انور اللہ انور کی پیدائش 15 جون 1936ء کو کڑپہ میں ہوئی آپ ایک عرصے تک کڑپہ کے آرٹس کالج (Arts College) میں بہ حیثیت انگریزی لکچرار رہے۔ بعد ازاں اپنی ملازمت سے استعفیٰ دے کر وہ مسکٹ چلے گئے ار وہاں آپ نے انگریزی درس و تدریس کا کام جاری رکھا۔

شاعری ترمیم

ان کا کمال یہ ہے کہ وہ سیدھے سادے الفاظ میں اپنے جذبات و خیالات کا اظہار کر دیتے ہیں ان کی شاعری میں کلاسکیت اور غنائیت کا رنگ موجود ہے اس کے باوجود جدید رجحانات کا عکس کم ہی سہی مگر پایا جاتا ہے۔ وہ اپنی یگانگی اور بے بسی کو اس طرح پیش کرتے ہیں :

ہر شخص گم ہے اپنی ہی بستی کے درد میں

کہہ لیں گے دل کا غم کوئی پیکر تراش کر

ہر اک پتھر کی نسبت اب ہمارے ہی تو سر ہے

اکیلے ہیں مگر رشتہ ہمارا شہر بھر سے ہے

جدید طرزِ بیاں اور اظہارِ خیال کی آزادی کے زاویہ نظر سے مندرجہ ذیل اشعار ملاحظہ کریں :

اب یہ بہتر ہے کہ میں نیند میں رویا کرلوں

اشک بہہ جائے بھی تو آنکھوں کو کچھ ہوش نہ ہو

شاخوں سے ٹوٹ کر بھی میسر نہ تھا سکوں

پتے ہوا کہ پیار سے بیزار ہو گئے

اب ہم ہیں اور موج تلاطم کا انتشار

طوفاں میں پھینک آئے کنارے سمیٹ کر

غرض انور اللہ انور کی شاعری کلاسکیت اور جدیدیت کا ایک سنگم ہے وجودیت کے تعلق سے یہ شعر ملاحظہ ہو:

تجھ سے الگ تو کوئی نہیں ہے مرا وجود

ہے بھی اگر تو گم ہے یہ تیرے فراق میں

آپ کا دوسرا مجموعہ (جو غزلوں پر مشتمل ہے) ’’طلوع سحر‘‘ کے نام سے عنقریب منظر عام پر آنے والا ہے جس کی ترتیب و تزئین میں اقبال خسرو قادری کوشاں ہیں۔ آپ کی وفات تیرہ اگست سنہ 2009ء کو ہوئی۔

حوالہ جات ترمیم

[1]

  1. یہ مضمون امام قاسم ساقی کے مقالے “ شعرائے کڈپہ کی غزلوں میں جدید رجحانات “ سے لیا گیا ہے