ام وہب بنت عبد (وفات: 61ھ) عبد اللہ بن عمیر کلبی کی زوجہ اور شہدائے کربلا میں سے تھیں۔

ام وہب اپنے شوہر کے ہمراہ شب میں کوفہ سے کربلا آئیں اور میدان کربلا میں امام حسین (علیہ السلام) کے لشکر سے ملحق ہوئیں۔ روز عاشورا جب ان کے شوہر جنگ کے لیے چلے گئے تو انھوں نے امام جنگ کی اجازت طلب کی لیکن امام نے منع فرمایا۔ شوہر کی شہادت کے بعد وہ ان کے چہرے سے خون صاف کر رہی تھیں کہ شمر بن ذی الجوشن کے غلام رستم نے انھیں بھی شہید کر دیا۔

وہ ایک بہادر خاتون تھیں جو اپنے شوہر عبد اللہ بن عمیر کلبی کے ہمراہ کربلا میں شہادت کے درجے پر فائز ہوئیں۔ قابل ذکر ہے کہ کربلا کے دلخراش واقعے میں حضرت امام حسین علیہ السلام کے قافلے میں تین ایسی شجاع و بہادر خاتون تھیں جنھوں نے یزيدیوں سے مقابلہ کیا جن میں سے دو عورتیں حضرت امام حسین علیہ السلام کے حکم سے میدان جنگ سے خارج ہوگئیں لیکن ام وھب کربلا کی جنگ میں موجود تھیں اور شہادت کے اعلی درجے پر فائز ہوئیں۔

ام وھب کا شمار ان معدودے چند خواتین میں ہوتا ہے جو اپنے شوہر سے والہانہ عشق و محبت کے علاوہ امام وقت حضرت امام حسین علیہ السلام سے بے پناہ عقیدت رکھتی تھیں اور ان کا شمار خالص شیعوں میں ہوتا تھا اس طرح کی عظیم خواتین کا وجود نہ صرف دنیا کی تاریخ بلکہ تاریخ اسلام میں بھی بہت ہی کم دیکھنے کو ملتا ہے۔

روایت میں ہے کہ جب عبد اللہ میدان کارزار میں گئے تو ام وہب نے ایک لکڑی اٹھائی اور ان کے پیچھے پیچھے میدان جنگ کی طرف گئیں تاکہ اپنے شوہر کی مدد اور دشمنوں سے جنگ کریں جب عبد اللہ نے ام وہب کو میدان میں دیکھا تو ان کے قریب آئے اور کہا کہ تم فورا خیمے میں واپس چلی جاؤ اور جنگ کو مردوں کے لیے چھوڑدو لیکن ام وہب نے اپنے شوہر نامدار سے کہا : میں تمھیں نہیں چھوڑ سکتی یہاں تک کہ تمھارے ساتھ اپنی جان قربان کردوں۔ حضرت امام حسین علیہ السلام جو پیار و محبت کے اس حسین منظر کا مشاہدہ کر رہے تھے عبد اللہ بن عمیر کلبی کی شریک حیات ام وھب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: اے ام وہب ، خدا تجھے اجر دے ، تم خیمے میں جاکر خواتین کے ساتھ بیٹھ جاؤ ، کیونکہ خواتین پر جہاد واجب نہیں ہے۔ ام وہب نے جب امام حسین علیہ السلام کے اس فرمان کو سنا تو حکم امام کی اطاعت کرتے ہوئے خیمے میں واپس چلی گئیں لیکن خیمہ گاہ سے اپنے شوہر کی شجاعت و بہادری کا نظارہ کرتی رہیں لیکن جب عبد اللہ نے جام شہادت نوش کیا تو دوڑتے ہوئے اپنے شوہر کے سرہانے پہنچ گئیں اور کہا " اے میرے سرتاج تمھیں بہشت مبارک ہو ، میں اس خدا سے جس نے تمھیں جنت کی نعمت سے سرافراز کیا ہے التجا کرتی ہوں کہ مجھے بھی تمھارے ساتھ جنت میں ہم نشیں قرار دیدے"۔

ام وہب کی شجاعت و بہادری اور حضرت امام حسین علیہ السلام اور اپنے شوہر سے ان کی وفاداری کو دیکھ کر شمر حیران و پریشان ہو گیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ابن زياد کے کچھ سپاہی لشکر حسینی میں شامل ہوجائیں اس لیے اس نے اپنے غلام رستم کو حکم دیا کہ فورا ام وہب کے سر پر ایسا گرز مارو کہ وہ ختم ہوجائیں۔ رستم نے بھی ایسا ہی کیا اور اس طرح عبد اللہ عمیر کلبی کی شجاع و بہادر شریک حیات ام وھب اپنے شوہر کی شہادت کے کچھ ہی لمحوں بعد وہ شہادت کے درجے پر فا‏ئز ہوگئیں اور اپنا مدعا حاصل کر لیا۔

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم