سید نور محمد شاہ گیلانی

(باباجی صاحب سے رجوع مکرر)

خواجہ نو ر محمد تیراہی با نی آستا نہ عالیہ چورہ شریف جنہیں عر ف ِ عا م میں ’’باباجی صاحب‘کہا جا تاہے۔ آپ کا سلسلہ نسب حضرت امام حسن بن مولا علی سے ملتا ہے[1]۔

ولادت

ترمیم

اما م طر یقت خو ا جہ خوا جگا ن بابا جی نو ر محمد گیلانی کی ولا دت با سعادت 1179ھ مطابق 1766ء کو تیزئی شریف علا قہ تیراہ کے مقام پر پیداہو ئے

شجرہ نسب

ترمیم

آپ کا شجرۂ نسب شیخ عبد القادرجیلانی بغدادی سے اِس طرح ملتا ہے: خواجہ نور محمد چوراہی بن خواجہ محمد فیض اللہ بن خان محمد بن علی محمد بن شیخ سلیمان بن سلطان بن شیخ الاسلام عبد السلام بن عبدالرسول بن موسی بن حسین بن احمد متقی بن ابو نصر محمد بن ابوصالح نصر بن عبد الرزاق بن شیخ عبد القادر جیلانی [2]

علم ظاہر و باطن

ترمیم

آپ نے علو م ظا ہری و با طنی اپنے وا لد گرا می خواجہ سید محمد فیض اللہ سے حاصلکیے۔ اور ہر چہار سلاسل نقشبندیہ، چشتیہ، سہر وردیہ،قادریہ میں انہی سے بیعت و خلا فت حاصل کی۔ حضرت شا ہ عیسٰی ولی کی نظرخا ص اور توجہ کی بر کت سے آپ کو علم لدّنی سے وا فر حصہ عطا فرما یا گیا تھا۔ اور ایسا شرح صدر ہو ا تھاکہ آپ دقیق سے دقیق مسائل کو شرح و بسط سے سائل کی تشفی فر ما دیا کر تے تھے۔ اور جس طا لب کیطر ف تو جہ خصو صی فر ما دیا کر تے تھے۔ قلیل عرصہ میں ہی اسے درجۂ کما ل تک پہنچا دیا کر تے تھے۔ آپ کی ذات با برکا ت سے عرب و عجم و دیگر مما لک میں نو ر اسلا م پھیلا۔ اس قدر کثرت سے خلق خدا آپ کی ذا ت اقدس اور آپ کے خلفا ء اور سلسلہ سے فیض یا ب ہو ئی۔ کہ اما م ربا نی مجدد الف ثا نی کے بعد کے عرصہ میں اس کی نظیر نہیں مل سکتی۔ پا ک و ہند ،عرب ،یورپ جہا ں بھی جا ئیں آپ کو سلسلہ ٔ مجددیہ کے اس عظیم نور کی کر ن ضرور نظر آئے گی۔

مجددی تعلیمات

ترمیم

تعلیما ت مجددیہ کے مطا بق آپ کی طبیعت ابتدا ئی زمانہ ہی سے اتباع سنت کی طر ف مائل تھی۔ چنانچہ آپ اپنے معمولا ت زندگی میں چھو ٹی چھوٹی با توں میں اتبا عِ سنت کا بہت لحا ظ فر ما تے تھے۔ حقہ نو شی سے آپ کو سخت نفرت تھی اس سے مریدین کو منع فر ما تے تھے۔ یہا ں تک کہ کسی حقہ نو ش کو ختم خو اجگان میں بھی شرکت کی اجا زت نہ تھی۔ آپ نے نہا یت سادہ طبیعت پائی تھی آپ نے تقریباً اَسی سال تک تیزئی شریف میں قیا م فر ما یا لیکن اس دوران میں آپ نے معمولی سے مکا ن میں ہی رہائش رکھنا پسند فر مایا۔ اسی طرح مہما نو ں کے لیے بھی ایک سا دہ سا مہمان خانہ تعمیر کر وایا۔ آپ کھا نے پینے میں بالکل تکلف نہ فر ماتے تھے۔ دعوت میں ہمیشہ ہی سا دگی کی تلقین فرماتے۔ جو ملتا کھا لیتے ،جو ملتا پہن لیتے البتہ اپنے مہمان کی ہر ممکن بہتر میزبانی و عزت افزئی کی کوشش فر ماتے کسی کو ہر گز حقیر خیال نہ فر ماتے۔

چورہ شریف آمد

ترمیم

یا رانِ سلسلہ خصوصی طور پرخواجہ خواجگان شمس الہند پیرسید محمد چنن شاہ نوری دائم الحضوری آلو مہار شریف ،خواجہ ہادی نامدار شاہ نتھیالوی اور خواجہ خان عالم باولی شریف کی خواہش تھی کہ ان کا مسکن اگر علا قہ پنجاب ہو جا ئے تو نہ صرف یہ کہ ہم متوسلین کے لیے سکو ن کا با عث ہو گا۔ بلکہ پنجا ب کیا پو را ہندوستان آ پ کے فیض سے فیض یا ب ہوگا۔ آپ نے کچھ عرصہ تک تو اس کا جواب نہ دیا مگر آخر کا ر احبا ب کی خا طر اپنا مو لد ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھو ڑ دیا۔ اور تیزئی شریف سے نقل مکانی کر کے ضلع اٹک کے ایک مقام ’’چورہ‘‘ گا ؤں میں رہائش اختیا ر کر لی آہستہ آہستہ آپ کی اولا د میں سے تین صاحبزا دگان مع اپنی اولاد یہا ں ہی آ کر آ با د ہو گئے۔ صرف ایک صا حبزادے حضرت سید شاہ احمد گل وہا ں پر رہ گئے۔ بعد میں وہ بھی نقل مکا نی کر کے کوہاٹ کے قریب آ گئے۔ چورہ گاؤں جسے اب با با جی صا حب کی نسبت کی وجہ سے چورہ شریف کہتے ہیں چورہ شریف تین چھوٹی چھوٹی بستیوں پر مشتمل ہے۔ ایک ’’چورہ‘‘ جہا ں پر صرف مقا می باشندے آبا د ہیں۔ دوسری ’’ بھورا ما ر‘‘ ہے۔ اور تیسری بستی کو ’’ دربا ر شریف ‘‘ کہتے ہیں۔ یہی دربا ر شریف جنا ب با با جی خوا جہ شاہ سید نو ر محمد کا مسکن رہا ہے۔ اور یہی آپ کا مد فن اور آخری آرام گا ہ ہے۔ جنا ب با با جی صا حب خوا جہ سید نور محمد چو ُراہی نے سب سے پہلے یہا ں ایک مسجد اور ایک مکا ن بنا کر دربار شریف کی بنیا د رکھی تھی۔ جو اب خاصی آبا دی معلو م ہو تی ہے۔ اور اس آبا دی میں تما م با با جی صا حب کی اولاد ہی بستی ہے۔ اس آبادی یعنی دربار شریف کے مشرق کی طر ف ایک کونہ میں حضرت جناب بابا جی خوا جہ سید نور محمد چوراہی کا مزار ایک سادہ مگر پر کشش عما رت میں وا قع ہے۔

و صال

ترمیم

سید نور محمدتیراہی کا وصال 13شعبان المعظم 1286ھ،مطابق 17نومبر 1869ء بروزبدھ کو ہوا آپ کا مزار مقدس چورہ شریف کی ذیلی بستی دربار شریف میں مرجع خاص و عام ہے۔[3]

حوالہ جات

ترمیم
  1. https://archive.org/details/20200413_20200413_1012/page/n4/mode/1up
  2. جواہرنقشبندیہ: /از علامہ محمد یوسف مجددی :
  3. جواہر نقشبندیہ