امام حسین کا ساتھ دینے والے صحابہ کی فہرست

'
امام حسین کا ساتھ دینے والے صحابہ کی فہرست میں ان صحابہ کرام نبوی کا ذکر ہے۔ جنھوں نے اسلام کو مکمل سمجھا اور قرآن و اہل بیت کو مضبوطی سے تھامے رکھا اور پنج تن پاک سے اپنی الفت اور محبت کا ہر دور میں عملی ثبوت پیش کیا۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عظیم الشان صحابہ کرام رَضوان اللہُ تعالیٰ اجمعین کی کثیر تعداد نے ہر دور میں اسلام کے لیے قربانیاں پیش کی ہیں۔ قیام امام حسین میں بھی صحابہ کرام نے بھرپور قربانیاں پیش کی ہیں۔ صحابہ کرام میں سے بعض اصحاب کربلا میں پہنچ کر علی الاعلان یزید کے باطل اعمال و نظریات کے خلاف جنگ کرتے ہوئے شہید ہوئے تو بعض کربلا سے قبل کوفہ یا دیگر مقامات پر امام حسین علیہ السلام کی حمایت کے جرم میں یزیدی کارندوں کے ہاتھوں شہید کر دیے گئے نیز بعض اصحاب جو کسی نہ کسی وجہ کی بنا پر واقعہ کربلا میں شریک نہ ہو سکے تھے نے بھی امام حسینؑ کی شہادت کے بعد یزید کے مظالم کے خلاف آواز بلند کی اور امام حسینؑ کے عظیم قیام کی حمایت میں قیام کیا اور جانیں قربان کرکے ثابت کیا کہ اس راہ میں موت شہادت و سعادت کی موت ہے۔

شہدائے کربلا و کوفہ ترمیم

مولا امام حسین کے قیام کے دوران میں شہید ہونے والے جلیل القدر عظیم بزرگ صحابہ کرام رَضوان اللہُ تعالیٰ اجمعین جو بے پناہ مشکلات اور رکاوٹوں کے باوجود اور عالم اسلام کی بد ترین اور ظالم ترین حکومت کی قید و بند اور قتل و غارت کے شدید ترین اقدامات کی پروا کیے بغیر، اپنے بڑھاپے اور دنیوی مجبوریوں کو بالائے طاق رکھ کر کاروان حسینی سے ملحق ہوئے اور حق کا ساتھ دیتے ہوئے اپنی جان حق کی راہ میں نچھاور کی اور اپنے سالار کارواں کے ساتھ اپنے خون سے تا روز قیامت حق و باطل کے درمیان میں واضح لکیر کھینچ دی اور تمام انسانیت کے لیے معیار حق بن گئے۔

اسلم بن کثیر الازدی(یامسلم بن کثیر) ترمیم

اسلم بن کثیر صحابی تھے زیارت ناحیہ میں ان کا نام اسلم ذکرہوا ہے جبکہ کتب رجال میں بجائے اسلم کے مسلم بن کثیر الازدی الاعرج بیان ہوا ہے زیارت ناحیہ کے جملات یوں ہیں: السلام علیٰ اسلم بن کثیر الازدی الاعرج۔۔۔ [1] مرحوم زنجانی نقل کرتے ہیں کہ یہ صحابی رسولؐ تھے۔[2] مرحوم شیخ طوسیؒ اور مامقانی اپنی کتب رجال میں نقل کرتے ہیں کہ جنگ جمل میں تیر لگنے سے پاؤں زخمی ہو گیا تھا جس کی وجہ سےاعرج (ایک پاؤں سے اپاہج) ہو گئے انھوں نے صحبت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کودرک کیاتھا۔

عسقلانی لکھتے ہیں: مسلم بن کثیر بن قلیب الصدفی الازدی الاعرج۔۔۔الکوفی لہ ادراک للنبیؐ مزید اضافہ کرتے ہیں فتح مصر میں بھی یہ صحابی رسولؐ حاضرتھے طبری اورابن شہرآشوب نے ان کاذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ کربلا میں حملۂ اولیٰ میں شہید ہوئے۔ [3]

مسلم بن کثیر ازد قبیلہ کے فرد تھے جب امام حسین علیہ السلام نے مدینہ سے ہجرت کی توان دنوں یہ صحابی رسولؐ کوفہ میں قیام پزیر تھے یہی وجہ ہے امام حسین علیہ السلام کوکوفہ میں آنے کی دعوت دینے والوں میں یہ شامل ہیں پھرحضرت مسلم بن عقیل ؑ جب کوفہ میں سفیرحسینؑ بن کرپہنچے توانھوں نے حضرت مسلم بن عقیل کی حمایت کی لیکن حضرت مسلمؑ کی شہادت کے بعد کوفہ کوترک کیااورکربلا کے نزدیک حضرت امام حسین علیہ السلام سے جاملے اورپہلے حملہ میں جان بحق نوش کیا۔ [4]

حضرت رسول اکرمؐ نے اپنے اس صحابی کے متعلق جوایک جنگ میں اعرجہونے کے باوجود شریک ہوئے اوراپنی جان کی قربانی پیش کی فرمایا:والذی نفسی بیدہ لقد رأیت عمروبن الجموح یطأُ فی الجنہ بعرجتہ۔۔۔ یعنی مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے دیکھ رہا ہوں عمرو بن الجموح کو کہ لنگڑا ہوکربھی جنت میں ٹہل رہا ہے اس بنا پرحضرت مسلم بن کثیر کابھی وہی مقام ہے کہ اگرچہ قرآن فرماتا ہے:(لیس علی الاعمی خرج ولا علی الاعرج حرج) [5]۔یعنی جہاد میں شرکت نہ کرنے میں اندھے پرکوئی حرج نہیں اورنہ ہی لنگڑے پرکوئی مؤاخذہ ہے لیکن اس فداکاراسلام نے نواسہ رسولؐ کی حمایت میں اپنی اس اپاہج حالت کے باوجود جان قربان کرکے ثابت کیا کہ اسلام کے تحفظ کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہیے یہی وجہ ہےصاحب تنقیح المقال کے یہ جملے ہیں:شہیدالطف غنی عن التوثیق فرماتے ہیں چونکہ کربلا کے شہداء میں شامل لہذا وثاقت کی بحث سے بے نیاز ہیں۔

انس بن حارث ترمیم

انس بن حارث کاہلی حضرت پیغمبر ؐ کے صحابی تھے جنگ بدروحنین میں شرکت بھی کی۔ [6] مرحوم مامقانی فرماتے ہیں:(انس) بن حارث صحابی نال بالطف الشہادۃ [7] (صحابی رسولؐ تھے اورکربلا میں شہادت کے مقام پرفائز ہوئے)ابن عبدالبراپنی کتاب الاستیعاب میں یوں رقمطراز ہیں انس بن حارث رویٰ عنہ والد اشعث بن سلیم عن النبیؐ فی قتل الحسین وقتل مع الحسین رضی اللہ عنہما[8]

انس بن حارث کے واسطہ سے اشعث بن سلیم کے والد نے نبی اکرمؐ سے امام حسینؑ کی شہادت سے متعلق روایت نقل کی ہے کہ یہ (انس بن حارث) حضرت حسینؑ کے ہمراہ شہیدہوئے۔

الاستیعاب نے جس روایت کاذکر کیا ہے وہ یوں ہے کہ حضرت انس بن حارث نے رسول خدا(ص) سے سنا تھا کہ آپؐ نے فرمایا:میرابیٹا(حسین) کربلا کی سرزمین پرقتل کیاجائے گا جوشخص اس وقت زندہ ہواس کے لیے ضروری ہے کہ میرے بیٹے کی مددونصرت کوپہنچے۔ روای کہتا ہے کہ انس بن حارث نے پیغمبرؐ کے اس فرمان پرلبیک کہتے ہوئے کربلا میں شرکت کی اورامام حسینؑ کے قدموں پراپنی جان نچھاور کردی۔[9]۔

اس حدیث نبوی ؐ کی اہمیت کے پیش نظر ضروری سمجھتے ہیں کہ اسے کامل سند کے ساتھ ذکر کر دیا جائے:سعد(سعید) بن عبد الملک بن واقد الحرانی بن عطا بن مسلم الخقاف عن اشعث بن سلیم عن ابیہ قال سمعت انس بن حارث یقول: سمعت رسول اللہؐ یقول:ان ابنی ہذا(یعنی الحسین) یُقتل بارض یقال لھا کربلا فمن شہد منکم فلینصرہ۔

قال(العسقلانی): فخرج انس بن الحرث الی کربلا فقتل مع الحسین۔

صاحب فرسان نے ابن عساکر سے یوں نقل کیا ہے :وقال ابن عساکر انس بن الحرث کان صحابیاً کبیرا ممن رأی النبیؐ وسمع حدیثہ وذکرہ عبد الرحمٰن السلمی فی اصحاب الصفۃ۔۔۔[10]

ابن عساکر لکھتے ہیں کہ انس بن الحرث ان عظیم اصحاب رسولؐ میں سے تھے جنہیں حضرت پیغمبرؐ کی زیارت نصیب ہوئی انھوں نے آپؐ سے حدیث بھی سنی تھی عبد الرحمٰن سلمی نے انھیں اصحاب صفہ میں شمار کیا ہے۔

بلاذری لکھتے ہیں کہ حضرت انس کوفہ سے نکل پڑے ایک مقام پرامام حسینؑ اورعبیداللہ بن حرجعفی کے درمیان میں ہونے والی گفتگو سنی فوراً امام حسینؑ کی خدمت حاضرہوئے اورقسم کھانے کے بعد عرض کی کوفہ سے نکلتے وقت میری نیت یہ تھی کہ عبیداللہ بن حر کی طرح کسی کاساتھ نہ دوں گا (نہ امامؑ کانہ دشمن کا) یعنی جنگ سے اجتناب کروں گا لیکن خدواند نے میری مدد فرمائی کہ آپؑ کی مدد ونصرت کرنے کومیرے دل میں ڈال دیا اورمجھے جرأت نصیب فرمائی تاکہ اس حق کے راستے میں آپؑ کاساتھ دوں۔حضرت امام حسین علیہ السلام نے انھیں ہدایت اورسلامتی ایمان کی نوید سنائی اورانہیں اپنے ساتھ لے لیا۔[11]

یہ صحابی رسولؐ نواسۂ رسولؐ کے دشمنوں سے جنگ کرنے کی غرض سے کربلا میں موجود ہیں حضرت امام حسینؑ نے اپنے اس وفادار ساتھی کویہ ذمہ داری سونپی کہ عمربن سعد کوحضرت ؑ کاپیغام پہنچائے اوراس ملعون کونصیحت کرے کہ شاید وہ ہوش میں آجائے اورقتل حسینؑ سے باز رہے جب حضرت انس، عمربن سعد کے پاس پہنچے تواس کوسلام نہ کیا عمربن سعد نے اعتراض کیا کہ مجھے سلام کیوں نہیں کیا، آیاتومجھے کافراورمنکر خدا سمجھتا ہے؟حضرت انس نے فرمایا:توکیسے منکر خداورسولؐ نہ ہوجبکہ توفرزندرسولؐ کے خون بہانے کاعزم کرچکا ہے!یہ جملہ سن کرعمربن سعد سرنیچے کرلیتا ہے اورپھرکہتا ہے کہ میں بھی جانتا ہوں کہ اس گروہ(گروہ حسینؑ ) کاقاتل جہنم میں جائے گا لیکن عبیداللہ بن زیاد کے حکم کی اطاعت ضروری ہے۔[12]

