مسلمانوں کی عبادت گاہ کو مسجد کہتے ہیں۔لفظ 'مسجد' کا لغوی مطلب ہے ' سجدہ کرنے کی جگہ'۔ اردو سمیت مسلمانوں کی اکثر زبانوں میں یہی لفظ استعمال ہوتا ہے۔ یہ عربی الاصل لفظ ہے۔ انگریزی اور یورپی زبانوں میں اس کے لیے موسک (Mosque) کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے اگرچہ بعض مسلمان اب انگریزی اور دوسری یورپی زبانوں میں بھی 'مسجد' استعمال کرتے ہیں۔تاریخی طور پر یہ کئی حوالوں سے اہم ہیں مثلاً عبادت کرنے کے لیے، مسلمانوں کے اجتماع کے لیے، تعلیمی مقاصد کے لیے حتیٰ کہ مسلمانوں کے ابتدائی زمانے میں مسجدِ نبوی کو غیر ممالک سے آنے والے وفود سے ملاقات اور تبادلہ خیال کے لیے بھی استعمال کیا گیا ہے۔ مساجد (مسجد کی جمع) سے مسلمانوں کی اولین جامعات (یونیورسٹیوں) نے بھی جنم لیا ہے۔ اس کے علاوہ اسلامی طرزِ تعمیر بھی بنیادی طور پر مساجد سے فروغ پایا ہے۔ باب:اسلام/مساجد/1

مسجدِ پیرس فرانس میں تعمیر ہونے والی پہلی مسجد ہے۔ یہ فرانس کے دارالحکومت پیرس کے قدیم حصے میں واقع ہے۔ اس مسجد کا باقاعدہ افتتاح 15جولائی 1926ء کو ہوا تھا اگرچہ اس میں پہلی نماز 1922ء میں پڑھی گئی تھی۔ یہ ایک ہیکٹر رقبے پر واقع ہے اور اس کا مینار 33 میٹر اونچا ہے۔ اس میں مدرسہ اور کتاب خانہ قائم ہیں۔ اسے فرانس اور الجزائر کی حکومتیں مسجد کی ایک کمیٹی کی مدد سے مل کر چلاتی ہیں۔ اس مسجد کا پہلا منصوبہ فرانس کی افریقی کمیٹی نے 1895ء میں بنایا تھا مگر اس وقت فرانسیسی حکومت نے اسے منظور نہ کیا۔ 1916ء میں جنگِ ورداں (Bataille de Verdun) میں پچاس ہزار مسلمان فرانس کی طرف سے جنگ کرتے ہوئے ہلاک ہوئے۔ یہ جنگ جرمنی سے ہوئی تھی۔ اسی طرح پہلی جنگِ عظیم میں فرانس کی مدد کرتے ہوئے ایک لاکھ مسلمان ہلاک ہوئے جن کا تعلق زیادہ تر شمالی افریقا کے ممالک مراکش، تیونس اور الجزائر سے تھا۔مکمل مضمون


باب:اسلام/مساجد/2

نیوجی مسجد چین کے دارالحکومت بیجنگ کی سب سے قدیم مسجد ہے جو 996ء میں تعمیر ہوئی۔ یہ بیجنگ کے مسلم آبادی کے علاقے ژوان وو ضلع میں واقع ہے جہاں تقریباً دس ہزار مسلمان رہتے ہیں۔ یہ مسجد 6 ہزار مربع میٹرز پر پھیلی ہوئی ہے۔ مسجد میں اسلامی اور چینی ثقافتوں کا ملاپ نظر آتا ہے۔ باہر سے یہ روایتی چینی طرز تعمیر سے متاثر نظر آتی ہے اور اندر اسلامی انداز جھلکتا ہے۔ 996ء میں تعمیر کے بعد 1442ء میں منگ خاندان کی حکومت کے دوران اس مسجد کو دوبارہ تعمیر کیا گیا اور چنگ خاندان کی حکومت میں 1696ء میں اس میں توسیع کی گئی۔ 1949ء میں عوامی جمہوریۂ چین کے قیام کے بعد مسجد تین مرتبہ 1955ء، 1979ء اور 1999ء میں تزئین و آرائش کے مراحل سے گذری۔مکمل مضمون


باب:اسلام/مساجد/3

جامع سلیمانیہ (ترک:Süleymaniye Camii) ترکی کے شہر استنبول کی ایک عظیم جامع مسجد ہے۔ یہ مسجد سلطان سلیمان اول (سلیمان قانونی) کے احکام پر مشہور عثمانی ماہر تعمیرات معمار سنان پاشا نے تعمیر کی۔ مسجد کی تعمیر کا آغاز 1550ء میں اور تکمیل 1557ء میں ہوئی۔ مسجد سلیمانیہ کو بازنطینی طرز تعمیر کے شاہکار ایاصوفیہ کے مقابلے میں تعمیر کیا گیا تھا۔ جسے عیسائی طرز تعمیر کا عظیم شاہکار قرار دیتے ہوئے دعوی کرتے تھے کہ اس کے گنبد سے بڑا کوئی گنبد تیار نہیں کیا جاسکتا۔ (ایاصوفیہ کو فتح قسطنطنیہ کے بعد سلطان محمد ثانی نے مسجد میں تبدیل کردیا تھا)اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے سنان پاشا نے مسجد کی تعمیر کا آغاز کیا اور یہ عظیم شاہکار تخلیق کیا۔ مسجد سلیمانیہ کی لمبائی 59 میٹر اور چوڑائی 58 میٹر ہے۔ اس کا گنبد 53 میٹر بلند اور 57.25 میٹر قطر کا حامل ہے۔ مسجد کے چار مینار ہیں کیونکہ مسجد میں چار مینار تعمیر کرنے کا حق صرف سلطان کا تھا۔ شہزادی شہزادیاں دو اور دیگر افراد ایک مینار تعمیر کرسکتے تھے۔مکمل مضمون


باب:اسلام/مساجد/4

جامع مسجد شیان چین کے صوبہ شانسی کے شہر شیان میں واقع ملک کی قدیم اور مشہور ترین مساجد میں سے ایک ہے۔ اسے پہلی بار تانگ خاندان کے ژوان زونگ (685ء تا 762ء) کے دور حکومت میں شاہراہ ریشم کے مشرقی کنارے پر قائم کیا گیا تھا۔ بعد ازاں یہ کئی مرتبہ (خصوصاً منگ خاندان کے شاہ ہونگ وو کے دور حکومت میں) تعمیر نو کے مراحل سے گذری. یہ مسجد ژیان کے مشہور ترین سیاحتی مقامات میں سے ایک ہے اور آچ بھی چین کے مسلمان اسے عبادت گاہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ مسجد کے عام روایتی طرز تعمیر کے برعکس جامع مسجد ژیان مکمل طور پر چینی طرز تعمیر کا شاہکار ہے۔ تاہم اس میں قرآنی آیات کی خطاطی ضرور کی گئی ہے۔ جامع مسجد ژیان کا کوئی گنبد یا مینار نہیں۔ مکمل مضمون


باب:اسلام/مساجد/5

سلیمیہ مسجد (ترک: سلیمیہ جامع) ترکی کے شہر ادرنہ کی ایک مسجد ہے۔ یہ مسجد عثمانی سلطان سلیم دوم کے حکم پر تعمیر کی گئی اور اسے مشہور معمار سنان پاشا نے 1568ء سے 1574ء کے درمیان تعمیر کیا۔ اسے سنان پاشا کے فن کا عظیم ترین شاہکار اور اسلامی طرز تعمیر کا شاندار نمونہ سمجھا جاتا ہے۔ اس مسجد کے مینار ترکی کے بلند ترین مینار ہیں جن کی بلندی 70.9 میٹر ہیں۔ یہ جامع مسجد ایک کلیہ (مسجد کے گرد شفا خانہ، مدرسہ، کتب خانہ اور حمام) کے مرکز میں قائم ہے جو ایک مدرسہ، دار الحدیث اور ایک آراستہ (دکانوں کی قطار) کے درمیان واقع ہے۔ اس میں ایک تاریخی شفا خانہ بھی واقع ہے جسے اب عجائب گھر بنا دیا گیا ہے۔ سنان نے مسجد کا طرز تعمیر ایسا رکھا کہ مسجد کے ہر کونے سے محراب صاف دکھائی دے۔ اس مسجد میں روایتی عثمانی طرز تعمیر کے حامل چار خوبصورت مینار بھی شامل ہیں جبکہ ایک عظیم گنبد پر اس پر موجود ہے۔ مسجد کے گرد کتب خانے، مدرسہ، حمام، لنگر خانہ، بازار، شفا خانہ اور ایک قبرستان بھی قائم کیا گیا تھا۔ مکمل مضمون


باب:اسلام/مساجد/6

سلطان صلاح الدین عبد العزیز مسجد المعروف نیلی مسجد ملائیشیا کے شہر شاہ عالم کی ایک مسجد ہے۔ یہ ملائشیا کی سب سے بڑی اور جنوب مشرقی ایشیا کی عظیم ترین مساجد میں سے ایک ہے۔ مسجد کی سب سے اہم خصوصیت اس کا نیلا اور سفید رنگ کا دلکش گنبد ہے جس کا قطر 170 فٹ اور بلندی 350 فٹ ہے۔ یہ دنیا بھر کی مساجد کے بڑے گنبدوں میں سے ایک ہے۔ مسجد کے چاروں کونوں پر بلند مینار قائم ہیں جن میں سے ہر مینار کی بلندی 460 فٹ ہے۔ یہ ملائشیا کی واحد مسجد ہے جس کے چار مینار ہیں۔ اس مسجد کی تعمیر کا حکم 14 فروری 1974ء کو سلطان صلاح الدین عبد العزیز نے اس وقت دیا جب انہوں نے شاہ عالم کو سلنگور کا نیا دارالحکومت قرار دیا۔ مسجد کی تعمیر 11 مارچ 1988ء کو مکمل ہوئی۔ اس میں 16 ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے۔ مکمل مضمون


باب:اسلام/مساجد/7

بادشاہی مسجد 1673ء میں اورنگزیب عالمگیر نے لاہور میں بنوائی۔ یہ عظیم الشان مسجد مغلوں کے دور کی ایک شاندار مثال ہے اور لاہور شہر کی شناخت بن چکی ہہے۔ یہ فیصل مسجد اسلام آباد کے بعد پورے پاکستان کی دوسری بڑی مسجد ہے، جس میں بیک وقت 60 ہزار لوگ نماز ادا کرسکتے ہیں۔ اس مسجد کا انداز تعمیر جامع مسجد دلی سے بہت ملتا جلتا ہے جو کہ اورنگزیب کے والد شاہجہان نے 1648ء میں تعمیر کروائی تھی۔ ہندوستان کے چھٹے مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر تمام مغلوں میں سے سب سے زیادہ مزہبی بادشاہ تھے۔ انھوں نے اس مسجد کو اپنے سوتیلے بھائی مضفر حسین، جن کو فداے خان کوکا بھی کہا جاتا تھا، کی زیر نگرانی تعمیر کروایا۔ 1671ء سے لیکر 1673ء تک مسجد کی تعمیر کو دو سال لگے۔ مکمل مضمون


