باب:مذہب/منتخب مذہب
مسیحیت ایک توحیدی اور ابراہیمی مذہب ہے۔ اکثر مسیحی تثلیث کا عقیدہ رکھتے ہیں جو یسوع مسیح کو خدا کا بیٹا اور خدا کا ایک اقنوم مانتے ہیں اور اسے بھی عین اسی طرح خدا مانتے ہیں، جیسے خدا اور روح القدس کو۔ جنہیں بالترتیب باپ، بیٹا اور روح القدس کا نام دیا جاتا ہے، بعض فرقے مسیح کو صرف ایک نبی مانتے ہیں۔ اپنے پیروکاروں کی تعداد کی اعتبار سے مسیحیت دنیا کا سب سے بڑا مذہب ہے۔
1972ء میں رومن کیتھولک، مشرقی راسخ الاعتقاد اور پروٹسٹنٹ گروہوں کی تعداد 98,53,63,400 تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ زمین میں بسنے والے تقریباً ہر تین افراد میں سے کسی نہ کسی کا تعلق مسیحیت سے ہے۔ ظاہری بات ہے کہ اتنے زیادہ لوگوں پر مشتمل مذہب میں عقائد و وظائف کی وسیع تعداد ہوگی۔ عمومی لحاظ سے مسیحیوں میں یسوع ناصری کی انفرادیت کے بارے میں عقیدہ مشترک ہے کہ انہوں نے اپنی صلیبی موت کے ذریعہ انسانیت کا کفارہ ادا کیا اور اپنی موت کے تیسرے دن ہی قبر سے جی اٹھے۔
یہودیت توحیدی اور ابراہیمی میں سے ایک مذہب ہے جس كے تابعين اسلام ميں قومِ نبی موسیٰ يا بنی اسرائيل کہلاتے ہيں مگر تاريخی مطالعہ ميں یہ دونوں نام اس عصر اور اس قوم كے لیے منتخب ہيں جس كا تورات كے جز خروج ميں ذكر ہے۔ اس كے مطابق بنی اسرائيل كو فرعون كی غلامی سے نبی موسٰی نے آزاد كيا اور بحيرہ احمر پار كر کے جزيرہ نمائے سینا لے آئے۔
حالانکہ یہودیت ميں كئی فقہ شامل ہيں، سب اس بات پر متفق ہيں کہ دين كی بنياد بيشک نبی موسٰی نے ركھی، مگر دين كا دارومدار تورات اور تلمود كے مطالعہ پر ہے، نہ كہ كسی ايک شخصیت كی پیروی کرنے پر۔
2006ء کے اواخر تک دنیا ميں یہودیوں كی تعداد 14 ملين تھی۔ اس وقت اسرائيل یہودی اکثریت والا واحد ملک ہے جہاں اُن كو حقِ خود اراديت پوری طرح حاصل ہے۔
شنتو جاپان کے ایک کثرت پرست مذہب کا نام ہے۔ شنتو چینی زبان کے دو الفاظ شن (神) اور تو (道) کا مرکب ہے۔ ”شن“ جو دراصل خدا کے لیے استعمال ہونے والی چینی اصطلاح ہے، اسی لفظ کو جاپانی میں کامی بھی کہا جاتا ہے، یعنی دونوں ادائیگیوں کے لیے ایک ہی چینی حرف ہے۔ ”تو“ کا مطلب راستہ یا راہ ہے۔
شنتو جاپان کا قومی مذہب ہے اور اسی قوم اور ملک تک محدود ہے۔ ہندو مت کی طرح اس کا کوئی بانی نہیں اور اس کا آغاز زمانہ قبل از تاریخ میں ہوا۔ یہ دونوں مذہب خاص قوموں کی فطرت کی عکاسی کرتے ہیں اور سماج اور ثقافت کا ہی ایک حصہ ہیں۔ ان کے دروازے دوسروں پر بند ہیں۔
جاپان کی ثقافت میں چینی اور کوریائی تاجروں اور پروہتوں کے ذریعہ بیرونی اثرات داخل ہوئے۔ 522ء میں چین سے مہایان بدھ مت جاپان میں متعارف ہوا۔ جاپان کے شہنشاہ کو بدھ مجسمہ اور کتب پیش کی گئیں۔ آخر کار آٹھویں صدی کے بعد شنتو مت اور بدھ مت ایک دوسرے میں مدغم ہو گئے اور شنتو مت کی جداگانہ حیثیت ختم ہو گئی۔ توکوگاوا کے عہد سے مذہبی مصلحین نے شنتو مت کو از سر نو زندہ کرنے کی کوشش کی۔ چنانچہ 1868ء میں جاپان میں قومی انقلاب رونما ہوا اور انھوں نے شنتو مت کو بیرونی اثرات سے پاک کر دیا۔
بدھ مت دنیا کے قدیم ترین مذاہب میں سے ایک ہے جو عیسوی صدی سے کئی سال بیشتر اس وجہ سے معرض وجود میں آیا تھا کہ ہندو مت کی ظالمانہ رسومات ختم کی جائیں۔ اور معاشرے کے اندر انصاف پر مبنی شفاف ترین تعلیمات کا بول بالا کیا جائے۔ یہ دنیا کے معرف ترین مذاہب میں سے ایک ہے اس دنیا میں اس کے پیروکاروں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ یہ مذہب بنیادی طور پر ترک دنیا کی تعلیم دیتا ہے۔ بدھ مت کے پیروکاروں کے مطابق گوتم بدھ کا اصل نام شہزادہ سدھارتھ تھا، وہ بدھ مت کا بانی ہےـ
ہندوستان بھر میں بدھ مت کے اثرات تیزی سے پھیلے۔ بدھ مت ہندوستان سے باہر بھی مقبول ہوا۔ یہ جنوب میں سیلون تک پھیلا اور مشرق میں برما تک۔ وہاں سے بڑھ کر جنوبی ایشیا میں اس نے اپنے قدم جمائے اور ملایا تک پھیلا اور پھر آگے علاقے میں سرایت کر گیا جسے اب انڈونیشیا کہا جاتا ہے۔ بدھ مت کے اثرات شمالی علاقوں میں بھی مرتسم ہوئے، یہ تبت پہنچا اور آگے شمال کی طرف افغانستان اور وسطی ایشیا تک اس کے پیروکار پھیل گئے۔ اس نے چین میں بھی جگہ بنائی جہاں اسے بڑی پذیرائی ملی۔ یہاں سے آگے جاپان اور کوریا میں اس نے اپنے پیروکار پیدا کیے۔ لیکن ہندوستان میں ہی یہ مذہب 500ء کے بعد تنزل کا شکار ہونے لگا اور 1200ء تک یہ سمٹ کر بہت مختصر طبقے تک باقی رہ گیا۔
غالباً دنیا کے تمام مذاہب میں سے قدیم ترین اور سب سے پیچیدہ مذہب ہندومت ہے۔ آج کے بہت سے فعال مذاہب تقریباً چھٹی صدی قبل مسیح میں یا بعد میں شروع ہوئے، جبکہ ہندومت کے کچھ مذہبی نظریات اور صورتیں تیسرے ہزاریے قبل مسیح میں شروع ہوئیں۔
ہندومت میں تقریباً ہر اس مذہب کی کوئی نہ کوئی صورت یا انداز ملتا ہے جو قابل تصور یا فعال رہا ہو۔ غالباً یہ تمام مذاہب میں سب سے زیادہ رواداری روا رکھنے والا مذہب ہے اور اس کی وسعت ارواح پرستی سے لے کر کچھ نہایت اعلٰی مرتبہ اور مفصل فلسفیانہ نظام تک پھیلی ہوئی ہے اس وسیع پیمانے میں ہندومت ہزاروں چھوٹے بڑے دیوتاؤں، ان کی عبادت گاہوں اور ان کے پجاریوں کو جگہ دیتا ہے۔ لہٰذا کسی ہندو کے لیے ممکن مذہبی خیالات عموماً لامحدود ہوتے ہیں۔
دنیا کے کئی دوسرے بڑے مذاہب کے برخلاف ہندومت کا کوئی قابل ذکر بانی نہیں تھا۔ اگرچہ اس کی تاریخ میں بہت سے عظیم استاد اور پیشوا گزرے ہیں، مگر کوئی بھی ایسا نہیں جس کی تعلیمات بعد کی ہندو فکر کا سرچشمہ بنی ہوں۔