امین احسن اصلاحی

جلیل القدر عالم دین، مفسر قرآن اور ممتاز ریسرچ سکالر

مولانا امین احسن اصلاحی (پیدائش: 1904ء— وفات: 15 دسمبر 1997ء) مدرسہ فراہی کے ایک جلیل القدر عالم دین، مفسر قرآن اور ممتاز ریسرچ سکالر تھے آپ امام حمید الدین فراہی کے آخری عمر کے تلمیذ خاص اور ان کے افکار ونظریات کے ارتقا کی پہلی کرن ثابت ہوئے۔

امین احسن اصلاحی
 

معلومات شخصیت
پیدائش 1904
اعظم گڑھ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 1997
لاہور   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی، لاہور   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی مدرسۃ الاصلاح   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ مترجم ،  الٰہیات دان ،  امام ،  کتابیات ساز ،  ماہرِ لسانیات   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو [1]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ولادت

ترمیم

امین احمد کی پیدائش 1904ء میں اعظم گڑھ کے ایک گاؤں موضع بمہور میں ہوئی۔ آپ کا تعلق ایک زمیندار گھرانے سے تھا۔

تعلیم و تربیت

ترمیم

ابتدائی تعلیم و تربیت گاؤں کے دو مکتبوں میں ہوئی سرکاری مکتب میں مولوی بشیر احمد جبکہ دینی مکتب میں مولوی فصیح احمد ان کے استاد تھے یہاں سے آپ نے قرآن مجید اور فارسی کی تعلیم حاصل کی جب دس سال کے ہوئے تو آپ کے رشتہ کے چچا مولانا شبلی متکلم ندو(مہتمم مدرستہ الاصلاح) کے ایماء پر امین احسن کے والد نے 9جنوری 1915ء کو انھیں مدرستہ الاصلاح سرائے میر میں داخل کر دیا آپ کو مکتب کے آخری(تیسرے) درجے میں بٹھایا گیا مدرسہ میں مولانا امین احسن اصلاحی نے آٹھ سال میں پرے نصاب کی تعلیم مکمل کی اس عرصے میں آپ نے عربی زبان،قرآن، حدیث،فقہ اور کلامی علوم کی تحصیل کی ،اردو ،فارسی ،انگریزی اور بالخصوص عربی میں دسترس حاصل کی کہ آئندہ کے تحقیق وتدبر کی راہیں خود طے کرسکیں مولانا امین احسن اصلاحی دوران تعلیم ایک ذہین اور قابل طالب علم کی حیثیت سے نمایاں رہے۔

ابتدائی زندگی

ترمیم

مدرسہ سے فارغ ہوتے ہی مولانا اصلاحی 1922ء میں اٹھارہ سال کی عمر میں سہ روزہ مدینہ بجنور کے نائب مدیر مقرر ہو گئے یہ اخبار ان دنوں تحریک خلافت کاعلمبردار اور سیاست میں جمعیت علمائے ہند اور کانگریس کا ہم نوا تھا اخبار کے مالک مجید حسن نے بچوں کے ایک ہفت روزہ غنچہ کی ادارت بھی مولانا کے سپرد کردی مولانا اصلاحی نے مولانا عبد الماجد دریابادی اور مولانا عبد الرحمن نگرامی کی زیر نگرانی شائع ہونے والے ہفت روزہ سچ میں بھی کام کیا۔

تلمیذیت فراہی

ترمیم

1925ء میں مولانا اصلاحی صحافت کو خیر باد کہہ کر حمید الدین فراہی کی خواہش پر علوم قرآن میں تخصص کی غرض سے ہمہ وقت مدرستہ الاصلاح سے وابستہ ہو گئے، مدرسہ میں تدریسی فرائض کی بجا آوری کے ساتھ ساتھ دیگر اساتذہ کے ساتھ مولانا فراہی سے درس قرآن لینے لگے آپ نے مولانا فراہی سے صرف علوم تفسیر ہی نہیں پڑھے بلکہ استاد کے طریقہ تفسیر میں مہارت بھی حاصل کی ،عربی شاعری کی مشکلات میں ان سے مدد لینے کے ساتھ ساتھ سیاسیات اور فلسفہ کی بعض کتب بھی ان سے پڑھیں۔

جماعت اسلامی میں شمولیت

ترمیم

جماعت اسلامی کی تشکیل 26 اگست 1941ء کو ہوئی، مولانا اصلاحی اگرچہ تاسیسی اجتماع میں شریک نہ ہوئے لیکن ان کے مخلصانہ تعلق کے پیش نظر ان کو جماعت اسلامی کے ارکان میں شامل کرکے الہٰ آباد، بنارس، گورکھپور، فیض آباد، ڈویژن اور صوبہ بہار کا صدر مقام سرائے میر کو قرار دے کر مولانا اصلاحی کو اس کا نائب مقرر کر دیا گیا، کچھ ہی عرصہ میں آپ کو مولانا مودودی اور ارکان شورٰی کے ہاں اتنا اعتماد حاصل ہو گیا کہ آپ کو مولانا مودودی کے جانشین کی حیثیت حاصل ہو گئی ،بعض اختلافات کی بنا پر 18 جنوری 1958ء کو آپ جماعت سے علیہدہ ہو گئے۔

تنظیم اسلامی کی کوشش

ترمیم

           ۵۸۔۱۹۵۷ء کے دوران میں مولانا مودودی مرحوم کے جن قریب ترین رفقاء نے جماعت اسلامی سے علیحدگی اختیار کی تھی‘ اُن میں اُن چاروں حضرات کے علاوہ جنہیں مولانا مرحوم کی نظربندی کے دوران مختلف مواقع پر امارت جماعت کی ذمہ داری تفویض کی جاتی رہی تھی (۱) جماعت کی قیادت کی صف دوم کا بہت بڑا حصہ شامل تھا۔ اُن میں سے بعض حضرات تو اس درجہ مایوس اور دل شکستہ ہوگئے تھے کہ انہوں نے نئی تشکیل و تعمیر کی کسی کوشش میں قطعاً کوئی حصہ نہ لیا ( جیسے مولانا عبدالجبار غازی مرحوم اور جناب سعید احمد ملک صاحب) لیکن بقیہ اکابرین میں سے مولانا امین احسن اصلاحیمولانا عبدالغفار حسن اور حکیم عبدالرحیم اشرف نے بھرپور کوشش کی کہ کوئی نئی ہیئت تنظیمی فوری طور پر وجود میں آجائے۔[2]

کچھ سال بعد یعنی سن ۱۹۶۷ میں        رحیم یار خان میں ۶‘۷ستمبر کو مجلس مشاورت کا اجتماع ہوا … اور بعد ازاں ۸‘۹ ستمبر کو کھلے اجلاس ہوئے‘ جن میں اولاً ڈاکٹر اسرار احمد ؒہی نے مجوزہ قرار داد اور اس کی توضیحات پڑھ کر سنائیں۔ پھر مولانا امین احسن اصلاحی اور مولانا عبدالغفار حسن نے مزید تائیدی اور توضیحی تقریریں کیں۔ شرکاء اجتماع کی جانب سے بعض لفظی ترامیم بھی پیش ہوئیں … اور بالآخر قرار داد کو مع توضیحات منظور کرلیا گیا‘ صرف اس فرق کے ساتھ کہ قرار داد رحیم آباد کے ان ابتدائی تین پیروں کی بجائے جو اوپر نقل ہوچکے ہیں‘ یہ پیرا شامل کیا گیا:

                                             ’’ آج ہم ﷲ کا نام لے کر ایک ایسی اسلامی تنظیم کے قیام کا فیصلہ کرتے ہیں جو دین کی جانب سے عائد کردہ جملہ انفرادی و اجتماعی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے میں ہماری ممدو معاون ہو۔‘‘

اگرچہ اس نئی تنظیم کی سربراہی یا امارت کے لیے تاحال رسمی طور پر کسی کا نام نہ تجویز ہوا تھا نہ منظور‘ لیکن اس ’’بارات کے دولہا‘‘ بہرحال مولانا امین احسن اصلاحی ہی تھے… اور اگرچہ اس نئی ہیئت اجتماعی کے نام کے بارے میں بھی متعدد تجاویز کے پیش ہونے کے باوجود کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوسکا تھا‘ تاہم چونکہ مولانا امین احسن اصلاحی ’’تنظیم اسلامی‘‘ کے نام پر مُصر تھے‘ لہذا غیر رسمی طور پر یہ نام بھی تقریباً طے شدہ ہی تھا ۔لیکن افسوس کہ چند حوادث کے رونما ہہونے کے نتیجے میں ایک جانب تو مولانا اصلاحی کی طبیعت بجھ کر رہ گئی… اور دوسری جانب بعض اہم رفقاء کے مزاج میں بھی تکدر پیدا ہوگیا۔ چنانچہ جماعت اسلامی کے ساتھ سابق تعلق کی قدرِ مشترک کی اساس پر نئی تنظیم کے قیام کی یہ آخری کوشش بھی ناکام ہوگئی۔[3]

بعدازاں تنظیم اسلامی کے قیام کیلئے مرحوم ڈاکٹر اسرار احمدؒ خود کاوشوں میں مصروف ہوگئے۔

تفسیر تدبر قرآن

ترمیم

مولانا فراہی کی محنتوں کا نتیجہ تھا کہ مولانا امین احسن اصلاحی نے ایک ایسی تفسیر قرآن لکھی جو حقیقی معنوں میں فکر فراہی کی غمازی تھی، تفسیر میں صرف ہونے والی اپنی اور استاد کی محنتوں کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ

تفسیر تدبر قرآن پر میں نے اپنی زندگی کے پورے 55سال صرف کیے ہیں جن میں 23 سال صرف کتاب کی تحریر وتسوید کی نظر ہوئے ہیں اگر اس کے ساتھ وہ مدت بھی ملا دی جائے جو استاذ امام نے قرآن کے غور وتدبر پر صرف کی ہے اور جس کو میں نے اس کتاب میں سمونے کی کوشش کی ہے تو یہ کم وبیش ایک صدی کا قرآنی فکر ہے جو آپ کے سامنے تفسیر تدبر قرآن کی صورت میں آیا ہے ، اگرچہ میں اپنے فکر کو حضرت الاستاذ کے فکر کے ساتھ ملانا بے ادبی خیال کرتا ہوں ، لیکن چونکہ واقعہ یہی ہے کہ میں نے عمر بھر استاذ کے سر میں اپنا سر ملانے کی کوشش کی ہے اور میرا فکر ان کے فکر کے قدرتی نتیجہ ہی کے طور پر ظہور میں آیا، اس وجہ سے یہ جوڑ ملانے کی جسارت بھی کررہا ہوں ، اگر یہ بے ادبی ہے تو اللہ تعالٰیٰ اسے معاف فرمائے تفسیر تدبر قرآن اگست 1980ء میں مکمل ہوئی۔

خدمت حدیث

ترمیم

تکمیل تفسیر کے بعد مولانا اصلاحی نے خدمت حدیث کا ارادہ کیا، چنانچہ یکم محرم الحرام 1401ھ کو ادارہ تدبر قرآن وحدیث کا قیام عمل میں لایا جس کے صدر مولانا اصلاحی اور ناظم خالد مسعود مقرر ہوئے ادارہ کی تحقیقات اور مولانا کے دروس کی اشاعت کے لیے 1981ء میں مجلہ تدبر کا اجرا ہوا، اسی طرح ادارہ میں درس قرآن اور حدیث کا ہفتہ وار سلسلہ جاری کیا گیا، 1993ء میں پیرانہ سالی اور نقاہت کے باعث سلسلہ درس منقطع ہو گیا۔[4]

تصانیف

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. عنوان : Identifiants et Référentiels — ایس یو ڈی او سی اتھارٹیز: https://www.idref.fr/179931520 — اخذ شدہ بتاریخ: 13 مئی 2020
  2. "Tanzeem Digital Library | Read Book"۔ www.tanzeemdigitallibrary.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 نومبر 2024 
  3. "Tanzeem Digital Library | Read Book"۔ www.tanzeemdigitallibrary.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 نومبر 2024 
  4. حمید الدین فراہی اور جمہور کے اصول تفسیر:صفحات 64 تا66

بیرونی روابط

ترمیم