اسیر صحابی رسول تھے۔ ان کے بارہ میں صرف اس قدر معلوم ہے کہ آنحضرتﷺ کے صحابی تھے، مگر اس گمنامی کے باوجود ان کی زندگی سبق سے خالی نہیں ہے۔

حضرت اسیرؓ
معلومات شخصیت

سبق آموز ترمیم

امتِ اسلامیہ کے اتحاد و اتفاق کو سب سے زیادہ قیمتی سمجھتے تھے اور اختلافات اور تفریق سے بچنے کے لیے ناگوار امور بھی برداشت کر لیتے تھے، یزید جیسے پلید کے زمانہ میں زندہ تھے اور امت کے اتحاد و اتفاق کی خاطر یزید کی نا اہلیت کو مانتے ہوئے اس ملعون کی بیعت میں مضائقہ نہ سمجھتے تھے۔

واقعہ ترمیم

اسی زمانہ میں کچھ لوگ ان کے پاس آئے، انھوں نے ان سے کہا، لوگ کہتے ہیں کہ یزید اس امت کا بہتر شخص نہیں ہے، عقل و فراست سے بھی خالی ہے، شرافت کے لحاظ سے بھی وہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا، فرمایا: میں ان تمام باتوں کو مانتا ہوں، لیکن مجھ کو رسول اللہ ﷺ کی امت کے تشتت و افتراق کے مقابلہ میں اس کا اتحاد و اتفاق زیادہ عزیز ہے، اگر تمام امتِ محمدی ایک دروازہ میں داخل ہو جائے، تو کیا اس میں ایک شخص کی گنجائش نہیں رہے گی، لوگوں نے کہا کیوں نہیں، پھر پوچھا اگر امتِ مسلمہ کا ہر شخص یہ عہد کر لے کہ میں اپنے بھائی کا خون نہ بہاوں گا اور اس کے مال پر دست درازی نہ کروں گا، تو کیا اس کا یہ عہد حق بجانب نہ ہوگا، لوگوں نے جواب دیا ضرور ہوگا، فرمایا میں بس یہی تو کہتا ہوں۔

پھر آنحضرتﷺ کا یہ فرمان سنایا کہ: "جیسا ہر حالت میں بہتر ہے" ایک شخص نے کہا میں نے لقمان کے قصص میں دیکھا ہے کہ بعض حیا کمزوری ہوتی ہے اور بعض حیا وقار، قولِ رسول کے مقابلہ میں لقمان کا قول سن کر سخت برہم ہو گئے، فرطِ غضب میں ہاتھ تھر تھرانے لگا اور اس شخص سے کہا تم میرے گھر سے نکل جاؤ، تم کو یہاں کس نے بلایا تھا، ایک شخص نے کسی طرح ان کا غصہ ٹھنڈا کیا۔[1]

حوالہ جات ترمیم

  1. (طبقات بن سعد،جلد1،قسم1:47)