اردشیر دوم
دراثانی کا بیٹا جو دارا ئے دانشمند کے لقب سے ہنحامنشی تخت پر بیٹھا۔ اپنے بھائی سائرس خرد کو جو تخت کا دعوے دار اور ایشائے کوچک کا گورنر تھا شکست دی۔ یونان کی اہم فوجی طاقت سپارٹا کو ہرا کر ذلت آمیز شرائط ماننے پر مجبور کیا۔ مصر اور بابل کی بغاوتیں فرو کیں۔ نہایت رحم دل اور نیک بادشاہ تھا۔ اپنی ظالم ماں پروشات کے کہنے پر اپنی بیٹی اتوسا سے شادی کی۔ ایران کے قدیم دیوتا متھرا (سورج) کی پرستش کو دوبارہ رواج دیا۔ مردم خیزی کی دیوی اناہتیا کے بت جگہ جگہ نصب کیے اور ان دونوں دیوتاؤں کو اہورمزدا (پارسیوں کا خدا) کے ہم مرتبہ قرار دیا۔ اس کا حرم بہت وسیع تھا۔ اور اس کے بیٹوں کی تعداد ایک سو سے زیادہ تھی مگر اس کی موت کے وقت فقط ایک بیٹا زندہ تھا۔
| ||||
---|---|---|---|---|
معلومات شخصیت | ||||
تاریخ پیدائش | سنہ 436 ق مء | |||
وفات | سنہ 358 ق مء تخت جمشید |
|||
مدفن | تخت جمشید | |||
زوجہ | استاتیرا اول | |||
اولاد | اردشیر سوم [1]، آتوسا ، آپاما | |||
والد | دارا دوم [1][2] | |||
والدہ | پروشات [1][2] | |||
خاندان | ہخامنشی خاندان | |||
دیگر معلومات | ||||
پیشہ | بادشاہ | |||
پیشہ ورانہ زبان | قدیم فارسی [3] | |||
درستی - ترمیم |
اس کے علاوہ ارد شیر دوم 379ء۔ 383ء میں ایک غیر معروف ساسانی بادشاہ بھی تھا۔ ارتخشتر یا اردشیر دوم (404۔ 359 ق م)2ed Artaxerxes or Ardsher درا دوم کے بعد اس کا بڑا بیٹا ارشک اردشیر دوم کے لقب سے بادشاہ بنا۔ اس کابھائی خورس اردشیر کو قتل کرنے کی فکر میں تھا کہ اس ایک امیر اور مدبر تسیافرن نے یہ راز افشا کر دیا۔ ارد شیرنے اس کو قتل کرنے کا حکم دے دیا، مگر اس کی ماں نے بیٹے کو راضی کر لیا کہ وہ چھوٹے بھائی کو معاف کر دے اور اس کو اسے اپنے عہدے پر برقرار رکھتے ہوئے ایشائے کوچک بھیج دے۔ حالانکہ یہ دوربینی کے خلاف تھا۔ خورس نے ایشائے کوچک پہنچتے ہی یونانی اجیروں کی ایک فوج بھرتی کرنی شروع کی جس کا سالار کلارخ Clarchus تھا۔ ان تیاریوں کے ساتھ وہ تقریباََ دو لاکھ فوج لے کر بابل بھائی کے خلاف جنگ کے لیے بڑھا۔ کوناکسا Cunaxa جو بابل کے قریب تھا جنگ ہوئی، یونانی فوج نے شاہی فوج کو گویا شکست دے دی تھی کہ پانسا پلٹ گیا خورس اردشیر کو سامنے دیکھ کر اس پر ٹوٹ پڑا اور اسے زخمی کر دیا، مگر اس کے ساتھ ہی شاہی دستے نے اس کا کام تمام کر دیا۔ خورس کی موت کے بعد یونانی فوج کو اسلحہ رکھ دینے کا حکم دیا گیا مگر اس نے انکار کر دیا۔ شاہی فوج ان سے مقابلے کی ہمت نہیں کرسکی، بادشاہ کو انھیں واپس جانے کی اجازت دینی پڑی۔ راستے میں تسیافرن نے کلارخ اور دوسرے سالاروں کو دھوکا دے کر گرفتار بھی کر لیا، مگر پھر بھی انھوں نے ہتھیار نہیں ڈالے اور زنوفن Xenophon اور دوسرے سرداروں کی قیادت میں واپس لوٹ گئے۔ اس جنگ نے یونانیوں کو دلیر بنا دیا، انھوں نے ایرانی فوج کی کمزوریوں اور داخلی ضعف کا پوری طرح اندازہ کر لیا اور آئندہ سکندر اعظم نے اس تجربہ سے پوری طرح فائدہ اٹھایا۔ اس واقعہ کے بعد قدرتاََ ایران اور اسپارٹا کے حلیفانہ تعلقات ختم ہو گئے۔ اہل اسپارٹانے ایشائے کوچک کے ایرانی مقبوضات ختم کرانے کی کوشش کی، مگر وہ ایتھنز کی کشمکش کی وجہ سے کامیاب نہیں ہو سکے۔ دوسری طرف ایتھنزنے ایران سے دوستانہ تعلقات قائم کرلئے۔ ایرانی حکومت نے بھی ایتھنزکی حمایت شروع کردی، اس طرح اس نے اپنے وقار کو گرنے سے بچالیا۔ اردشیرنے ایک فرمان کے ذریعے اعلان کر دیا کہ ایشائے کوچک اور قبرص ایرانی سلطنت میں شامل ہے۔ اس طرح کالیاس کے صلح کو ختم کر دیا۔ 454 ق م میں لغابیش نے یونانیوں اور ایناروس کو شکست دے کر مصر پر دوبارہ تسلط قائم کر لیا تھا۔ اس شورش کے بعد گو شورش ڈب گئی مگر کلیتاََ ختم نہیں ہوئی اور مصریوں نے ایک دوسرے سردار عمر طیو س Ameytaeus کی سرکردگی میں گوریلا جنگ جاری رکھی۔ جس کا سلسلہ دارا دوم کے عہد میں جاری رکھا، دارا دوم کے عہد میں 504 ق م میں عمر طیوس کے پوتے جس کا نام بھی عمر طیوس تھا، باضابطہ اپنی بادشاہت کا اعلان کر دیا۔ گویا وہ پورے مصر میں اپنا سکہ نہیں بیٹھا سکا، کوناکسا Cunaxaکی لڑائی میں مصری فوجیں موجود تھیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کا کچھ حصہ ایران کے قبضے میں تھا۔ مصر کے انتیسویں خاندان کے پہلے بادشاہ نیفاؤروت یا نیفاؤرود Naifoairut نے مصر کو کلیتہً ایران کے تسلط سے آزاد کرالیا۔ اس نے ہر اس سازش اور بغاوت کی ہمت افزائی کی جو ایرانی حکومت کو الجھن میں ڈال سکے۔ اس کے جانشینوں نے اس پالیسی پر عمل کیا۔ مصر کی خوش قسمتی تھی کہ کوناکساکی جنگ کے بعد ایشائے کوچک میں مختلف قبائل نے شورشیں پرپا کررکھیں تھیں۔ دوسری طرف قبرص میں اواگورس Evagoras نے یونانیوں اور مصر کی حمایت حاصل کرکے بغاوت کردی اور ایرانی حکومت کے لیے مستقل خطرہ بن گیا۔ ایرانی حکومت نے ایسی حالت میں ایک طرف ایتھنزسے تعلقات استوار کیا اور دوسری طرف اوارگوس کو رعایت دے کر مصحالت پر راضی کولیا۔ سلامس Slamasa پر اور گورس کا قبضہ شاہ کے لقب کے ساتھ تسلیم کر لیا گیا۔ ان تمام الجھنوں سے نجات پانے کے بعد 379 ق م ارد شیر نے ایک بڑی فوج مصر پر چڑھائی کے لیے بھیجی، اس فوج کا سالار فرناباز Pharnabazus تھا اور اس فوج میں یونانی دستہ مشہور اتھنی جنرل افکراٹس Iphicratisکی سرکردگی میں تھا۔ مصریوں نے شکست کے آثار دیکھ کر ممفیہ کے بند کو ٹور کر ارد گرد کی زمین کو زیر آب کر دیا۔ اس کے علاوہ ایرانی اور یونانی سالاروں میں اختلاف ہو گیا تھا، اس لیے ایرانیوں کو واپس آنا پڑا۔ اسی زمانے میں کے کادوسیان Cadassians نے بغاوت کردی، ان کی قزاقانہ جنگ سے شاہی فوج سخت تنگ آگئی، آخر ان کے دو سرداروں کو آپس میں لڑا کر انھیں اطاعت قبول کرنے پر راضی کر لیا۔ ارد شیر دوم کی آخر عمر حرم کی سازشوں کی وجہ سے نہایت تلخ گذری۔ اس چھالیس سال حکومت کرنے کے بعد اس کا انتقال 359 ق م میں ہو۔ اس کے بعد اس کا بیٹا اوخوس ارد شیر سوم کے لقب سے تخت پر بیٹھا۔[4]
ویکی ذخائر پر اردشیر دوم سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |