اسماعیل بن عیاش
معلومات شخصیت
وجہ وفات طبعی موت
رہائش حمص ، دمشق ،بغداد ، حجاز
شہریت خلافت عباسیہ
کنیت ابو عتبہ
عملی زندگی
ابن حجر کی رائے ثقہ
ذہبی کی رائے ثقہ
نمایاں شاگرد محمد بن اسحاق ، سفیان ثوری ، لیث بن سعد ، سلیمان بن مہران اعمش

نام و نسب ترمیم

اسمٰعیل نام اور ابو عتبہ کنیت تھی،جتنے نسب نامہ کا ذکر ملتا ہے وہ صرف یہ ہے، اسماعیل بن عیاش بن سلیم [1]نسباعنسی اور وطناً حمصی مشہور ہیں، عنس بن مالک بن اود، یمن کے رہنے والے تھے؛ لیکن ان کے خاندان کی ایک بڑی جماعت شام منتقل ہو گئی اوروہیں مستقل بود وباش اختیار کرلی تھی [2]اغلب یہ ہے کہ انہی منتقل ہونے والوں میں عیاش بن سلیم بھی رہے ہوں گے۔

وطن اور ولادت ترمیم

بروایت صحیح ابو عتبہ 102 ھ میں پیدا ہوئے،مولد کے بارے میں کوئی تصریح تو نہیں ملتی لیکن الحمصی کی نسبت سے قیاس کیا جاتا ہے کہ ان کی ولادت کا شرف سرزمینِ حمص کو حاصل ہوا،یہ شام میں دمشق وحلب کے درمیان ایک مشہور شہر ہے۔

تحصیلِ علم ترمیم

تحصیلِ علم میں غیر معمولی جانکاہی اورمحنت ومشقت ائمہ سلف کا مشترک تمغۂ امتیاز تھا،ابو عتبہ بھی اس کا مجسم پیکر تھے، انھوں نے نہ صرف شام کے تمام مشاہیر اورماہر فن علما سے اکتساب علم کیا ؛بلکہ عراق اورحجاز وغیرہ دوسرے ملکوں کا سفر کرکے وہاں کے بھی ممتاز فقہا و محدثین کے سامنے زانوے تلمذ تہ کیا، کسی کام کے لیے طلب صادق اور سچی لگن انسان کو کمال کی انتہائی رفعتوں تک پہنچا دیتی ہے،ا بو عتبہ نے انہی اوصاف سے سرشار ہوکر تحصیل علم کی راہ میں تن من کے ساتھ دھن دولت کو بھی قربان کر دیا تھا۔ چنانچہ تحدیث نعمت کے طور پر خود ہی بیان کرتے ہیں: ورثت من ابی اربعۃ الان دینارا نفقتھا فی طلب العلم [3] مجھے اپنے والد سے چار ہزار دینار وراثت میں ملے تھے میں نے ان سب کو تحصیلِ علم میں خرچ کر دیا۔

جلالتِ علم و علوئے مرتبت ترمیم

تحصیل علم میں اسی محنتِ شاقہ اورعرق ریزی کا نتیجہ تھا کہ وہ معدنِ علم کے گوہر شب چراغ شمار ہوئے اور زبان خلق نے نقارۂ خدا بن کر انھیں محدث الشام اور مفتی اھل الحمص کے خطاب سے نوازا ،بالخصوص شامی شیوخ کی روایات کے بارے میں ابو عتبہ کا پایہ نہایت ارفع واعلیٰ ہے اوراس سلسلہ میں بالاتفاق انھیں مستندترین اورثقہ ترین قرار دیا جاتا ہے،علامہ خزرجی ان کو عالم الشام واحد مشائخ الاسلام اورحافظ ذہبی الامام محدث الشام ومفتی اھل الحمص لکھتے ہیں [4]ابوزرعہ کا بیان ہے: لم یکن بالشام بعد الاوزاعی مثلہ [5] امام اوزاعی کے بعد شام میں اسمعیل بن عیاش کے مثل کوئی نہ تھا۔

حدیث ترمیم

اسماعیل حدیث اورفقہ دونوں میں مہارت رکھتے تھے،لیکن حدیث میں انھیں خصوصی درک حاصل تھا،ان کے اساتذہ حدیث میں مختلف ملکوں کے ائمہ شامل ہیں جن میں ہشام بن عروہ ،یحییٰ بن سعد الانصاری،شرجیل بن مسلم،بجیربن سعد، تمیم بن عطیہ،زید بن اسلم، محمد بن زیاد الالہانی،صفوان بن عمرو، عبد الرحمن بن جبیر، ثوربن یزید،حبیب بن صالح ،حجاج بن ارطاۃ،صالح بن کیسان، سہیل بن ابی صالح کے نام لائق ذکر ہیں۔ [6] فقہ میں انھیں امام اوزاعی سے تلمذ حاصل تھا،جو اپنی غیر معمولی مہارت فقہی کی بنا پر فقیہ الشام کے لقب سے ذکر کیے جاتے ہیں، ابو عتبہ نے فقہ میں انہی سے پورا پورا فائدہ اٹھایا اورپھر خود بھی حمص میں افتاء کی خدمات انجام دیں۔ خود اسمعیل بن عیاش سے مستفید ہونے والوں میں لیث بن سعد، ولید بن مسلم ،معتمر بن سلیمان،عبد اللہ بن مبارک،ابوداؤد الطیاسی،حجاج الاعور،شبانہ بن سوار، حسن بن عرفہ ،سعید بن منصور، مناد،محمد بن بکار اورداؤد بن عمرو ممتاز ہیں [7]امام اعمش اور ابنِ اسحاق ان سے روایت کرتے ہیں۔

جرح و تعدیل ترمیم

اسماعیل بن عیاش کی روایات دو طرح کی ہیں ایک تو وہ جو انھوں نے شامی شیوخ سے بیان کی ہیں اور دوسری غیر شامی یعنی حجاز وعراق وغیرہ ممالک کے شیوخ کی روایات،نوعِ اول کے بارے میں علما جرح و تعدیل بالاتفاق ان کو ثقاہت وعدالت اورتثبت واتقان میں بلندمقام دیتے ہیں؛چنانچہ ابن مدینی کہتے ہیں۔ ماکان احد اعلم بحدیث اھل الشام من اسماعیل بن عیاش اہل شام کی روایت کو اسماعیل بن عیاش سے زیادہ جاننے والا کوئی نہ تھا۔ یحییٰ بن معین سے ان کے بارے میں سوال کیا گیا تو فرمایا: عن الشامیین حدیثہ صحیح [8] شامیوں سے ان کی روایت صحیح ہے یعقوب بن سفیان کا بیان ہے: اسماعیل ثقۃ عدل اعلم الناس بحدیث الشام اسمعیل ثقہ عادل ہیں نیز اہل شام کی روایت کا لوگوں میں سب سے زیادہ علم رکھتے تھے محمد بن عثمان کا قول ہے: اسماعیل ثقۃ فیماروی عن الشامیین اہل شام کی روایت کے بارے میں اسمٰعیل ثقہ ہیں لیکن وہ روایتیں جو اسمٰعیل نے غیر شامی علما ومشائخ سے بیان کی ہیں،ان کے بارے میں محققین اورماہرین فن انھیں غیر مقبول اورضعیف قرار دیتے ہیں، اس کے اسباب علل کا کوئی واضح ذکر نہیں ملتا، علامہ ذہبی نے جو سبب بیان کیا ہے وہ بالکل ناکافی ہے،علامہ موصوف رقمطراز ہیں: کان من اوعیۃ العلم الا انہ لیس بمتقن لما سمعہ بغیر بلدہ کانہ کان یعتمد علیٰ حفظہ فوقع خلل فی حدیثہ عن الحجاربین وغیرھم [9] وہ علم کا ظرف تھے لیکن غیر شامیوں سے انھوں نے جو سماع حاصل کیا تھا اس میں وہ غیر ثقہ ہیں کیونکہ وہ اپنے حافظہ پر زیادہ اعتماد کرتے تھے،اس لیے اہل حجاز وغیرہ کی روایات میں ضعف پیدا ہو گیا۔ جب علما ان کی ذہانت وفطانت اورمحیر العقول قوتِ حافظہ پر متفق اللسان ہیں اورانہیں اس خصوصیت میں امام وکیع کا ہم پلہ قرار دیتے ہیں تو پھر غیر شامی شیوخ سے ان کی مرویات میں خلل تضعیف کا قوی سبب نہیں ہو سکتا، ممکن ہے اس کا کوئی دوسرا سبب ہو۔

