برساتی (عمارت)
کئی عمارتوں میں گھر کی چھت پر ہی ایک برساتی کمرہ ہوتا ہے جو اصل عمارت سے قدرے چھوٹا یا جداگانہ نوعیت سے تعمیر شدہ ہوتا ہے۔ اسے انگریزی زبان میں اسے پینٹ ہاؤز کہتے ہیں۔
تاریخ
ترمیمسترہویں صدی کے بیرونی سیاح برنیئر کے مطابق بر صغیر کے امرا اور رؤسا کے مکان باغیچوں کے بیچ ہوتے تھے ، تاکہ چاروں اور سے آنے والی ہوا کا طلف لیا جا سکے۔ ایک برساتی کمرا ان مکانوں کی چھت پر ضرور بنا ہوتا تھا۔ شہروں میں بنے محل بالعموم دو منزلہ و چھجا نما ہوتے تھے ، چھجا منزلوں کو دو حصوں میں بانٹتا تھا۔ ان کے سایہ سے یہ محل گرمیوں میں ٹھنڈے رہتے تھے۔ سبھی محلوں میں گرمیوں میں سونے کے لیے گلیارے بنے ہوتے تھے۔ گلیارے کے ساتھ میں ہی کمرا ہوتا تھا ، تاکہ بارش ہونے پر وہاں ٹھہر سکیں۔ سردیوں میں یہ امرا اسے دھوپ سنیکنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ کچھ گھروں میں لمبا تتھا چیڑا گلیارا ہوتا تھا۔ جس میں بہار کی طرف جعلی بنی ہوتی تھی ، تاکہ اندر سے بِنا کسی کو دکھائی دیے، باہر کی طرف دیکھا جا سکے۔ پنکھوں سے کمروں کو ٹھنڈا کرنے کے طریقۂ کار کی نقل ایرانی محلوں سے کی گئی تھی۔ امیر طبقہ کی جانب سے ہنگامی حالات میں اپنے گھر کو چھوڑنے کے لیے استعمال کیے جانے والے خفیہ راستے کو کِھلسَاہ کہا جاتا تھا۔ امیروں کے دولت خانے زیادہ تر ندیوں کے کنارے پر ہوتے تھے۔ ان قیام گاہوں میں دھوپ اور گرمی سے بچنے کے لیے تہخانوں کی بھی تعمیر کروائی گئی تھی جن میں لکڑی کے بنے ہوئے بڑے بڑے پنکھے ہوتے تھے جن پر موٹا کپڑا بندھا ہوتا تھا۔[1]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ "آرکائیو کاپی"۔ 03 جنوری 2024 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 جنوری 2024