باب:اسلام/مساجد/8

اندلس (Spain) میں مسلمانوں کے فن تعمیر کا عرصہ تقریباً سات سو برس پر محیط ہے ۔ جو آٹھویں صدی عیسوی میں جامع قرطبہ (ہسپانوی: Mezquita) کی تعمیر شروع کئے جانے سے لے کر پندرھویں صدی عیسوی میں غرناطہ کے قصر الحمراء کے مکمل ہونے کے زمانہ پر پھیلا ہوا ہے ۔ اس دوران سینکڑوں عمارات مثلاً حمام ، محلات ، مساجد، مقابر ، درس گاہیں اور پل وغیرہ تعمیر ہوئے جن کی اگر تفصیل لکھی جائے تو ایک ضخیم کتاب بن جائے ۔ اندلس میں مسلمانوں کے فن تعمیر کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ یہاں کے مسلمان حکمران اور عوام کی اکثریت پرانی ثقافت کی کورانہ تقلید کے قائل نہیں تھے ۔ بلکہ یہاں ایک نئی تہذیب نے جنم لیا تھا اور اس کے نتیجہ میں ایک نیا معاشرہ وجود میں آیا تھا۔ اس نئی تہذیب کے آثار ان کی تعمیر ات کے ہر انداز سے جھلکتے نظر آتے ہیں ۔ عرب فاتحین کا یہ قائدہ رہا تھا کہ وہ جہاں کہیں فاتح بن کر جاتے وہاں کی علاقائی تہذیب و ثقافت کو اپنا لیتے اور اپنی تعمیرات میں اس علاقہ کی طرز تعمیر کے خدو خال کو شامل کر لیتے ۔ مکمل مضمون


باب:اسلام/مساجد/9

مسجد کتبیہ یا جامع کتبیہ (عربی: جامع الكتبية) مراکش کے شہر مراکش کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ اس مسجد کا مینار موحدین کے خلیفہ یعقوب المنصور (1184ء تا 1199ء) کے دور حکومت میں مکمل ہوا۔ یہ مسجد کتبیہ اس لئے کہلاتی ہے کیونکہ اس کے نیچے کتابوں کی دکانیں تھیں۔ اس زمانے میں مراکش میں لکھنے پڑھنے کا شوق انتہا درجے تک پہنچا ہوا تھا جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کتابوں کی ان دکانوں کی تعداد ڈھائی سو تھی۔ اس مسجد کا مینار 69 میٹر (221 فٹ) بلند ہے۔ یہ مینار طرز تعمیر میں اپنے ہم عصر میناروں اشبیلیہ کے جیرالڈ اور رباط کے برج الحسان کے جیسا ہے کیونکہ یہ تینوں یعقوب المنصور کے عہد میں ہی تعمیر ہوئے۔ جیرالڈا اشبیلیہ کی جامع مسجد کا مینار ہے جبکہ برج الحسان یعقوب کے نامکمل منصوبوں میں سے ایک ہے۔ یعقوب نے رباط میں دنیا کی سب سے بڑی مسجد کی تعمیر شروع کروائی لیکن اس کی تکمیل سے قبل ہی انتقال کر گیا جس کے باعث یہ منصوبہ ادھورا رہ گیا اور صرف برج حسان اور بنیادی تعمیر ہی مکمل ہو سکی جو آج تک موجود ہے۔ مکمل مضمون


باب:اسلام/مساجد/10

مسجد جہاں نما، جو جامع مسجد دہلی کے نام سے مشہور ہے، بھارت کے دارالحکومت دہلی کی اہم ترین مسجد ہے۔ اسے مغل شہنشاہ شاہجہاں نے تعمیر کیا جو 1656ء میں مکمل ہوئی۔ یہ بھارت کی بڑی اور معروف ترین مساجد میں سے ایک ہے۔ یہ پرانی دلی کے مصروف اور معروف ترین مرکز چاندنی چوک کے آغاز پر واقع ہے۔ مسجد کے صحن میں 25 ہزار سے زائد نمازی عبادت کرسکتے ہیں۔ اس کی تعمیر پر 10 لاکھ روپے کی لاگت آئی۔ شاہجہاں نے اپنے دور حکومت میں دہلی، آگرہ، اجمیر اور لاہور میں بڑی مساجد تعمیر کرائیں جن میں دہلی کی جامع مسجد اور لاہور کی بادشاہی مسجد کا طرز تعمیر تقریباً ایک جیسا ہے۔ مسجد کے صحن تک مشرقی، شمالی اور جنوبی تین راستوں سے بذریعہ سیڑھیاں رسائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ مسجد کے شمالی دروازے میں 39، جنوبی میں 33 اور مشرقی دروازے میں 35 سیڑھیاں ہیں۔ مشرقی دروازہ شاہی گزر گاہ تھی جہاں سے بادشاہ مسجد میں داخل ہوتا تھا۔ مکمل مضمون