قوتِ حافظہ ترمیم

ابن عیاش کا حافظہ نہایت قوی تھا،ہزاروں حدیثیں انھیں زبانی ازبر تھیں ،یزید بن ہارون کہتے ہیں: مارایت شامیاً ولا عراقیا احفظ من اسماعیل بن عیاش [10] ادری ما الثوری [11] میں نے اسماعیل بن عیاش سے زیادہ قوتِ حافظہ رکھنے والا کسی بھی شامی یا عراقی عالم کو نہیں پایا، میں جانتا بھی نہیں تھا کہ ثوری کیا چیز ہیں۔ داؤد بن عمر کا بیان ہے: ماحدثنا اسمعیل الامن حفظہ وکان یحفظ نحوا من عشرین الف حدیث [12] انہی کا قول کان اسما عیل یحدثنا من حفظہ مارایت معہ کتاباً قط [13] اسماعیل ہم سے اپنے حافظہ سے حدیث بیان کرتے تھے میں نے ان کے ساتھ کبھی کوئی کتاب نہیں دیکھی۔ امام احمد بن حنبل نے ایک مرتبہ داؤد بن عمر سے دریافت کیا کہ اسماعیل بن عیاش کو کتنی حدیثیں یا د تھیں، فرمایا بہت زیادہ،انھوں نے پھر پوچھا کیا دس ہزار؟فرمایا نہیں تیس ہزار یہ سن کر امام احمد نے فوراً کہا کہ بخدا یہ تو امام وکیع کی مثال ہے جو قوتِ حافظہ میں ضرب المثل تھے۔ [14]

کثرتِ عبادت ترمیم

ابن عیاش عالم با عمل تھے،درس و تدریس کے علاوہ شب وروز کے تمام کے تمام اوقات ذکر وفکر اورعبادت وریاضت میں گزار تے ،ابوالیما ن عینی شہادت دیتے ہیں کہ کان منزلہ الی جنب منزلی فکان یحی اللیل [15] اسماعیل بن عیاش کا گھر میرے پڑوس میں تھا وہ شب بیداری کرتے تھے۔

مناقب ترمیم

ان کی پوری زندگی گوناگوں مناقب محامد سے معمور تھی ،علم و فضل ،ورع وتقویٰ عبادت ریاضت ،اخلاق ومعاملات ،شرافت ونیک نفسی غرض ہر حیثیت سے وہ ایک مثالی اورمعیاری انسان تھے،علامہ ذہبی رقمطراز ہیں: ومناقبہ کثیرۃ [16] پھر تذکرہ میں لکھتے ہیں: کان محتشماً تبیلاً جوادا وکان من العلماء العالمین [17] وہ نہایت باعزت،شریف اورسخی تھے اور عالم با عمل تھے۔ یحیی الو عاظی کا بیان ہے کہ مارایت اکبر نفساً من اسماعیل بن عیاش کان اذا اتینا مرزعتہ لا یرضی لنا الا بالخروف والحلوا [18] میں نے اسماعیل بن عیاش سے زیادہ بلند ظرف کسی کو نہیں دیکھا،جب ہم ان کے پاس کھیت پر ملنے جاتے تو حلواء اور تازہ پھل ضرور کھلاتے تھے۔ ان کے مناقب ہی کے ذیل میں یہ کارنامہ بھی لائقِ ذکر ہے کہ اہل حمص ان کی پیدائش سے قبل حضرت علیؓ کی تنقیص علی الاعلان بکثرت کرتے تھے،جب ابن عیاش نے سنِ شعور کو پہنچ کر یہ فتنہ دیکھا تو اہلِ شہر میں حضرت علیؓ کے فضائل ومناقب کی تبلیغ شروع کردی جس کا خاطر خواہ نتیجہ نکلا اورپھر اس تنقیص کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ [19]

وفات ترمیم

باختلافِ روایت 81 ھ یا 82ھ میں انتقال فرمایا[20] علامہ ذہبی نے اول الذکر اسی کو اصح قرار دیا ہے، وفات کے وقت 80 سال کی عمر تھی۔ [21]

حوالہ جات ترمیم

  1. (خلاصہ تذہیب التہذیب الکمال:35)
  2. (کتاب الانساب للسمعانی :401)
  3. (تذکرۃ الحفاظ:1/231،ومیزان الاعتدال:1/11)
  4. (خلاصہ تذہیب الکمال:35 والعبر فی خبر من عنبر:1/279)
  5. (میزان الاعتدال:1/113)
  6. (تہذیب التہذیب:1/322،وتذکرۃ الحفاظ:1/230)
  7. (تہذیب التہذیب:1/322 تذکرۃ الحفاظ:1/230)
  8. (میزان الاعتدال:1/113)
  9. (تذکرۃ الحفاظ:1/230)
  10. (تذکرۃ الحفاظ :1/230)
  11. (ایضاً)
  12. (العبرفی خبر من عنبر:1/279)
  13. (العبرنی خبر من غنبر:1/279)
  14. (تہذیب التہذیب:1/322)
  15. (میزان الاعتدال:1/111)
  16. (العبر:1/279)
  17. (تذکرۃ الحفاظ:1/230)
  18. (میزان الاعتدال:1/111)
  19. (میزان الاعتدال1/111)
  20. ( تہذیب التہذیب:1/325)
  21. (تذکرۃ الحفاظ :1/231)