ابنِ سینا کی فلسفیانہ کتاب 'اشارات و تنبیہات' کو فارسی میں منتقل کریں گے، لیکن زندگی نے کتاب کے اتمام تک وفا نہ کی۔ بالآخر 30 جون 1930ء کو وہ انتقال کر گئے۔

حوالہ جات

ترمیم

انسائیکلوپیڈیا ایرانیکا

  1. ایف اے ایس ٹی - آئی ڈی: https://id.worldcat.org/fast/230996 — بنام: Adīb Pīshāvarī — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017

بیرونی روابط

ترمیم