افغانستان کے لغوی معنی افغانوں کی سرزمین کے ہیں۔[1] یہ لفظ افغان سے بنا ہے۔ تاریخی طور پر لفظ افغان کا اطلاق پشتون پر ہوتا ہے جو افغانستان کی سب سی بڑی نسلی آبادی ہے۔ [1][2][3] افغانستان نام کا سب سے پہلا حوالہ دسویں صدی کی جغرافیہ کی کتاب حدود العالم میں ملتا ہے۔[4] لفظ افغانستان کا دوسرا حصہ -ستان ایک فارسی لاحقہ ہے جس کے معنی جگہ، زمین یا سرزمین کے ہیں۔

انیسویں صدی کے اوائل میں افغان سیاست دانوں نے درانی سلطنت کے لیے لفظ افغانستان کا انتخاب کیا کیونکہ اس لفظ کا انگریزی ترجمہ پہلے ہی قاجار خان اور برطانوی راج کے ساتھ معاہدوں میں استعمال کیا جا چکا تھا۔ [5] 1857ء میں فریڈرک اینگلز اپنی کتاب جنگ افغانستان میں افغانستان کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

افغانستان فارس اور ہند کے درمیان میں ایشیا کا ایک وسیع ملک ہے، دوسری جانب سے یہ ہندو کش اور بحر ہند کے درمیان میں پڑتا ہے۔ اس کے صوبہ جات میں فارس کا صوبہ خراسان، کشمیر اور سندھ شامل ہیں، خطہ پنجاب کا ایک حصہ بھی شامل ہے۔ اور اس کے مرکزی شہر کابل، غزنی، پشاور اور قندھار ہیں۔“[6]

اینگلو-افغان معاہدہ 1919ء کے بعد افغانستان کو ایک خود مختار ریاست کا درجہ دے دیا گیا۔[7][8]

افغان کاری

ترمیم

یہ بات اب مسلم ہے کہ پشتون اور افغان ایک دوسرے کے مترادف ہیں۔[2] ایسا ہی کچھ پشتون کے قومی شاعر خوشحال خان خٹک نے لکھا ہے۔

اپنی تلوان میان سے باہر کرو اور مارو ان سب کو

جو کہتے ہیں کہ پشتون اور افغان ایک نہیں ہیں! یہ ایسی بات ہے جس کا اعتراف عرب بھی کرتے ہیں اور رومن بھی۔ افغان ہی پشتون ہیں اور پشتون ہی افغان ہیں۔[9]

افغان کاری یا پشتون کاری کا سلسلہ آٹھویں صدی سے موجودہ افغانستان اور مغربی پاکستان میں چلا۔ یہ ایک ثقافتی اور لسانیاتی عمل ہے جس کے ذریعے غیر پشتون پشتون بن جائیں یا غیر افغان افغان بن جائیں۔

آٹھویں اور نویں صدی میں موجودہ ترک زبانیں بولنے والے افغان کے اجداد سلسلہ کوہ ہندوکش کے علاقے میں آباد ہوئے اور وہاں پر موجود پشتون قبائل سے ان کی زبان اور تہذیب سیکھنی شروع کی۔[10]

افغان خاندان

ترمیم
 
شمالی ہند کی افغان لودھی سلطنت

محمود غزنوی کے معتمد نے ایک کتاب تاریخ یمینی میں لکھا ہے کہ سلطنت غزنویہ کے بادشاہ سبکتگین کے دربار میں دسویں صدی میں افغانیوں کو جگہ ملی[11] جسے بعد میں غوری خاندان کے دور میں بھی جاری رکھا گیا۔ [12] 1290ء میں جب خلجی خاندان کا سورج طلوع ہوا تو افغان کی قسمت بھی چمکنے لگی اور بھارت کی سلطنت دہلی میں ان کو ایک نئی پہچان ملی۔ بعد کی لودھی سلطنت اور سوری سلطنت نے دکھلایا کہ کس طرح افغان ترقی کرتے کرتے حکمران بن گئے جن کی حکومت مشرق میں بنگلہ دیش تک پھیلی ہوئی تھی۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب Erinn Banting (2003)۔ Afghanistan: The land۔ Crabtree Publishing Company۔ صفحہ: 4, 32۔ ISBN 978-0-7787-9335-9۔ 31 دسمبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  2. ^ ا ب Ch. M. Kieffer (15 دسمبر 1983)۔ "Afghan"۔ Encyclopædia Iranica (online ایڈیشن)۔ Columbia University۔ 16 نومبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  3. "General Information About Afghanistan"۔ Abdullah Qazi۔ Afghanistan Online۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 ستمبر 2010 
  4. Willem Vogelsang (2002)۔ The Afghans۔ Wiley Blackwell۔ صفحہ: 18۔ ISBN 0-631-19841-5۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 اگست 2010 
  5. E. Huntington, "The Anglo-Russian Agreement as to Tibet, Afghanistan, and Persia"، Bulletin of the American Geographical Society, Vol. 39, No. 11 (1907)۔
  6. فریڈرک اینگلز (1857)۔ "Afghanistan"۔ Andy Blunden۔ The New American Cyclopaedia, Vol. I۔ 27 اپریل 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 اگست 2010 
  7. M. Ali, "Afghanistan: The War of Independence, 1919"، 1960.
  8. Afghanistan's Constitution of 1923 under امان اللہ خان (English translation)۔ آرکائیو شدہ اکتوبر 6, 2013 بذریعہ وے بیک مشین
  9. Extract from "Passion of the Afghan" by خوشحال خان خٹک; translated by C. Biddulph in Afghan Poetry Of The 17th Century: Selections from the Poems of Khushal Khan Khattak، London, 1890.
  10. "Islamic Conquest"۔ Craig Baxter۔ کتب خانہ کانگریس مطالعہ ممالک on افغانستان۔ 1997 
  11. "Ameer Nasir-ood-Deen Subooktugeen"۔ محمد قاسم فرشتہ، History of the Rise of Mohammedan Power in India, Volume 1: Section 15۔ Packard Humanities Institute۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 دسمبر 2012۔ The پشتون and Khaljies who resided among the mountains having taken the oath of allegiance to سبکتگین، many of them were enlisted in his army, after which he returned in triumph to غزنی 
  12. M. Th. Houtsma (1993)۔ E.J. Brill's first encyclopaedia of Islam 1913–1936۔ BRILL۔ صفحہ: 150–51۔ ISBN 90-04-09796-1۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 اگست 2010