ابتدائے ملاقات سے حضرت انس تکلیف دہ حالات اپنی نظروں سے دیکھ رہے تھے لہذا جب دشمن کی طرف سے جنگ شروع ہوئی تو حضرت انسؓ بھی دیگر اصحاب حسین علیہ السلام کی طرح حضرت امام ؑ سے اجازت طلب کرکے عازم میدان ہوئے یہ مجاہد جوان نہیں تھا گوایمان جوان تھا نقل کرتے ہیں کہ حضرت انس کی حالت یہ تھی کہ سن پیری(بڑھاپے) کی وجہ سے خمیدہ (جھکی ہوئی)کمر کوشال(رومال) سے باندھ کرسیدھا کرتے ہیں، سفیدابرو، آنکھوں پرپڑ رہے تھے، رومال پیشانی پرباندھ کراپنی آنکھوں سے ان بالوں کو ہٹاتے ہیں اور میدان کارزار میں روانہ ہوتے ہیں۔حضرت امام حسینؑ نے جب اپنے اس بوڑھے صحابی کودیکھا توحضرت کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اورفرمایا:خدا تجھ سے یہ قربانی قبول کرے اے پیرمرد۔[13]

ہرمجاہد جنگ کرتے وقت رجز(مجاہدانہ اشعار)پڑھا کرتا تھا جورجز حضرت انس نے پڑھا ہے نہایت پرمعنی تھا پہلے اپنا تعارف کرایا پھرکہا:

واستقلبوا لقوم بغرٍالآن آل علی شیعۃ الرحمٰن، وآل حرب شیعۃ الشیطان [14]

کاہل کو دانا نسب جانتے ہیں کہ میراقبیلہ دشمن کو نابود کرنے والا ہے اے میری قوم شیرغراں کی طرح دشمن کے مقابلے میں جنگ کرو کیونکہ آل علیؑ رحمان کے پیروکارجبکہ آل حرب(بنوسفیان)شیطان کے پیروکار ہیں۔بڑھاپے کے باوجود سخت جنگ کی 12 یا18 دشمنوں کوقتل کرنے کے بعد جان بحق نوش کیا زیارت ناحیہ کے جملات یہ ہیں:السلام علی ٰ انس بن الکاہل الاسدی[15]

بکربن حی تیمی ترمیم

علامہ سماوی نے اپنی کتاب ابصارالعین میں حدایق الوردیہ سے نقل کیا ہے کہ بکر بن حی تیمی کوفہ سے عمربن سعد کے لشکر میں شامل ہوکرکربلا پہنچے لیکن جب جنگ شروع ہونے لگی توحضرت امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوکرعمربن سعد کے خلاف جنگ کرتے ہوئے پہلے حملے میں شہیدہوگئے منتہی الآمال میں ان کاذکر ان شہداء میں موجود ہے جوحملہ اولیٰ میں شہیدہوئے۔[16] تنقیح المقال نے بکربن حی کوشہدائے کربلا میں شمار کیاہے عبارت یوں ہے:بکربن حی من شہدالطف بحکم الوثاقۃ ابن حجر عسقلانی نے بکربن حی کے ترجمہ میں لکھا ہے:بکربن حی بن علی تمیم بن ثعلبہ بن شہاب بن لام الطائی۔ لہ ادراک ولولدہ مسعود ذکربالکوفہ فی زمان الحجاج وکان فارساً شجاعاً۔[17]

(بکربن حی۔۔۔نے حضرت پیغمبرؐ کے محضر مبارک کودرک کیا اوران کے بیٹے مسعود کے بارے میں ملتا ہے کہ حجاج بن یوسف کے زمانے میں کوفہ میں مقیم تھا۔)

الاصابہمیں بکربن حی کے صحابی رسولؐ ہونے کی گواہی ملتی ہے گوبیان نہیں کیا کہ یہ صحابی کربلا میں شہید ہوئے یانہ؟لیکن دیگر منابع رجال ومقاتل میں انھیں شہدائے کربلا میں شمار کیاگیاہے۔

جابر بن عروہ غفاری ترمیم

کتاب شہدائے کربلا میں بیان ہوا ہے کہ متاخرین کے نزدیک جابر بن عروہ غفاری صحابی رسول خداؐ تھے جوکربلا میں شہید ہوئے جنگ بدر اوردیگر غزوات میں رسول اکرمؐ کے ہمراہ شریک ہوئے یہ بوڑھے صحابی روز عاشورا رومال باندھ کراپنے ابرؤوں کوآنکھوں سے ہٹاتے ہیں اورعازم میدان جنگ ہوتے ہیں جب امام علیہ السلام کی نظر پڑی توفرمایا:اے بزرگ!خداتجھے اجردے۔[18]

ذبیح اللہ محلاتی نے مقتل خوارزمی سے درج ذیل عبارت نقل کی ہے:ثم یرز جابر بن عروۃ الغفاری وکان شیخاً کبیراً وقد شہد مع رسول اللہ بدراً او حنیناً وجعل یشد وسطہ بعمامعتہ ثم شدحاجبیہ بعصابتہ حتی رفعہما عن عینیہ والحسین ؑ ینظر الیہ وہویقول شکراللہ سعیک یاشیخ فحمل فلم یزل یقاتل حتی قتل ستین رجلاً ثم استثہد رضی اللہ عنہ۔[19]

بعض کتب جیسے تنقیح المقال، مقتل ابی مخنف اوروسیلۃ الدارین میں صحابی رسولؐ اورشہیدکربلا کے عنوان سے بیان ہوا ہے البتہ دیگر معتبر منابع میں ان کاذکر موجود نہیں اس وجہ سے بعض محققین ان کے بارے میں مردد ہیں۔تنقیح کے جملات یہ ہیں جابر بن عمیر الانصاری، صحابی مجہول ۔[20] جبکہ وسیلۃ الدارین کی عبارت کے مطابق یہ صحابی رسول تھے اور جنگ بدر کے علاوہ دیگر جنگوں میں بھی شریک رہے۔

انّ جابر بن عروہ کان اصحاب رسول اللہؐ یوم بدر وغیرھا۔۔۔۔[21] جب دشمن کے مقابلہ میں آئے تویہ رجز پڑھا:

قد علمت حقاً بنوغفار وخندف ثم بنو نزار

ینصرنا لاحمدمختار یاقوم حاموا عن بنی الاطہار

الطیبین السادۃ الاخیار صلی علیہم خالق الابرار

یہ بنوغفار وخندف نزا ر قبائل جانتے ہیں کہ ہم یاور محمدمصطفٰی ؐ ہیں اے لوگو آل اطہارؑ جوسیدوسردار ہیں ان کی حمایت کرو کیونکہ خالق ابرار نے بھی ان پردرودوسلام بھیجا ہے۔

ان الفاظ کے ساتھ دشمن پرآخری حجت تمام کرتے ہوئے چندافراد کوواصل جہنم کرنے کے بعد جان بحق نوش کیا۔[22]

جنادۃ بن کعب الانصاری ترمیم

جنادہ بن کعب انصاری وہ صحابی رسولؐ ہیں جوحضرت امام حسینؑ کی نصرت کے لیے کربلا میں اپنی صحابیہ زوجہ اورکم سن فرزند کے ساتھ شریک ہوئے خود کواپنے بیٹے سمیت نواسۂ رسولؐ کے قدموں پرقربان کر دیا علامہ رسولی محلاتی نقل کرتے ہیں جنادہ صحابی رسول خداؐ اورحضرت علی علیہ السلام کے مخلص شیعہ تھے جنگ صفین میں حضرت علی ؑ کے ساتھ شریک ہوئے۔[23] اورکوفہ میں حضرت مسلم بن عقیل کے لیے بیعت لینے والوں میں شامل تھے حالات خراب ہونے کی وجہ سے کوفہ کوترک کیااورامام حسینؑ سے جاملے۔

تنقیح المقال نے جنادہ کے ترجمہ کواس طرح بیان کیا ہے: جنادۃ بن (کعب) بن الحرث السلمانی الازدی الانصاری الخزرجی من شہداء الطف۔۔۔و قد ذکر اہل السیرانہ کان من اصحاب رسول اللہؐ۔۔۔۔[24]

صاحب کتاب فرسان نے تاریخ ابن عساکر کے حوالے سے نقل کیا ہے:ابن مسعود روایت کرتے ہیں حضرت پیغمبر اکرمؐ نے جنادۃ بن الحارث کوایک مکتوب میں بیان فرمایا کہ یہ مکتوب محمدرسول اللہؐ کی جانب سے جنادہ اوراس کی قوم نیز ہراس شخص کے لیے ہے جوا س کی پیروی کرے گا کہ نماز قائم کریں اورزکوۃٰ ادا کریں اورخداورسول ؐ کی اطاعت کریں جواس حکم پرعمل کرے گا خداورسولؐ کی حفظ وامان میں رہے گا۔۔[25] اس فداکارصحابی رسولؐ نے اپنے راہبر کے حکم پرعمل کرکے نہ فقط مال کی زکوۃٰ ادا کی بلکہ اپنی جان اوراولاد کی زکوۃٰ بھی دیتے ہوئے دنیاوآخرت کی سعادت حاصل کرلی حضرت جنادہ کی زوجہ مسعود خزرجی کی بیٹی اوربڑی شجاع وفداکار خاتون تھی جب جنادہ شہیدہوچکے تواس مجاہدہ عورت نے اپنے خورد سال بیٹے عمروبن جنادہ کو(جوگیارہ یانوسال [26] کی عمرمیں تھا)کوحکم دیا کہ جاؤ جہاد کرو یہ باادب بچہ ماں کی اجازت کے باوجود اپنے مولاوآقا حضرت امام حسینؑ کی خدمت میں آیا اوربڑے احترام سے عرض کی مجھے جہاد کی اجازت عطافرمائیں۔حضرت ؑ نے اجازت دینے سے یہ کہہ کر انکار کیا کہ شاید تیری ماں راضی نہ ہو (کیونکہ تیرا سن چھوٹاہے اورتیری ماں بوڑھی ہے) یہ جملات سننے تھے کہ اس ننھے مجاہد نے عرض کی کہانّ امّی قدامرتنی(میری ماں تومجھے اجازت دے چکی ہیں)میری ماں نے نہ فقط اجازت دی ہے بلکہ مجھے لباس جنگ اس نے خود پہنایا ہے اورحکم دیا ہے آپؑ پرجان قربان کردوں امام حسینؑ نے جب اس کاجذبۂ جہاد دیکھا تواجازت دی میدان جنگ میں آکر صحابی رسولؐ کے اس کمسن فرزند نے اپناتعارف بڑے نرالے انداز میں کرایاخلاف معمول اپنانام یاوالد اورقبیلہ کاذکر نہیں کیا یہی وجہ ہے کہ اس کمسن بچے کے بارے میں مؤرخین میں اختلاف ہے کہ یہ کس کافرزند ہے بعض کتب میں یہ جملہ ملتا ہے کہ خرج شباب قتل ابوہ فی المعرکہ۔[27] دشمن کوللکار کرکہتا ہے:

امیری حسینٌ ونعم الامیر سرور فواد البشیرالنذیر

علیٌ وفاطمہ والداہ فھل تعلمون لہ من نظیر

لہ طلعۃ مثل شمس الضحیٰ لہ غُرّہ مثل بدرالمنیر [28]

میرے آقا وسردار اوربہترین سردار حسینؑ ہیں بشیرالنذیر(پیغمبراکرمؐ)کے دل کاچین ہیں علی ؑ وفاطمہؑ جس کے والدین ہوں کیا اس کی مثال(دنیا میں) کہیں مل سکتی ہے؟چمکتے سورج کی مانند نورافشانی کرنے والا اورچودھویں کے چاند کی مانند (تاریکیوں میں) روشنی دینے والا راہنماامام ہیں۔

میدان جنگ میں شہید ہوجانے کے بعد دشمن نے سرجدا کرکے ماں کی طرف پھینکا ماں نے سراٹھا کرکہا:مرحبا'اے نورعیناورپھر دشمن کودے مارااورعمودخیمہ اٹھا کردشمن کی فوج پرحملہ کرناچاہا لیکن حضرت امام حسینؑ نے واپس بلالیااوراس باوفا خاتون کے حق میں دعافرمائی۔حضرت جنادہ کا نام بعض منابع میں جابر[29]۔یا جبار یا جیاد درج ہوا ہے ان کے والد کے نام کوبھی بعض نے حارث[30] اوربعض نے حرث[31] ذکرکیا ہے جبکہ قاموس[32] میں جنادہ کے نام سے موجود ہے ان کے قبیلہ کانام سلمانی[33] یا سلمانی ازدی[34]بیان ہوا ہے۔ یہ صحابی رسولؐ عذیب الہجانات کے مقام پر امام حسینؑ کے حضور شرفیاب ہوئے اسی دورانحر امام حسینؑ کاراستہ روک کرانہیں گرفتار کرناچاہتا تھا جبکہ امامؑ کی شدیدمخالفت کی وجہ سے اس کام سے باز رہا امام علیہ السلام ان تازہ شامل ہونے والے افراد (جیسے جنادہ بن حارث) کے ذریعے کوفہ کے حالات سے مطلع ہوئے اس وقت سے لے کر روزعاشور تک ساتھ رہے صبح عاشور جنادہ بعض دیگر افراد کے ساتھ تلوار ہاتھ میں لے کردشمن کے لشکر پرحملہ آور ہوئے دشمن کے نرغہ میں جانے کی وجہ سے تمام افراد ایک مقام پردرجۂ شہادت پرفائز ہوئے۔[35] زیارت رجبیہ وناحیہ میں ان پرسلام ' ' ذکرہوا ہے۔

جندب بن حجیر الخولانی الکوفی ترمیم

جندب بن حجیر کندی خولانی یا جندب بن حجر(42)اقبال الاعمال، ج3، ص78۔(42) پیغمبر اکرم ؐ کے عظیم صحابی اوراہل کوفہ میں سے تھے یہ ان افراد میں سے ہیں جنھیں حضرت عثمان نے کوفہ سے شام بھیجا تھا جنگ صفین میں بھی شرکت کی اورحضرت علی علیہ السلام کی طرف سے قبیلہ کندہ اورازد کے لشکر کے سپہ سالار مقرر ہوئے اورواقعہ کربلا میں امام حسینؑ کے ہمرکاب جنگ کرتے ہوئے شہیدہوئے۔[36]

صاحب وسیلۃ الدارین لکھتے ہیں:قال ابن عساکر فی تاریخہ ھوجندب بن حجیر بن جندب بن زھیر بن الحارث بن کثیر بن جثم بن حجیر الکندی الخولانی الکوفی یقال لہ صحبۃ مع رسول اللہ وھو من اھل الکوفہ وشھد مع النبیؐ۔۔۔۔۔۔وقال علما السیر ومنہم الطبری:انہ قاتل جندب بن حجیربین یدیہ الحسینؑ حتی قتل فی اول القتال۔۔۔۔۔۔ [37]

مندرجہ بالا ترجمہ کے مطابق یہ صحابی رسولؐ اورشہدائے کربلا میں سے تھے۔

جندب بن حجیر کے صحابی رسولؐ ہونے میں اتفاق ہے لیکن مقام شہادت میں اختلاف ہے ابن عساکر انھیں جنگ صفین کے شہداء میں ذکرکرتے ہیں۔[38]لیکن بعض دیگر معتبر منابع انھیں شہدائے کربلا میں شمار کرتے ہیں تنقیح المقال میں ان کاترجمہ اس طرح ہے:۔۔۔شھد الطف۔۔۔وعدہ الشیخ من رجالا من اصحاب الحسینؑ واقول ھوجندب بن حجیرالکندی الخولانی الکوفی وذکراھل السیر انّ لہ صحبۃ و۔۔۔[39]

نیز رجال طوسی اقبالاوراعیان الشیعہمیں بھی شہدائے کربلا کی فہرست میں ذکر کیا گیا ہے۔[40]

جندب کوفہ کے نامداراورمعروف شیعہ افراد سے تعلق رکھتے تھے کوفہ کے حالات خراب ہونے کی وجہ سے وہاں سے نکل پڑے عراق میں حرکالشکر پہنچنے سے قبل حضرت امام حسینؑ سے مقام حاجرمیں ملاقات کی اورامام ؑ کے ہمراہ وارد کربلا ہوئے جب روز عاشور(عمرسعد کی طرف سے)جنگ شروع ہوئی یہ دشمن کامقابلہ کرتے ہوئے پہلے حملہ میں مقام شہادت پرفائز ہوئے۔[41]

حبیب بن مظاہر الاسدی ترمیم

حبیب بن مظاہر اسدی خاندان بنی اسد کے معروف فرد اور حضرت رسول اکرمؐ کے صحابی اور امام علی، امام حسن وامام حسین علیہم السلام کے وفادار ساتھی تھے۔[42] عسقلانی ان کاترجمہ بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ حبیب بن مظاہر بن رئاب بن الاشتر۔۔۔الاسدی کان صحابیاً لہ ادراک وعمر حتی قتل مع الحسینؑ یوم الطف مع ابن عمہ ربیۃ بن خوط بن رئاب مکنی اباثور۔[43]

معتبر منابع میں ان کے حالات زندگی اورکربلا میں جہاد کاذکر مفصل ملتا ہے۔ حبیب بن مظاہر حضرت علی علیہ السلام کے شاگرد خاص اور وفادار صحابی تھے اپنے مولا علیؑ کے ساتھ کئی جنگوں میں شرکت کی، بہت سے علوم پر دسترس تھی زہد و تقویٰ کے مالک تھے ان کاشمار پارسایان شب اورشیران روز میں ہوتا ہے ہرشب ختم قرآن کرتے تھے۔[44]

صاحب رجا ل کشی (اختیار معرفۃ الرجال)، فضیل بن زبیر کے حوالہ سے حضرت حبیب بن مظاہر اورمیثم تمار کے مابین ہونے والے مکالمے کونقل کرتے ہیں جس میں یہ دونوں حضرات اپنی شہادت سے متعلق پیش آنے والے حالات سے ایک دوسرے کوآگاہ کرتے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کے یہ تربیت شدہ شاگردعلم باطن اور علم بلایا و منایا (آئندہ آنے والی مشکلات ومصائب) پرکس قدر تسلط رکھتے تھے۔ [45]

حضرت حبیب بن مظاہر کا شمار راویان حدیث میں بھی ہوتا ہے روایت میں ہے کہ حبیب ایک مرتبہ امام حسینؑ سے سوال کرتے ہیں کہ آپ حضرات قبل از خلقت آدمؑ کس صورت میں تھے؟ حضرت امام حسینؑ نے فرمایا: ہم نور کی مانند تھے اور عرش الٰہی کے گرد طواف کر رہے تھے اور فرشتوں کو تسبیح و تحمید و تہلیل سکھاتے تھے۔[46]

حضرت حبیب ان افراد میں شامل تھے جنھوں نے سب سے پہلے امام حسینؑ کوکوفہ آنے کی دعوت دی۔[47] پھر جب حضرت مسلم بن عقیل کوفہ پہنچے تو سب سے پہلا شخص جس نے حضرت مسلم کی حمایت اور وفاداری کا اعلان کیا عابس بن ابی شبیب شاکری تھے اس کے بعد حبیب بن مظاہر کھڑے ہوئے اورعابس شاکری کی بات کی تائید کرتے ہوئے یوں گویا ہوئے: خدا تم پررحم کرے کہ تونے بہترین انداز میں مختصر الفاظ کے ساتھ اپنے دل کاحال بیان کر دیا خدا کی قسم میں بھی اسی نظریہ پر پختہ یقین رکھتا ہوں جسے عابس نے بیان کیا ہے۔[48]

اس طرح حبیب حضرت مسلم کے بہترین حامی تھے اورمسلم بن عوسجہ کے ساتھ مل کرحضرت مسلم بن عقیل کے لیے لوگوں سے بیعت لیتے تھے[49] لیکن جناب مسلم بن عقیل کی شہادت کے بعد اہل کوفہ کی بے وفائی کی وجہ سے ان کے قبیلہ والوں نے مجبوراً ان دونوں (حبیب اورمسلم بن عوسجہ) کو مخفی کر دیا لیکن جونہی حبیب بن مظاہر کو امام حسین علیہ السلام کے کربلا پہنچنے کی خبر ملی تو رات کے وقت سے فائدہ اٹھا کرحضرت ؑ سے جاملے حالت یہ تھی کہ دن کومخفی ہو جاتے اور رات کوسفر کرتے یہاں تک کہ اپنی دلی آرزو کو پا لیا۔[50]

اگرچہ بعض منابع نے ذکر کیا ہے کہ حضرت امام حسینؑ کو جب جناب مسلم بن عقیل کی شہادت کی خبر ملی توآپؑ نے حبیب بن مظاہر کوخط لکھ کر بلایا۔[51]لیکن یہ مطلب معتبر ذرائع کی رو سے ثابت نہیں ہے۔[52]

کربلا پہنچنے کے بعد جب عمرسعد کے لشکر میں اضافہ ہوتا دیکھا تو امام ؑ سے اجازت لے کر اپنے قبیلہ بنی اسد کے پاس گئے اور مفصل خطاب کے بعد انھیں امام حسینؑ کی مدد و نصرت کے لیے درخواست کی جس کاخلاصہ ملاحظہ فرمائیے: میں تمھارے لیے بہترین تحفہ لایا ہوں وہ یہ کہ درخواست کرتا ہوں فرزند رسولؐ کی مدد کے لیے تیار ہو جاؤ۔۔۔ نواسۂ رسولؐ آج عمر سعد کے بائیس ہزار لشکر کے محاصرہ میں ہے آپ لوگ میرے ہم قبیلہ ہیں میری بات پر توجہ کریں تاکہ دنیا و آخرت کی سعادت تمھیں نصیب ہو سکے خدا کی قسم تم میں سے جوبھی فرزند رسول خداؐ کے قدموں میں جان قربان کرے گا مقام اعلیٰ علیین پر حضرت رسول خداؐ کے ساتھ محشور ہوگا۔[53]حضرت حبیب کی تقریر اتنی موثر تھی کہ بہت سے لوگوں نے اس آواز پرلبیک کہا اور حضرت امام حسین علیہ السلام کاساتھ دینے کے لیے آمادہ و تیارہوگئے لیکن ارزق بن حرب صیدادی (جو اسی قبیلہ کا ملعون تھا) نے چار ہزار سپاہیوں کے ساتھ ان افراد پر حملہ کر کے انھیں منتشر کر دیا حبیب نے یہ اطلاع حضرت امامؑ کو پہنچائی جب حضرت امام حسینؑ اپنے خدا سے راز و نیاز کرنے کے لیے عصر تاسوعا (نہم محرم) کو دشمن سے مہلت طلب کی تو اس دوران میں، حبیب نے لشکر عمر سعد کو موعظہ ونصیحت کرتے ہوئے کہا: خدا کی قسم! کتنی بری قوم ہو گی کہ جب فردائے قیامت اپنے پیغمبرؐ کے حضور حاضر ہوں گے توایسے حال میں کہ اسی رسولؐ کے نواسہ اور ان کے یار و انصار کے خون سے اس کے ہاتھ آلودہ ہوں گے۔

شہادت کی موت سے محبت کایہ عالم ہے کہ جب شب عاشور اپنے ساتھ یزید بن حصین سے مزاح کرتے ہیں تو یزید بن حصین نے کہا کہ یہ کیسا وقت ہے مزاح کا؟ جبکہ ہم دشمن کے محاصرے میں ہیں اورہم موت کے منہ میں جانے والے ہیں توحبیب نے کہا اے دوست اس سے بہتر کون سا خوشی کا وقت ہو گا جبکہ ہم بہت جلد اپنے دشمن کے ہاتھوں شہید ہو کر بہشت میں پہنچنے والے ہیں۔[54]

ایک روایت کے مطابق شب عاشور جب ہلال بن نافع نے حبیب بن مظاہر کوبتایا کہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا پریشان ہیں کہ میرے بھائی حسینؑ کے صحابی کہیں بے وفائی نہ کرجائیں توآپ تمام اصحاب کوجمع کرکے درخیمہ پرلائے اورحضرت زینب ؑ کی خدمت میں صمیم دل سے اظہار وفاداری کیااور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کا دوبارہ عہد کیا تاکہ حضرت زینبؑ کی یہ پریشانی ختم ہو سکے۔[55]

صبح روز عاشور حضرت امام حسینؑ نے اپنے لشکر کومنظم کیا دائیں طرف موجود لشکر کی کمانڈ زہیربن قین اوربائیں طرف حبیب بن مظاہر جبکہ قلب لشکر کی سربراہی حضرت ابوالفضل العباس ؑ کے سپرد کی اسی اثنا میں دشمن کے سپاہی وارد میدان ہوکرمبارزہ طلب کرتے ہیں توحبیب مقابلہ کے لیے آمادہ ہوئے لیکن حضرت امام ؑ نے روک لیا اس طرح ظہرعاشور جب امام ؑ نے لشکر عمرسعد سے نماز ادا کرنے کی خاطر جنگ بندی کے لیے کہا توایک ملعون نے گستاخی کرتے ہوئے کیا کہ تمھاری نماز قبول نہیں ہوگی(نعوذباللہ)اس وقت حضرت حبیب سے برداشت نہ ہوا اورفوراً یہ کہتے ہوئے آگے بڑھے: اے حمار(گدھے)!تیرے خیال باطل میں آل پیغمبرؐ کی نماز قبول نہیں؟! اورتمہاری نماز قبول ہے؟!! اس طرح دونوں کامقابلہ ہوا حبیب نے اس ملعون کوزمین پرگرادیا پھرباقاعدہ رجز پڑھتے ہوئے وارد میدان ہوئے شدید جنگ کی دشمن کے کئی افراد کوواصل جہنم کیا لیکن ایک تیمی شخص نے تلوار کاوار کیا جس کی تاب نہ لاکرآپ شہید ہو گئے اس نے آپ کے سرکوجداکرلیا اسی سرکو بعد میں گھوڑے کی گردن میں باندھ کر کوفہ میں پھرایا گیا گویا کوفہ کانامور مجاہد اہل کوفہ سے یہ کہہ رہا تھا دیکھو یہ سرآل رسولؐ کی خاطر کٹ سکتا ہے لیکن دشمن کے سامنے جھک نہیں سکتا۔[56]السلام علیک یاحبیب بن مظاہرالاسدی۔

زاہر بن عمروالاسلمی ترمیم

زاہر بن عمرو کندی شجاع اوربہادر شخص تھے صحابی رسولؐ اوراصحاب شجرہ میں سے تھے اورمحبین اہل بیت علیہم السلام میں ان کا شمار ہوتا ہے حضرت رسول خداؐ کے ہمراہ غزوہ حدیبیہ اورجنگ خیبرمیں شریک ہوئے۔

ذبیح اللہ محلاتی وسیلۃ الدارین کی عبار نقل کرتے ہیں:قال العسقلانی فی الاصابہ ہوزاہر بن عمرو بن الاسود بن حجاج بن قیس الاسدی الکندی من اصحاب الشجرۃ وسکن الکوفہ وروی عن النبیؐ وشہدالحدیبیہ وخیبر۔۔۔۔۔۔ [57]

۔۔۔زاہر درحقیقت زاہر بن عمرو۔۔۔الکندی ہیں جواصحاب شجرہ میں سے تھے کوفہ میں مقیم تھے اورحضرت رسول خداؐ سے روایت بھی نقل کی ہے حدیبیہ اورخیبر میں شریک تھے۔

ان کے بیٹے مجزأۃنے اپنے باپ کے واسطہ سے پیغمبر اکرمؐ سے روایت بیان کی ہے فوق الذکر مطلب مختصر فرق کے ساتھ دیگر منابع میں بھی موجو د ہے[58] لیکن بعض محققین کے خیال میں زاہر اورزاہر اسلمی دوالگ الگ افراد ہیں۔[59]

البتہ تنقیح کی عبارت میں انھیں اصحاب شجرہ اورشہدائے کربلا میں شمار کیا گیا ہے زاہر اسلمی والدمجزأۃ من اصحاب الشجرہ نیز فرماتے ہیں:زاھر صاحب عمرو بن الحمق شہید الطف فوق الوثاقہ وعدہ الشیخ فی رجالا من اصحاب ابی عبد اللہ واقول ہو زاہر بن عمروالاسلمی الکندی من اصحاب الشجرہ روی عن النبیؐ وشہد الحدیبیہ وخیبر وکان من اصحاب عمربن الحمق الخزاعی کمانص علی ذالک اہل السیرو۔۔۔[60]

مذکورہ بالا عبارت سے ظاہرہوتا ہے کہ زاہرنام کے دواشخاص ہیں لیکن مرحوم مامقانی کی نظرمیں زاہر بن عمرواسلمی کاشمار اصحاب شجرہ اورشہدائے کربلا میں ہونا ثابت ہے نیز بیان کرتے ہیں کہ یہ محب اہل بیتؑ تھے بہت بڑاتجربہ کارپہلوان اوربہادرشخص تھا امام علیؑ کی شہادت کے بعد عمربن حمقکے ساتھ مل کر معاویہ کی ظالمانہ حکومت اورابن زیاد کے خلاف بر سر پیکار رہا جب معاویہ نے ان کی گرفتاری اورقتل کاحکم صادر کیاتویہ دونوں شہرسے فرار کرگئے پہاڑوں اورجنگلوں میں زندگی بسرکرنے لگے یہاں تک کہ عمروبن حمقحکومتی کارندوں کے ہاتھوں گرفتار ہونے کے بعدشہید کردیاگیا لیکن زاھر زند ہ رہا آخرکار 60 ؁ ھ میں حج کے موقع پرامام حسینؑ کی خدمت میں شرفیاب ہوا اورآپؑ کے ساتھ مل کرکربلا کی جنگ میں شرکت کی عاشورا کے دن پہلے حملے میں جان بحق نوش کیا۔[61]

زیارت ناحیہ اوررجبیہ میں سلام ان الفاظ میں ذکرہوا السلام علی زاہر مولیٰ عمروبن حمق[62]

زیاد بن عریب ابوعمرو ترمیم

قدیم محققین نے زیاد بن عریب صائدی سے متعلق کوئی مطلب بیان نہیں کیا لیکن بعض معاصر نے ان کاترجمہ اس طرح درج کیا ہے:زیاد بن عریب بن حنظلہ بن دارم بن عبد اللہ بن کعب الصائدبن ہمدان [63]ابوعمروزیاد بن عریب نے حضرت پیغمبرؐ کے محضر مبارک کودرک کیا ان کے والدبزرگوار بھی صحابی رسول تھے ابوعمروشجاع، عابد وزاھداورشب زندہ دار شخص تھے زیادہ نمازگزار تھے زہدوتقویٰ کی وجہ سے عزت دینی نے آرام سے نہ بیٹھنے دیالہذا واقعہ کربلا میں اپنا کردار اداکرنے کی غرض سے حضرت امام حسینؑ کی خدمت میں پہنچے اوردشمن کے خلاف جہادومبارزہ کرنے کے بعد درج ۂ شہادت پرفائز ہوئے۔[64]

سعد بن الحارث مولی امیر المومنینؑ ترمیم

سعد بن حارث خزاعی(غلام امام علی) کے نام سے معروف ہیں قدیم منابع میں ان کانام شہدائے کربلا کی فہرست میں ذکرنہیں لیکن بعض متاخرین نے شہیدکربلا کے عنوان سے ان کے حالات زندگی قلمبندکیے ہیں سعد بن حرث خزاعی نے محضر پیغمبراکرمؐ کودرک کیااس لحاظ سے صحابی رسولؐ ہیں پھرامیرالمؤمنینؑ کے ہمراہ رہے حضرت نے انھیں کچھ عرصہ کے لیے سپاہ کوفہ کی ریاست سونپی تھی نیز کچھ مدت کے لیے انھیں آذربائیجان کاگورنر بھی منصوب کیا صاحب فرسان نے حدایق الوردیہ، ابصارالعین، تنقیح المقال اورالاصابہ جیسی معتبر کتب سے ان کے حالات نقل کیے ہیں۔ [65] نیز الاصابہ سے سعد کاترجمہ یوں نقل کیا ہے لیکن الاصابہ میں مراجع کرنے سے یہ مطلب نہیں ملا۔

سعید بن حارث بدل سعد بن الحارث بن شاربہ بن مرۃ بن عمران بن ریاح بن سالم بن غاضر بن حبشہ بن کنجب الخزاعی مولیٰ علی بن ابی طالبؑ لہ ادراک وکان علی شرطۃٍ علی ؑ فی الکوفہ وولاۃ آذربایجان۔۔۔۔۔۔ [66]

وسیلۃ الدارین نے بھی ص128 پر صحابی اورشہیدکربلا کے عنوان سے ذکرکیا ہے تنقیح المقال کی عبارت میں بھی اس طرح موجود ہے:

سعد بن الحارث الخزاعی مولیٰ امیر المومنین صحابی امامی شہید الطف ثقہ مزید لکھتے ہیں کہ سعد بن الحارث لہ ادراک الصحبۃ النبیؐ وکان علی شرطۃ امیر المومنین فی الکوفہ وولاۃ آذربائیجان۔ [67]

مزید تفصیلات ان کتب میں موجو د نہیں البتہ اتنا ضرور ملتا ہے کہ سعد امیر المومنین ؑ کی شہادت کے بعد حضرت امام حسن وامام حسین ؑ کاہرمیدان میں یارومددگار رہے جب حضرت امام حسینؑ نے قیام کیاتو ابتدا میں اپنے مولا کی خدمت میں مکہ میں جاملے پھرمکہ سے کربلا آئے اورروزعاشور جنگ کرتے ہوئے جان قربان کردی۔ [68]

اس بات کاذکرضروری ہے کہ مرحوم محقق شوشتری نے اپنی کتاب میں ان کے صحابی ہونے پرتنقید کی ہے اس دلیل کی بنا پرکہ اگرصحابی ہوتے توقدیم منابع نے کیوں ذکر نہیں کیا [69]لیکن مذکورہ بالا بعض معتبر منابع میں ان کاذکر صحابی رسولؐ ہونے کے عنوان سے آجانا ہمارے مطلب کے اثبات کے لیے کافی ہے۔

شبیب بن عبد اللہ مولیٰ الحرث ترمیم

شبیب بن عبداللہ بن شکل بن حی بن جدیہ حضرت رسول اکرمؐ کے صحابی اورکوفہ کی معروف ومشہور شخصیت اوربڑے بافضیلت انسان تھے [70] جہاں بھی ظلم وستم دیکھا اس کے خاتمہ کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے یہی وجہ ہے کہ جنگ جمل وصفین ونہروان میں بھی شرکت کی اورحضرت علیؑ کے وفادار یارومددگار رہے [71]

مختلف معتبرمنابع میں ان کاذکر موجود ہے جیسے رجال طوسی، استرآبادی، تنقیح، مقتل ابی مخنف، تاریخ طبری وغیرہ۔تنقیح میں ان کاترجمہ اس طرح درج ہے:

شبیب بن عبد اللہ مولی الحرث صحابی شہیدالطف، فوق الوثاقہ شبیب سیف بن حارث اورمالک بن عبد اللہ کے ہمراہ کربلا پہنچے اوراپنے مولااما م حسینؑ کی اطاعت میں جنگ کرتے ہوئے جان بحق نوش کیا۔کتاب روضۃ الشھداء میں ان پرسلام نقل ہوا ہے :السلام علی شبیب بن عبد اللہ مولیٰ بن سریع۔[72]

شوذب بن عبد اللہ الہمدانی الشاکری ترمیم

جناب شوذب صحابی رسول اورحضرت علیؑ کے باوفا ساتھی تھے مرحوم زنجانی نے علامہ مامقانی سے ان کاترجمہ نقل کیا ہے :ذکرالعلامہ مامقانی فی رجالا شوذب بن عبد اللہ الہمدانی الشاکری ان بعض من لایحصل لہ ترجمہ تخیل انّہ شوذب مولی عابس والحال ان مقامہ اجل من عابس من حیث العلم والتقویٰ وکان شوذب صحابیاً واشترک مع امیر المومنینؑ۔۔۔ [73]

شوذب علم وتقویٰ کے اعتبار سے بلندپایہ شخصیت تھے کوفہ کی معروف علمی شخصیت ہونے کی وجہ سے اہل کوفہ کے لیے حضرت امیرالمومنین ؑ کی احادیث نقل کرتے تھے امام علیؑ کے ساتھ تینوں جنگوں میں شریک رہے۔

جب حضرت مسلم بن عقیل کوفہ میں پہنچے توان کی بیعت کرنے کے بعد حضرت امام حسینؑ تک اہل کوفہ کے مزید خطوط پہنچانے میں عابس شاکری کے ہمراہ رہے۔نہایت مخلص اورعابد وزاھد انسان تھے بڑھاپے کے عالم میں بھی ظلم کے خلاف عملی کردار ادا کیا کوفہ میں حضرت مسلم کی شہادت کے بعد عابس شاکری کے ہمراہ حضرت امام حسینؑ کی خدمت میں کربلا پہنچتے ہیں جب حنظلہ بن سعد شبامی شہید ہو گئے توعابس نے شوذب سے پوچھا کہ کیاخیال ہے ؟کہتے ہیں تیرے ہمراہ فرزند رسول خداؐ کی نصرت کے لیے جنگ کرنا چاہتا ہوں تاکہ شہادت کامقام حاصل کرسکوں عابس نے کہا اگر یہ ارادہ ہے توامام ؑ کے پاس جاکر اجازت طلب کروحضرت امام ؑ کی خدمت میں حاضر ہوکراجازت جہاد حاصل کی اورواردجنگ ہوئے چند دشمنوں کوواصل جہنم کیا آخر میں شہید ہو گئے۔ [74] ان الفاظ میں زیارت رجبیہ اورزیارت ناحیہ میں ان پرسلام بھیجا گیاہے السلام علی شوذب مولی شاکر[75]

قابل توجہ امریہ ہے کہ بعض خیال کرتے ہیں کہ شوذب ، عابس شاکر کے غلام تھے جبکہ اہل علم حضرات سے پوشیدہ نہیں کہ لفظ مولی صرف غلام کے معنی میں استعمال نہیں ہوتا بلکہ ہم پیمان کے معنی بھی استعمال کیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ بعض محققین نے لکھا ہے کہ چونکہ شوذب مقام علمی ومعنوی کے اعتبار سے عابس پربرتری رکھتے تھے لہذا انھیں غلام عابس نہیں کہہ سکتے بلکہ عابس اوراس کے قبیلہ کے ہم پیمان وہم عہد تھے [76] یہی دلیل علامہ مامقانی سے نقل شدہ ترجمہ میں بیان کی گئی ہے۔

عبد الرحمٰن الارحبی ترمیم

عبد الرحمن ارحبی حضرت رسول اکرمؐ کے بزرگ صحابی تھے تمام معتبرمنابع میں ان کاذکرموجود ہے جیسے رجال شیخ طوسی، رجال استرآبادی، مامقانی، نیز الاستیعاب، الاصابہ اوروسیلۃ الدارین نے بھی نقل کیاہے تاریخ طبری اورالفتوح میں ان کے بعض واقعات بھی بیان ہوئے ہیں۔

الاستیعاب کی عبارت اس طرح ہے:۔۔۔ہوعبدالرحمن بن عبد اللہ بن الکدن الارحبی۔۔۔۔۔۔انہ کان من اصحاب النبیؐ لہ ہجرۃ۔۔۔

معاویہ بن ابی سفیان کی وفات کی خبر جب کوفہ پہنچی توکچھ لوگ سلیمان بن صرد خزاعی کے گھرجمع ہوئے تاکہ اجتماعی طور پرحضرت امام حسین ؑ کوخط لکھ کردعوت دیں اورخلافت کوان کے سپرد کریں نیز کوفہ کے گورنر نعمان بن بشیر کوکوفہ سے باہرنکال دیں ان خطوط کوقیس بن مسہر صیداوی، عبد الرحمن ارحبی اورعمارہ بن عبد اللہ السلولی لے کرحضرت امام حسینؑ کی خدمت میں ہوئے اس طرح یہ گروہ دوم تھا جوحضرت ؑ کودعوت دینے کے لیے آیا کیونکہ پہلا گروہ عبداللہ بن سمیع کی قیادت میں حضرت کی خدمت میں حاضرہوا تھا۔

عبد الرحمٰن ارحبی شجاع تجربہ کار فاصل اورفصیح وبلیغ صحابی تھے [77] 50 یا 53۔ [78]ددعوت نامے لے کر12 رمضان المبارک 60 ھ کومکہ کی طرف روانہ ہوئے بعض مورخین نے لکھا ہے کہ عبد الرحمٰن ارحبی 150 افراد پرمشتمل ایک وفد کے ہمراہ حضرت امام حسینؑ کی خدمت اقدس میں پہنچے۔ [79]

مکہ میں حضرت امام ؑ کواپنی وفاداری کایقین دلایا پھر حضرت کے نمائندہ خاص جناب امیرمسلم کے لیے کوفہ میں انقلابی سرگرمیوں میں مشغول رہے کوفہ میں حالات خراب ہونے کے بعد کربلا میں دشمنان دین کے خلاف جنگ میں شرکت کی جب عمربن سعد نے امام حسینؑ کے قتل کاپختہ ارادہ کر لیا تواس صحابی رسولؐ نے اپنی جان کی بازی لگاکربھی اپنے مولا وآقا کی حمایت کااعلان کیا اپنی شجاعت کے کارنامے دکھا نے کے علاوہ فصاحت وبلاغت کے ذریعے بھی حسین ابن علیؑ کی حقانیت اوربنوامیہ کے بطلان کواپنے اشعارمیں واضح کیا تاریخ میں اس وفادار صحابی کے جورجز بیان ہوئے ہیں اس زمانہ کی بہترین عکاسی کرتے ہیں کیونکہ بنوامیہ نے اسلام کے نام پراسلام کی نابودی کاتہیہ کررکھا تھااس لیے وہ اصحاب کرام جواب پیغمبر اکرمؐ کے قول وفعل کے ذریعے حقیقی اسلام کے راہبر کی شناخت کرچکے تھے آج دشمنان دین کواسلام کے حقیقی راہبر کی اطاعت وفرمانبرداری کی طرف دعوت دینا اپنا اولین فریضہ سمجھتے ہیں عبد الرحمٰن کے رجز کاایک مصرع یوں ہے:

انی لمن ینکرنی ابن الکدن انی علی دین حسین وحسن [80] اس طرح امام حسینؑ کودین حق کاعلمبردار سمجھتے ہوئے ان کے قدموں میں اپنی جان کانذرانہ پیش کرتے ہیں اس شہید باوفا پرزیارت ناحیہ میں ان الفاظ میں سلام پیش کیا گیا ہے:السلام علی عبد الرحمٰن بن عبد اللہ بن کدرالارحبی [81]

عبد الرحمٰن بن عبدربہ الخزرجی ترمیم

مختلف منابع نے عبد الرحمان بن عبد رب انصاری کے لیے صحابی رسولؐ ہونے کی گواہی دی ہے انھیں بعض نے انصاری بھی لکھا ہے اصل میں مدینہ میں مقیم تھے جب پیغمبراسلامؐ نے مدینہ میں ہجرت فرمائی تواوس وخزرج قبائل نے اسلام قبول کیااس وقت سے ان سب کوانصاری کہاجاتا تھا صاحب قاموس الرجال نقل کرتے ہیں کہ عبد الرحمٰن بن عبدربہ الانصاری الخزرجی کان صحابیاً لہ ترجمۃ ورویۃ وکان من مخلص اصحاب امیر المومنین علیہ السلام (صحابی رسولؐ تھے جن سے روایت بھی نقل ہوئی ہے اورحضرت امیرعلیہ السلام کے مخلص اصحاب میں سے تھے)

جس روایت کاتذکرہ کیا گیا ہے یہ درحقیقت غدیرخم کے مقام پرپیغمبراسلامؐ کی جانب سے ولایت علیؑ کاواضح اعلان کرنا ہے پھرجب وفات پیغمبر ؐ کے بعد اکثر افراد جن میں بعض نے دنیاوی مقاصد اوربعض نے خوف کی وجہ سے علی علیہ السلام خلیفۂ بلافصل تسلیم نہ کیا توایک مرتبہ رحبہ کے مقام حضرت علیؑ نے لوگوں کوقسم دے کر پوچھا جس نے پیغمبرؐ سے میرے بارے میں کوئی حدیث فضیلت سنی ہوتوبلند ہوکربیان کرے اسی اثنا میں عبد الرحمٰن خاموش نہ بیٹھ سکے اوراٹھ کرکہا کہ میں نے غدیر خم کے مقام پررسول خداؐ کویہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ فرمایا:من کنت مولاہ فہذا علی مولاہ(جس جس کامیں مولا وسردار ہوں اس کایہ علیؑ مولاوسردار ہے۔)

مناسب ہوگا کہ الاصابہ فی تمییز الصحابہ کی عبارت نقل کی جائے العسقلانی یوں رقمطراز ہیں:

عبد الرحمٰن بن عبدرب الانصاری ذکرہ ابن عقدہ فی کتاب المولاۃفی من روی حدیث:من کنت مولاہ فعلیٌّّ مولاہ وساق من طریق الاصبغ بن نباتہ قال لما نشدعلیٌّ الناس فی الرحبہ من سمع النبی ؐ یقول یوم غدیر خم ماقال الاقام، ولایقوم الامن سمع، فقام بضعۃ عشررجلاً منہم :ابوایوب، ابوزینب وعبد الرحمٰن بن عبدرب فقالوا نشہد انا سمعنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یقول ان اللہ ولی وانا ولی المومنین ؛فمن کنت مولاہ فعلی مولاہ [82]

اس عظیم محقق کی عبارت کے مطابق دس سے زیادہ افراد کھڑے ہوئے اورگواہی دی کہ ہم نے سنا تھا کہ پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا:بے شک اللہ ولی ہے میں بھی مومنین کاولی ہوں پس جس کامیں مولا ہوں اس کاعلیٰ ؑ مولا ہے۔

ابصارالعین نے بھی بیان کیا ہے کہ کان ھذا صحابیاً و علمہ امیر المومنین القرآن ورباہ وہواحدرواۃ حدیث من کنت مولاہ۔۔۔حین طلب علیہ السلام۔۔۔

یعنی یہ صحابی پیغمبرؐ تھے حضرت علیؑ نے ان کی تربیت کی اورانہیں قرآن مجید کی تعلیم دی اورمن کنت مولاہ کی حدیث کو اس صحابی نے اس وقت بیان کیا جب حضرت علیؑ نے گواہی طلب کی تھی۔ [83]

پیغمبرؐ کی وفات کے بعدکوفہ میں سکونت اختیار کرلی اورکوفہ کی معروف شخصیت تھے یہی وجہ ہے کہ کوفہ میں امام حسینؑ کے لیے لوگوں سے بیعت طلب کرتے تھے لیکن جب کوفہ میں امام حسینؑ کے لیے راہ ہموار کرنے میں ناکام ہوئے تو کربلا میں امام ؑ سے ملحق ہوکردشمن کے خلاف جنگ لڑتے ہوئے پہلے حملہ میں یابعداز ظہر [84] شہید ہو گئے۔

عبد اللہ بن ابو سفیان بن حارث بن عبد المطلب ترمیم

کتاب شہدائے کربلا نے درج ذیل عبارت الاصابہ سے نقل کی ہے: ابو الہیاج عبد اللہ بن ابی سفیان بن حارث بن عبد المطلب بن ہاشم الہاشمی۔[85] لیکن جب کچھ معاصرین نے مراجعہ کیا تو موجود الاصابہ کی عبارت اس طرح تھی: عبد اللہ بن الحارث بن عبد المطلب بن ہاشم الہاشمی ابن عم النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و کان اسمہ عبدشمس فغیرہ النبیؐ۔ [86] حالانکہ وہ عبد اللہ اس عبد اللہ کے چچا بنتے ہیں۔لگتا ہے یہ چچا کے ساتھ تشابہ اسمی کی وجہ سے غلطی ہوئی ہے۔

عبداللہ بن ابوسفیان کے والد ابو سفیان بن حارث حضرت رسول اکرمؐ کے عموزاد اوربرادررضاعی اور حضرت علی کے بہنوئی بھی تھے۔ عبد اللہ کی والدہ جمانہ بنت ابی طالب یا فغمہ بنت ہمام تھیں۔ عبد اللہ صحابی رسولؐ ؐ، عظیم شاعربھی تھے اورانہوں نے پیغمبرؐ سے روایت بھی نقل کی ہے۔ اپنے بعض اشعار میں حضرت علیؑ کی مدح وثنا بھی بیان کی ہے۔

حضرت رسول اکرمؐ کی وفات کے بعدامام علیؑ کے ساتھ رہے انھیں کے ہمرکاب مختلف جنگوں میں شرکت کی ایک مرتبہ جب حضرت عبد اللہ کوعلم ہواکہ عمروعاص نے بنی ہاشم پرطعن وتشنیع اورعیب جوئی کی ہے تو عمرو بن عاص پرسخت غصہ ہوئے اوراسے موردعتاب قرار دیا آخر تک اہل بیتؑ کے ہمراہ رہے کربلا میں جب حضرت امام حسینؑ کامعلوم ہواتو ان کی خدمت میں پہنچ کراپنی وفاداری کاعملی ثبوت دیا۔اس طرح عاشور کے دن رسول خداؐ کے نواسہ کی حمایت کرتے ہوئے یزیدی فوج کے ہاتھوں شہید ہو گئے۔ [87]

عبد اللہ بن یقطر ترمیم

عبد اللہ بن یقطر صحابی رسول تھے۔

عقبہ بن صلت ترمیم

عقبہ بن صلت جہنی صحابی رسول تھے۔

عمار بن ابی سلامہ ہمدانی ترمیم

عمار بن ابی سلامہ ہمدانی صحابی رسول تھے۔

عمرو بن ضبیعۃ ترمیم

مختلف منابع رجال ومقاتل میں ذکر ہوا ہے کہ عمرو بن ضبیعہ ضعبی صحابی پیغمبرؐ تھے اورکربلا میں حضرت امام حسینؑ کے ہمرکاب شہادت پائی۔کتاب فرسان الہیجاء میں الاصابہ سے نقل کیا گیا ہے کہ ھوعمروبن ضیبعۃ بن قیس بن ثعلبہ الضبعی التمیمی لہ ذکرفی المغازی۔۔۔نیزرجال استرآبادی سے بھی نقل کرتے ہوئے یوں بیان ہوا ہے:قال المحقق استرآبادی فی رجالا ھوعمروبن ضبیعہ۔۔۔وکان فارساً شجاعاً لہ ادراک۔[88]

جناب مامقانی نے بھی انھیں صحابی ادراکی نقل کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ یہ تجربہ کار اورماہر جنگجو شخص تھا کئی ایک جنگوں میں شرکت کی نیز شجاعت میں شہرت رکھتا تھا۔ [89]

ابتدا میں عمرسعد کے لشکر کے ساتھ وارد کربلا ہوالیکن جب دیکھا کہ عمرسعد نواسہ رسولؐ کے قتل کاارادہ رکھتا ہے توفوراً حضرت امام حسینؑ کے ساتھ ملحق ہو گئے حملہ اولیٰ میں شہادت پائی زیارت ناحیہ میں عمر کے نام سے ذکرہوا ہے:السلام علی عمربن ضبیعہ الضجی۔ [90]

عون بن جعفر طیار ترمیم

عون بن جعفر طیار کی کنیت ابو القاسم ہے حضرت جعفر ابن ابی طالب کے بیٹے ہیں اگرچہ سنہ ولادت واضح بیان نہیں ہوا لیکن چونکہ واقعہ کربلا میں 54 یا 57 سال کے تھے لہذا امکان ہے کہ 4 ھ یا 7 ھ کوحبشہ میں ولادت ہوئی ہوگی۔

یعقوبی کے نقل کے مطابق حضرت رسول اکرمؐ نے جنگ موتہ میں حضرت جعفر طیار کی شہادت کے بعد سال ہشتم ہجری میں عون اوران کے بھائی عبداللہ اور محمد کواپنی گود میں بٹھایا اورپیارکرتے رہے۔ [91] ایک روایت کے مطابق رسول اکرمؐ نے حضرت جعفرطیار کے بیٹوں کوبلایا اورنائی کو بلاکر کہا کہ ان بچوں کے سر کی اصلاح کرے اورپھرفرمایا:عون خلقت اوراخلاق میں میری شبیہ ہے۔ [92]

جناب عون کا شمار حضرت علی ؑ کے یار و انصار میں ہوتا ہے حضرت علیؑ کے ہمراہ جنگوں میں بھی شریک رہے حضرت ام کلثوم بنت علی (حضرت زینب صغری) کاعقد حضرت علی ؑ نے عون سے کیاتھا۔ [93]

حضرت علیؑ کی شہادت کے بعد ہمیشہ امام حسن وحسین علیہماالسلام کے ساتھ رہے یہاں تک کہ جب حضرت امام حسینؑ علیہ السلام یزید بن معاویہ کے مظالم کی وجہ سے مدینہ سے روانہ ہوئے تو حضرت عون بھی اپنی زوجہ محترمہ (ام کلثوم) کے ہمراہ اپنے مولا کے ساتھ اس جہاد میں شریک رہے اور روز عاشور حضرت علی اکبرؑ کی شہادت کے بعد حضرت امام ؑکی اجازت سے وارد میدان ہوئے 30 سوار اور 18 پیادے واصل جہنم کیے لیکن زید رقاد جہنمی نے آپ کے گھوڑے کوزخمی کر دیا جس کی وجہ سے آپ گھوڑے پرنہ سنبھل سکے پھر اس ملعون نے تلوار کاوار کرکے شہیدکردیا۔

ان کے رجز کوتاریخ نے یوں نقل کیا ہے:

ان تنکرونی فانا بن جعفر شہید صدق فی الجنان ازہر

یطیر فیہا بجناح اخضر کفی بہذٰا شرفاً فی المحشر [94]

کنانہ بن عتیق ترمیم

جناب کنانہ بن عتیق تغلبی کوفہ کے شجاع اورمتقی وپرہیزگار افراد میں سے تھے اوران کاشمار قاریان کوفہ میں ہوتا ہے۔[95]

جناب کنانہ اوران کاباپ عتیق حضرت رسول اکرمؐ کے ہمرکاب جنگ احدمیں شریک ہوئے۔(101) تنقیح المقال، ج2، ص42۔(101)وسیلۃ الدارین نے کنانہ کے ترجمہ کورجال ابوعلی سے یوں نقل کیا ہے :قال ابوعلی فی رجالا کنانۃ بن عتیق الثعلبی من اصحاب الحسینؑ قتل معہ بکربلا وقال العسقلانی فی الاصابہ ھوکنانۃ بن عتیق بن معاویہ بن الصامت بن قیس الثعلبی الکوفی شہداء احداً ہووابوہ عتیق فارس رسول اللہ(ص) وقدذکرہ ابن منذہ فی تاریخہ۔ [96]

خلاصہ کلام یہ ہے کہ جناب کنانہ بھی ان اصحاب رسول خداؐ میں سے ہیں جوحضرت امام حسین علیہ السلام کی مدد ونصرت کے لیے کربلا تشریف لائے اوراپنی جانوں کونواسہ رسولؐ کے قدموں میں نچھاور کیا زیارت رجبیہ اورناحیہ میں ان پرسلام پیش کیاگیاہے:السلام علی کنانۃ بن عتیق۔ [97]

مجمّع بن زیاد جہنّی ترمیم

مجمع بن زیاد جہنی حضرت رسول اکرمؐ کے اصحاب میں سے تھے جنگ بدرواحد میں شریک رہے مختلف منابع نے ان کوصحابی رسولؐ اورشھیدکربلا کے عنوان سے ذکرکیا ہے جیسے ذخیرۃ الدارین، حدایق، ابصارالعین، تنقیح المقال، اوروسیلۃ الدارین وغیرہ

کتاب الدوافع الذایتہ نے الاستعیاب سے عبارت نقل کی ہے کہ ھومجمّع بن زیاد بن عمروبن عدی بن عمروبن رفاعہ بن کلب بن مودعۃ الجھنی شھدا بدراً واحد

اس کے عبارت کے نقل کرنے کے بعدخود تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اَی انّہ صحابیٌ جلیل بناً علی ذالک۔۔۔

تنقیح المقال نے بھی الاصابہ اورالاستعیاب سے اس طرح کی عبارت نقل کی ہے کہ یہ صحابی رسولؐ تھے بدرواحدمیں شریک بھی رہے لیکن ہمارے ہاں موجود الاصابہ میں یہ عبارت موجود نہیں۔

بہرحال جناب مجمع نے کوفہ میں حضرت مسلم کی بیعت کی سب لوگ حضرت مسلم کوچھوڑ گئے لیکن حضرت مجمع ان افراد میں سے تھے جوڈٹے رہے اورکوفہ میں حالات سازگار نہ ہونے کیوجہ سے کربلا میں حضرت امام حسینؑ سے ملحق ہوکریزیدی ارادوں کوخاک میں ملانے کی خاطر حضرت امام حسینؑ کاساتھ دیا یہاں تک کہ اپنی جان قربان کردی دشمن کربلا میں اس مجاہد کوآسانی سے شکست نہ دے سکا توان کامحاصرہ کر لیا جاتا ہے جس کی وجہ سے شہیدہوجاتے ہیں۔ [98]

مجمع خود جہینہ (مدینہ منورہ کے قریب ایک علاقہ) کے مقامی تھے جب امام یہاں سے گزرنے لگے تو مجمع دو صحابی عقبہ بن صلت جہنی اور عباد بن مہاجر جہنی اور چند دیگر افراد کے امام سے ملحق ہوئے اور آخر تک تا بوقت شہادت امام کے ساتھ تھے۔[99]

منزل زبالہ پر باقی افراد ساتھ چھوڑ گئے مگر یہ تین افراد ساتھ رہے اور پہلے حملے میں خوب دفاع کیا اور لڑے اور تیروں سے چھلنی ہو کر تینوں نے شہادت پائی۔[100]

محمد اصغر بن جعفر بن ابی طالب ترمیم

کچھ تاریخی کتب میں ملتا ہے کہ جعفر بن ابی طالب کے دو بیٹے کربلا میں شہید ہوئے۔ یعنی صحابی رسول عون بن جعفر کے علاوہ محمد اصغر بن جعفر بھی شہید ہوئے۔[101]

مسلم بن عوسجہ ترمیم

مسلم بن عوسجہ اسدی کا ذکر شیعہ وسنی کے تمام معتبر ترین منابع جیسے الاستعیاب، الاصابہ، طبقات بن سعد، تنقیح، تاریخ طبری وغیرہ میں موجود ہے کہ یہ صحابی رسول خداؐ تھے اورصدراسلام کے بزرگ اعراب میں شمار ہوتے تھے ابتدائے اسلام کی بہت سی جنگوں میں شریک رہے غزوہ آذربائیجان اورجنگ جمل وصفین ونہروان میں بھی شرکت کی حضرت علیؑ کے باوفا یارومددگار تھے۔ [102] نیز مختلف صفات کے مالک بھی تھے شجاع وبہادر ہونے کے ساتھ ساتھ قاری قرآن، عالم علوم اورمتقی وپرہیزگار، باوفا اورشریف انسان تھے۔[103]

حضرت مسلم بن عقیل کے کوفہ وارد ہوتے ہی ان کی مددونصرت میں پیش پیش تھے اوران کی حمایت میں لوگوں سے بیعت لیتے تھے نیز مجاہدین کے لیے اسلحہ کی فراہمی اوردیگر امدادی کارروائیوں میں مصروف رہے۔[104]

حضرت مسلم وجناب ہانی بن عروہ کی شہادت کے بعد مخفی طورپررات کے وقت اپنی صحابیہ زوجہ کوساتھ لے کر حضرت امام حسینؑ کی خدمت میں پہنچے سات یاآٹھ محرم کومسلم کوفہ سے کربلا پہنچ گئے اورسپاہ یزید کے خلاف ہرمقام پرپیش پیش رہے۔جب امام ؑ نے حکم دیا کہ خیمہ کے اطراف میں آگ روشن کی جائے توشمرملعون نے آکر توہین آمیز جملات کہے جس پرمسلم بن عوسجہ نے حضرت امام حسینؑ سے عرض کی کہ اگراجازت دیں تواسے ایک تیرسے ڈھیر کردوں لیکن حضرتؑ نے فرمایا نہیں کیونکہ میں پسند نہیں کرتا کہ ہماری طرف سے جنگ کاآغاز ہو۔ [105]

شب عاشور جس وقت امام حسینؑ نے اپنے اصحاب کوچلے جانے کی اجازت دی توجہاں بعض دیگر اصحاب امام ؑ نے اپنی وفاداری کایقین دلایا وہاں حضرت مسلم بن عوسجہ نے جوتاثرات بیان کیے وہ سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہیں عرض کی:خدا کی قسم!ہرگز نہیں چھوڑ کے جاؤں گا یہاں تک کہ اپنے نیزہ کو دشمن کے سینہ میں توڑ نہ دوں'خدا کی قسم اگرستر بار مجھے قتل کردیاجائے پھرجلاکر راکھ کر دیاجائے اور ذرہ ذرہ ہوجاؤں پھراگر زندہ کیاجاؤں توبھی آپؑ سے جدانہیں ہوں گا۔۔۔۔۔۔یہاں تک کہ ہربار آپؑ پراپنی جان قربان کروں گا اس لیے کہ جان توایک ہی جائے گی لیکن عزت ابدی مل جائے گی۔ [106]

حضرت مسلم بن عوسجہ عظیم صحابی رسول ؐوامامؑ ہیں کہ جن کوحضرت امام حسینؑ نے ایک آیت قرآنی کا مصداق قرار دیا جب مسلم بن عوسجہ پچاس دشمنوں کوہلاک کرنے کے بعد شہید ہو گئے توحضرت امامؑ فوراً ان کی لاش پر پہنچے اورفرمایا:خداتم پررحمت کرے اے مسلمپھر اس آیت کی تلاوت کی : (فمنہم من قضٰی نحبہ ومنہم من ینتظر ومابدلواتبدیلاً)[107] اس طرح امام ؑ نے اپنے نانا رسول اللہؐ کے صحابی کوالوداع کہا :السلام علی مسلم بن عوسجہ الاسدی۔۔۔وکنت اول من اشتری نفسہ واول شہید شہداللہ

نعیم بن عجلان ترمیم

ایک روایت کے مطابق نعیم اوران کے دوبھائیوں نظرونعمان نے حضرت رسول اکرمؐ کودرک کیا اس طرح یہ صحابی ادرکی ہیں خزرج قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے حضرت رسول اللہ ؐ کی وفات کے بعد امام علی علیہ السلام کے ساتھ جنگ صفین میں حضرت کاساتھ دیاحضرت علیؑ نے ان کے بھائی نعمان کوبحرین کے علاقے کاوالی بنایا۔[108]

نعیم کے دونوں بھائی حضرت امام حسن ؑ کے زمانہ میں انتقال کرگئے جبکہ نعیم کوفہ میں زندگی بسرکر رہے تھے کہ مطلع ہوئے کہ حضرت امام حسینؑ عراق میں وار د ہو چکے ہیں کوفہ کوترک کرتے ہیں اورحضرت امام ؑ کی خدمت میں حاضر ہوکر غیرت دینی کاعملی ثبوت پیش کرتے ہیں اورنواسۂ رسولؐ کے ساتھ اپنی وفاداری کااعلان کرتے ہوئے سپاہ یزید کے خلاف جنگ میں اپنے خون کاآخری قطرہ بھی قربان کردیتے ہیں۔[109]کتاب مناقب کے مطابق روزعاشوراولین حملہ میں جان بحق نوش کیا۔[110] زیارت ناحیہ اوررجبیہ میں ان پرسلام ذکرہواہے:السلام علی نعیم بن العجلان الانصاری۔ [111]

حارث بن نبہان ترمیم

حارث بن نبہان صحابی رسول تھے۔کربلا میں شہید ہوئے۔

صحابہ جو کربلا میں نہیں تھے ترمیم

قیام کے دیگر حامی و ناصر صحابہ

  1. عبد اللہ بن جعفر
  2. جابر بن عبد اللہ انصاری نابینا تھے۔
  3. ابو برزہ اسلمی64 ھ وفات پائی۔ اصحاب علی میں سے تھے۔ یزید کو راس الحسین پر چھڑی مارنے اور شراب پھینکنے پر ٹوکا تھا۔یزید نے دربار سے نکال دیا تھا۔
  4. سہل بن سعد ساعدی آخری مدنی صحابی ہیں۔ 91ھ میں 96 سال کی عمر میں وفات پائی۔

پیغمبر اسلام کی وفات کے وقت ان کی عمر 15 سال تھی۔ اور چھٹے امام جعفر صادق کا بچپن دیکھا تھا۔ پیغمبر اسلام اور حضرت علی سے روایات نقل کی ہیں۔ اس نے شام میں کربلا کے قیدیوں کے قافلے سے بھی زیارت کی اور شیعوں کے چوتھے امام سجاد کی مدد کی۔

وہ واقعہ غدیر کے ساتھ ساتھ کربلا اور اس کے بعد کے واقعات کے راوی ہیں۔ انھوں نے بازار شام میں کربلا کے قیدیوں کی آمد کے بارے میں بیان کیا: میں بیت المقدس جا رہا تھا۔ جب میں شام کے قریب پہنچا تو میں نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ شہر کو سجا رہے ہیں اور جشن منا رہے ہیں۔ میں نے پوچھا: کیا شامیوں کی آج کوئی عید ہے جس کے بارے میں میں نہیں جانتا؟ میں نے جواب سنا: اے بوڑھے! کیا آپ صحرا سے آئے ہیں؟ میں نے کہا: میں سہل ابن سعد ہوں اور میں نے رسول خدا کو دیکھا ہے۔ کہنے لگے: یہ حیرت کی بات ہے کہ آسمان خون نہیں بہاتا اور زمین اپنے لوگوں کو نگلتی نہیں! میں نے کہا: کیا ہوا؟ کہنے لگے: یہ نیزے پر جو سر ہےحسین بن علی نواسہ رسول کا سر ہے جو عراق سے تحفہ لائے ہیں! میں آگے بڑھا اور نیزوں پر سر دیکھے۔ ایک سر سب سے زیادہ پیغمبر اسلام سے ملتا جلتا تھا اور اس کے پیچھے عورتیں اونٹوں پر سوار تھیں۔ میں قریب گیا۔ میں نے پہلی خاتون سے پوچھا: وہ کون ہے؟ اس نے کہا: میں سکینہ ہوں، حسین کی بیٹی ہوں۔ میں نے کہا: میں سہل بن سعد ہوں، تیرے جد محمد کے ساتھیوں میں سے ہوں، اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو میں اسے فراہم کروں گا! اس نے کہا: نیزوں پر سر اٹھانے والے سے کہو کہ آگے بڑھے تاکہ لوگ اسے دیکھیں اور ان کی نظریں پیغمبر کی آل و عترت پر نہ پڑیں! سہل کہتے ہیں: میں نیزہ بردار کے پاس گیا اور اسے کچھ رقم دی اور کہا: اپنا سر والا نیزہ عورتوں کے آگے رکھو۔ اور اس نے قبول کر لیا۔ [112]

  1. عامر بن واثلہ آخری صحابی تھے۔

صحابیات ترمیم

  1. زینب بنت علی
  2. ام کلثوم بنت علی
  3. ام امومنین ام سلمہ ہند بنت ابی امیہ
  4. اسما بنت ابی بکر

کربلا کے بعد قیام کرنے والے صحابہ ترمیم

واقعہ کربلا کے بعد صحابہ کرام اور تابعین میں سے کئی شخصیات نے یزید کی بد اعمالیوں پر اعتراض کرتے ہوئے قیام کیا۔ بزرگ صحابہ میں سے قیام یا احتجاج کرنے والے درج ذیل افراد ہیں۔

  1. مختار بن ابی عبیدهٔ ثقفی نے کوفہ میں یزید کے خلاف قیام کیا اور کربلا کے یزیدی ظالم قاتلین سے کچھ بدلے لیے اور مصعب بن زبیر تابعی کے ہاتھوں شہید ہوئے۔
  2. عبد اللہ ابن زبیر نے مکہ میں یزید کے خلاف قیام کیا۔
  3. عبد اللہ بن حنظلہ نے مدینہ میں یزید کے خلاف قیام کیا۔

حوالہ جات ترمیم

  1. اقبال الاعمال، ج 3، ص 79
  2. وسیلۃ الدارین، ص106
  3. فرسان الہیجاء، ذبیح اللہ محلاتی، ص36
  4. شہدائے کربلا، گروہ مصنفین، ص358
  5. سورۂ فتح، آیت 17
  6. تنقیح المقال، مامقانی، ج1، ص154
  7. مقتل الحسین، مقرم، ج2ص253
  8. الاستعیاب، ابن عبد البر، ج1، ص112
  9. یہ مطلب درج ذیل کتب میں بھی موجود ہے:اسد الغابہ، ابن اثیر، ج1، ص122۔تاریخ الکبیر، بخاری، ج2، ص30۔ الاصابہ فی تمییز الصحابہ، ابن حجر العسقلانی، ج1، ص270
  10. فرسان الہیجاء، محلاتی، ص37
  11. انساب الاشراف، بلاذری، ج3، ص175 (دارالتعارف)
  12. فرسان الہیجاء، ص37
  13. حیاۃ الامام الحسینؑ، ج3، ص234
  14. الفتوح، ج5، ص196
  15. الاقبال، ج3، ص344
  16. منتہی الآمال، ج1، ص
  17. الاصابہ، ج1، ص349
  18. الاصابہ، ج1، ص118
  19. فرسان الہیجاء، ص54
  20. تنقیح المقال، ج1، ص198
  21. وسیلۃ الدارین، زنجانی، ص112
  22. مقتل الحسینؑ، ابی مخنف، ص115، 116
  23. زندگانی امام حسینؑ، رسول محلاتی، ص252
  24. تنقیح المقال، مامقانی، ج1، ص234(تین مجلد)
  25. فرسان الہیجاء، ص76
  26. تنقیح المقال، ج2، ص327
  27. حماسہ حسینی، استاد شہید مطہری ؒ ج2، ص327
  28. شہدائے کربلا عبدالحسین بینش، ص282
  29. تاریخ طبری، ج 5، ص226
  30. تاریخ طبری، ج 5، ص226
  31. انساب الاشراف، البلاذری، ج3، ص198
  32. قاموس الرجال، ج2، ص724
  33. الکامل فی التاریخ، ابن اثیر، ج 4، 74
  34. تنقیح المقال، ج1، ص234
  35. شہدائے کربلا عبدالحسین بینش، ص115
  36. شہدائے کربلا عبدالحسین بینش، ص136
  37. وسیلۃ الدارین، ص 114
  38. تاریخ اسلام، ابن عساکر، ج11، ص303
  39. تنقیح المقال، ج1، ص236
  40. رجال، شیخ طوسی ؒ، ص72، اقبال، ج3، ص346
  41. شہدائے کربلا عبدالحسین بینش، ص136
  42. رجال، شیخ طوسی ؒ، ص38، 68
  43. الاصابہ، حرف حا (حبیب بن مظاہر )
  44. سفینۃ البحار، ج2، ص26
  45. تفصیلی مکالمہ ملاحظہ ہو۔ رجال کشی ص78
  46. بحارالانوار، مجلسی، ج 40، ص311۔(تسبیح یعنی سبحان اللہ'تحمید یعنی الحمد للہ، اورتہلیل یعنی لاالہ الا اللہ کہنا)
  47. تاریخ الطبری، ج5، ص352
  48. تاریخ الطبری، ج5، ص355
  49. ابصارالعین، سماوی، ص78
  50. اعیان الشیعہ، ج2، ص554
  51. اسرار الشہادہ، ص 396
  52. شہدائے کربلا، ص134
  53. الفتوح، ج5، ص159
  54. اخیارالرجال، الکشی، ص79
  55. الدّمعۃ الساکبہ، ج4، ص274
  56. شہدائے کربلا، ص135
  57. فرسان الہیجاء ص138 از وسیلۃ الدارین، ص137۔
  58. اسد الغابہ، ابن اثیرعلی بن محمد، ج2، ص192، الاصابہ، ج1، ص542
  59. قاموس الرجال، شوشتری، ج2، ص402، 406
  60. تنقیح المقال، ج1، ص438
  61. شہدائے کربلا، ص164، ازتنقیح، ج1، ص437 تاریخ مدینہ دمشق، ج25، ص502
  62. اقبال، ص79
  63. جمہرۃ انساب العرب، ص395
  64. ابصارالعین، سماوی، ص134، عنصرشجاعت، ج2، ص94
  65. فرسان الہیجاء، ص154
  66. فرسان الہیجاء، ص154
  67. تنقیح المقال، ج2، ص12
  68. شہدائے کربلا، ص 180
  69. قاموس الرجال، شوشتری، ج5، ص27، 28
  70. وسیلۃ الدارین، ص155 نقل از الاصابہ، ج3، ص305
  71. فرسان الہیجاء، ص167
  72. کتاب روضۃ الشھداء ص295
  73. وسیلۃ الدارین، ص154
  74. شہدائے کربلا، ص198
  75. اقبال، ص346
  76. عنصرشجاعت، ج1، ص130
  77. یاران پائیدار، ص97
  78. تاریخ الطبری، ج5، ص352
  79. الفتوح، ج5، ص48
  80. انساب الاشراف، ج 3، ص196
  81. الاقبال، ج3، ص79
  82. الاصابہ، ج2، ص328
  83. ابصارالعین فی انصارالحسینؑ، ص92
  84. ذخیرۃ الدارین، ص270
  85. شہدائے کربلا، ص228 نقل از الاصابہ، ج7، ص151۔
  86. الاصابہ، ج 4، ص27
  87. شہدائے کربلا، ص229
  88. فرسان الہیجاء، ج2، ص7
  89. تنقیح المقال، ج2، ص332
  90. الاقبال، ج3، ص78
  91. تاریخ یعقوبی، ج 2، ص 65
  92. الاصابہ، ج 4، ص 74 ، نمبرشمار 6111۔ یہ واقعہ تفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہے۔
  93. تنقیح المقال، ج 2، ص 355
  94. مقتل الحسینؑ، خوارزمی، ج 2، ص 31
  95. ابصارالعین، ص199
  96. وسیلۃ الدارین، ص184
  97. الاقبال، ص78
  98. ابصارالعین، ص201
  99. مرضیہ محمدزادہ، شهیدان جاوید، نشر بصیرت، ص 303-304۔
  100. تنقیح المقال فی احوال الرجال، مامقانی، شیخ عبد اللہ، نجف: المطبعہ الحیریہ، 1352 ﻫ ق۔، ج2، ص53؛ ابصار العین فی انصار الحسین (ع)، سماوی، محمد بن طاہر، تحقیق محمد جعفر طبنسی، مرکز الدراسات الاسلامیہ لحرس الثورہ۔، ص201؛ الحدائق الوردیہ، محلی شہید، حمیدالدین احمد بن محمد علی، دمشق: دار اسامہ۔، ص122؛ فرسان الہیجاء، محلاتی، ذبیح اللہ، مرکز نشر کتاب، 1390 ہ ق۔، ج1، ص186؛ ذخیرة الدارین، حائری شیرازی، سید عبد الحمید، نجف: مطبعہ المرتضویہ، 1345 ﻫ ق۔، ص259؛ وسیلۃ الدارین فی انصار الحسین، موسوی زنجانی، بیروت: مؤسسہ اعلمی، 1402 ﻫ ق۔ ص192۔
  101. عمدۃ الطالب صفحہ 36
  102. فرسان الہیجاء، ج2، ص116
  103. تنقیح المقال، ج3، ص214
  104. الکامل فی التاریخ، ج 4، ص 3
  105. تاریخ الطبری، ج5، ص424
  106. تاریخ الطبری، ج5، ص419
  107. سورۂ احزاب آیت 23
  108. تنقیح المقال، ج 3، ص 274
  109. تنقیح المقال، ج 3، ص 274
  110. مناقب آل ابی طالبؑ، ج4، ص122
  111. الاقبال، ج3، ص77
  112. شیخ عباس قمی، نفس المہموم، صفحہ 205