بَشیر (بِشر) بن عَمْرو حَضرَمی کِندی، شہدائے کربلا میں سے ہیں۔ روز عاشورا انھیں خبر ملی کہ رے کے سرحدی علاقہ میں ان کے بیٹے کو اسیر کر لیا گیا ہے تو امام حسین علیہ السلام نے ان سے چاہا کہ وہ اپنے فرزند کی رہائی کے لیے چلے جائیں لیکن انھوں نے امام حسین (علیہ السلام) کو تنہا چھوڑ کر جانا گوارا نہیں کیا۔

بشر بن عمرو الحضرمی الکندی
بَشیر(بُشر) بن عَمرو الحَضرَمی الکِندی
ذاتی
وفات10 محرم الحرام, 61ھ ، اکتوبر 680 عیسوی
موت کی وجہواقعہ کربلا میں شہادت
مدفنکربلا, عراق
مذہباسلام
وجہ شہرتکربلا میں حسین ابن علی کے ساتھی

نام و نسب ترمیم

مختلف منابع میں ان کا نام بشیر یا بشر اور ان کے والد کا نام عمرو یا عمر ذکر ہوا ہے۔[1] وہ حضرموت (یمن) کے رہنے والے تھے اور ان کا تعلق قبیلہ بنو کندہ سے تھا۔[2]

واقعہ کربلا ترمیم

وہ کربلا میں امام حسین علیہ السلام سے ملحق ہوئے، ان کا ایک بیٹا محمد بھی ان کے ہمراہ تھا۔ بعض منابع نے نقل کیا ہے: یوم عاشورا بشیر کو خبر دی گئی کہ ان کا بیٹا ری کی سرحد پر اسیر کر لیا گیا ہے تو انھوں نے جواب دیا: اس کا معاملہ اللہ کے حوالے کرتا ہوں۔ مجھے پسند نہیں ہے کہ وہ میرے زندہ رہتے ہوئے اسیر ہو۔ جب امام حسین (علیہ السلام) نے ان کی یہ بات سنی تو فرمایا: خدا تم پر اپنی رحمت نازل کرے، میں نے تمھیں اپنی بیعت سے آزاد کیا۔ تم جاؤ اور اپنے بیٹے کی رہائی کے لیے کوشش کرو۔ بشیر نے جواب دیا: درندے میرا زندہ شکار کریں اگر میں نے ایسا کیا اور آپ سے جدا ہوا اور آپ کو اصحاب کی قلت کے باوجود تنہا چھوڑ دوں اور آپ کا سراغ قافلوں سے دریافت کروں۔[3] امام حسین (علیہ السلام) نے فرمایا: اچھا تو ان قیمتی لباسوں کو اپنے فرزند محمد (جو کربلا میں ان کے ساتھ تھا) کو دے دو تا کہ وہ اپنے بھائی کی رہائی کے سلسلہ میں ان سے استفادہ کرے۔ امام حسین علیہ السلام نے انھیں پانچ قیمتی لباس عطا کیے جن کی قیمت ایک ہزار دینار تھی۔[4]

شہادت ترمیم

واقعہ کربلا میں ان کی شہادت کے سلسلہ میں کہ کس وقت ان کی شہادت واقع ہوئی، دو مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔ ابو مخنف کی روایت کے مطابق، جس وقت امام حسین علیہ السلام نے میدان کربلا کا رخ کرنا چاہا اس وقت اصحاب میں سے فقط دو لوگ بشیر بن عمرو و عمرو بن ابی مطاع (سوید بن عمرو خثعمی کے نقل کے مطابق) باقی بچے تھے۔[5] بشیر نے جب یہ دیکھا کہ امام جنگ کے ارادہ سے مقتل میں جانا چاہتے ہیں تو انھوں نے چاہا کہ وہ امام سے پہلے میدان قتال میں جائیں، لہذا وہ میدان میں گئے اور امام حسین (علیہ السلام) سے پہلے شہید ہو گئے۔

لیکن بعض دیگر منابع میں انھیں حملہ اول میں شہید ہونے والے افراد میں شمار کیا گیا ہے۔[6]

زیارت ناموں میں نام ترمیم

زیارت رجبیہ میں ان کا نام اس طرح ذکر ہوا ہے: السَّلَامُ عَلَی بَشِیرِ بْنِ عَمْرٍو الْحَضْرَمِی۔[7]

زیارت ناحیہ (غیر مشہور) میں بھی ان کا نام ذکر ہوا ہے: السَّلَامُ عَلَی بِشْرِ بْنِ عُمَرَ الْحَضْرَمِی شَکرَ اللَّهُ لَک قَوْلَک لِلْحُسَینِ وَ قَدْ أَذِنَ لَک فِی الِانْصِرَافِ أَکلَتْنِی إِذَنِ السِّبَاعُ حَیاً إِذَا فَارَقْتُک وَ أَسْأَلُ عَنْک الرُّکبَانَ وَ أَخْذُلُک مَعَ قِلَّةِ الْأَعْوَانِ لَا یکونُ هَذَا أَبَداً۔[8]

متعلقہ مضامین ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. ری شہری، دانش نامہ امام حسین، 1388 ج6، ص214
  2. ابصار العین، سماوی، ص173
  3. بشیر کا یہ جملہ بھی زیارت الشہدا میں نقل ہوا ہے۔
  4. ابصار العین، ص174
  5. ابصار العین، سماوی، ص169
  6. منتہی الامال، ص429
  7. شہيد اول، المزار، 1410، ص152
  8. محمد بن مشہدی، المزار الكبير، 1419، ص493

مآخذ ترمیم

  • ری شہری، دانش نامہ امام حسین، قم، دار الحدیث، دوم، 1388ش
  • سماوی، إبصار العين فی أنصار الحسين، قم، زمزم ہدایت، 1384ش
  • شہید اول (مکی عاملی، احمد)، المزار، قم، مؤسسہ امام مہدى، 1410ق
  • محمد بن مشہدی، المزار الكبير، قم، قيوم، 1419ق